جب زائرین شام سے کربلا جاتے ہیں تو سکینہ انہیں پیغام دے کر کہتی ہیں کہ میرے بابا سے کہنا کہ آپ کو پردیسی سکینہ بہت یاد کرتی ہے۔
قید خانے میں ایک واقعہ ہوگیا اور وہ یہ کہ ایک بچی کا انتقال ہوگیا۔ حاضرین مجلس! ہوا یہ کہ جس وقت یزید کا دربار ختم ہوا اور قیدی بھیجے گئے تو اس کی محل سرا کے پاس ایک خرابہ تھا، ٹوٹا ہوا مکان تھا اُس کا حکم یہ تھا کہ یہ قیدی وہاں بھیج دئیے جائیں۔ آج بھی وہاں آثار نظر آرہے ہیں کہ کہاں محل سرائے یزید تھی۔ دنیا مٹ گئی، یزید مٹ گیا لیکن اُس بچی کی قبر آج بھی باقی ہے۔ جب قیدی اس خرابے میں داخل کئے گئے اور دروازہ بند کردیا گیا تو دن میں اتنا اندھیرا ہوگیا کہ ایک کو دوسرا دیکھ نہیں سکتا تھا۔
عزادارانِ اہلِ بیت !اب ذرا آپ اپنے دلوں پر ہاتھ رکھ کر سنئے گا۔ تمام قیدی گھبرا گئے۔ انہوں نے کہاں ایسی جگہیں دیکھی تھیں جہاں دن میں بھی اتنا اندھیرا ہو۔ اپنی ماؤں کی گودیوں میں بلک بلک کر رونے لگے۔ ماؤں نے اُن کے منہ پر ہاتھ رکھا، بچو! روؤ نہیں۔ شہزادی کو تکلیف ہوگی، جنابِ زینب کو رنج ہوگا۔ جنابِ سکینہ کچھ زیادہ گھبرا گئیں اور بار بار کہتی تھیں: پھوپھی جان! ہم کہاں آگئے؟ ایک کو دوسرا دیکھ نہیں سکتا ہے، ہم یہاں کیسے زندگی گزاریں گے؟ پھوپھی! میرے بابا کب آئیں گے؟
آخر جنابِ زینب بچی کو سمجھاتی رہیں۔ صاحبانِ اولاد! بعض بچے تاریکی میں گھبرانے لگتے ہیں۔ یہ تاریکی اور گھٹن ،چونسٹھ بیبیاں، اُن کی گودوں میں بچے، جنابِ سکینہ بہت گھبرا گئیں۔ آپ نے سمجھا کر سکینہ کو سلا دیا۔ رات جو گزری اور دن آیا تو سکینہ نے کہا: پھوپھی جان! کیا یہاں دن نہیں نکلے گا؟ یہاں تو روشنی ہے ہی نہیں؟ میں گھٹ کر مرجاؤں گی۔ جنابِ زینب سمجھاتی رہیں، یہاں تک کہ جب دوسری شام آگئی تو سکینہ کچھ اتنی زیادہ گھبراگئیں کہ اب جتنا سمجھاتی ہیں جنابِ زینب ، اس بچی کو قرار نہیں آتا۔ مسلسل رو رہی ہے۔ بابا!ارے جب آپ گئے تھے تو مجھ سے فرماگئے تھے کہ میں تمہیں لینے کیلئے آؤں گا، آپ کہاں چلے گئے؟ میں کیا کروں؟میں اس جگہ کیسے رہ سکتی ہوں؟میری روح نکل رہی ہے، بابا! آئیے تقریباً آدھی رات تک یہ بچی روتی رہی۔ اس کے بعد کبھی جنابِ زینب گود میں لیتی تھیں، کبھی امام زین العابدین گودمیں لیتے تھے، کبھی جنابِ رباب گود میں لیتی تھیں۔ جنابِ رباب کے دوبچے تھے، ایک جنابِ سکینہ اور ایک جنابِ علی اصغر ۔ سکینہ کو کسی کی گود میں قرار نہیں آتا تھا۔ آخر تھک کر کچھ آنکھ بند ہوئی، تھوڑی دیر تک سوئیں، ایک مرتبہ جو اٹھیں تو اُنہوں نے آواز دی: پھوپھی جان! میرے بابا آئے ہوئے تھے، مجھے چھوڑ کر پھر کہاں چلے گئے؟ابھی ابھی مجھے گود میں لئے ہوئے تھے، مجھے پیار کر رہے تھے، وہ کہاں چلے گئے ہیں مجھے چھوڑ کر؟
