اميرالمومنين عليه السلام خطبہ 160 ميں ارشاد فرماتے ہيں:
"تمہارے لئے يہي کافي ہے کہ رسول اللہ (ص) تمہارے لئے سرچشمۂ ہدايت ہوں اور تمہارے لئے دنيا کے بھونڈے پن، عيبوں اور رسوائيوں کي کثرت اور برائيوں کے ادراک کے لئے تمہارے راہنما ہوں- اپنے پاکتر و پاکيزہ تر (اطہر و اطيب) پيغمبر صلي اللہ اللہ عليہ و آلہ و سلم کا اقتدا کرو کيونکہ جو بھي آپ (ص) کي پيروي کرے گا آپ (ص) اس کے لئے اسوہ اور نمونہ ہدايت ہيں اور شائستہ ترين انتساب آپ (ص) سے انتساب ہے- اور اللہ کا محبوبترين بندہ وہ ہے جو اپني زندگي ميں اس کے رسول (ص) کي پيروي کرے اور آپ کے نقش قدم پر چلے- [کيونکہ آپ (ص)] دنيا ميں سے کم از کم پر اکتفا کيا اور اپني آنکھ اسے ديکھنے کے لئے نہ کھولي- آپ (ع) کے پہلو سب سے زيادہ لاغر تھے اور آپ (ص) کا پيٹ سے زيادہ خالي تھا؛ دنيا آپ (ص) کو پيش کردي گئي ليکن آپ (ص) نے اسے لينے سے انکار کيا-
اسي خطبے ميں ہي اميرالمۆمنين عليہ السلام نے ايک متين اور قوي استدلال سے سيدالشہداء (ع) کے کلام سے متشابہ کلام ميں انسانوں کو دنيا سے وابستگي سے خبردار کيا ہے- اس کلام کا خلاصہ کچھ يوں ہے:
اگر مال و دولت رکھنا اور سرمائے ميں غرق ہوجانا، کمال ہوتا اور انسانوں کي برتري کا سبب بنتا تو خدا کو اپنے برترين بندوں يعني انبياء (ص) کو يہ کمال دے کر غني اور بے نياز کرديتا-
اميرالمۆمنين (ع) انبياء عليہم السلام کي زندگي کي کيفيت اور سطح کے بعض نمونے پيش کرکے ثابت کرتے ہيں کہ انبياء (ع) بالکل معمولي سي زندگي ہي کے مالک نہ تھے بلکہ غرباء کي سطح پر زندگي گذارتے تھے اور اس استدلال سے نتيجہ ليتے ہيں کہ محض دنياداري اور دولت و ثروت کمال نہيں ہے کيونکہ اگر ايسا ہوتا تو قطعي طور پر اوليائے الہي اس سے بہرہ مند ہوتے-
source : tebyan