یہ جو باتیں شروع کیں تو اہلِ بیت میں ایک کہرام برپا ہوگیا۔ بے اختیار ہوکر بیبیاں رونے لگیں۔ جب آوازیں بلند ہوئیں تو محل سرائے یزید تک یہی گریہ و بکا پہنچا۔ یہ ملعون جاگ اُٹھا۔ کسی سے کہا کہ پوچھ کر آؤ کہ یہ کیسا شور ہے؟ امام زین العابدین نے کہا کہ بچی یتیم ہے، اُس نے خواب میں اپنے باپ کو دیکھا ہے اور اب وہ پکار رہی ہے،یہ تمام بیبیاں اسی لئے رو رہی ہیں۔
اُس ملعون نے کیا کیا؟ یہ تھے تسلی دینے کے طریقے؟ کہا: اچھا ! باپ کو پکاررہی ہے، اُس کا سرلے جاؤ، حسین کا سر لے جاؤ اور اُس بچی کو دے دو۔یوں تسلیاں دی جاتی ہیں؟
چنانچہ امام حسین علیہ السلام کا سرلایا گیا ۔ یہ جو بیبیوں نے سنا تو سب کی سب کھڑی ہو گئیں۔ امام حسین کا سرامام زین العابدین نے لیا۔ جس وقت آپ اندر پہنچے، سکینہ نے فوراً وہ سر لے لیا اور اسے سینے پر رکھا، منہ پر منہ رکھ دیا۔ بابا! یہ گلا کس نے کاٹ ڈالا ہے؟ مجھے کس نے یتیم کردیا؟
بابا!آپ تو ابھی آئے تھے تو آپ کی گردن کٹی ہوئی نہ تھی، یہ میں کیا دیکھ رہی ہوں؟ کہتے کہتے رونے لگیں اور چیخ کر رونے لگیں۔ بیبیوں میں ایک کہرام برپا ہوگیا آخر اس بچی کی آواز کم ہونے لگی۔ جب بالکل اس بچی کی آواز بند ہوگئی تو وہ بیبیاں سمجھیں کہ شاید سوگئی ہے۔جنابِ زینب جو قریب پہنچیں اور ہاتھ رکھا تو جسم ٹھنڈا معلوم ہوا۔ جنابِ زینب نے آواز دی: سجاد بیٹا! جلدی آؤ، سکینہ اپنے بابا کے پاس جارہی ہے۔ چنانچہ امام زین العابدین علیہ السلام جب آئے تو دیکھا کہ سکینہ رخصت ہوچکی تھیں، اس دنیا سے جاچکی تھیں۔
اس بچی کی قبر وہیں بنی اُس قید خانے میں۔ عزادارو! یہ قبرستان نہ تھا، یہ قید خانہ تھا۔ اگر کوئی قیدی مرجاتا تھا ، اُن کا قبرستان الگ تھا۔ اس میں جو قبر بنی اس بچی کی تو غالباً اس کی وجہ یہی ہے کہ کوئی جنازہ اُٹھانے والا نہ تھا۔ جب اہلِ بیت رہا ہوکر جانے لگے تو جنابِ زینب نے شام کی عورتوں سے کہا کہ بیبیو! ہم جارہے ہیں، میں اپنے بھائی کی ایک نشانی چھوڑ کر جارہی ہوں، ارے جب کبھی آنا تو اس بچی کی قبر پر ذرا سا پانی چھڑک دیا کرنا۔
نام کتاب: روایات عزا
مصنف: علامہ حافظ کفایت حسین نور اللہ مرقدہ
source : tebyan