ملت اسلامیه آج جس اقتصادی ،سیاسی اورسماجی بحران کا شکار هے جو نهایت افسوسناک هونے کے ساتھ ساتھ نهایت عبرت ناک بھی هےمسلمانوں کی موجوده ابتری اوربین الاقوامی برادری میں مسلمانوں کےساتھ خفت آمیز سلوک یه تمام مسائل اس قدر قابل لمس هیں که انکا ذکر کرنے کی ضرورت نهیں،آج جو مسلمانوں کی اقتصادی حالت هے و ه کسی پر پوشیده نهیں.دنیا کے عظیم مادی ذخائر اپنے اندر رکھنے کے باوجود آج عالم اسلام کا حال یه هے که اپنے سالانه مبادلات کے لئے انهیں ڈالر اور یورو کی مدد درکار هے تاکه وه دنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملاکر چل سکے اور ان کی اپنی چھاپی هوئی کرنسی کا بین الاقوامی بازار میں کوئی اعتبار نهیں .
زندگی گزارنے کے لئے اسلام کے بهترین جامع اور مانع قوانین اور دستورات کے باوجود اپنے سماج کی ساکھ کو بزعم خود بکھرنے سے بچانے کے لئے یه لوگ مغربی طرز عمل کے محتاج هیں !اس سے بے خبر که ان کے یهاں حقیقت میں سماج، معاشرے، روا داری اور آپس میں هماهنگی جیسے مفاهیم کا سرے سے وجود هی نهی هے اور جوکچھ عالمی منظر نامه پر حقوق انسانی کے نام پر دکھتاهے وه صرف ڈھکو له سے کم نهیں .
مسلمانوں کی ابتری اور ان کے یهاں نفسانفسی کا یه عالم دیکھ کر هر در دمند کو تڑپنے کا حق حاصل هے .هر چشم احساس نم هونے کا حق رکھتی هے ، هر انسان یه پوچھ سکتاهے که ایساکیوں هے ؟ یه فقر و افلاس کے مارے ، یه بھوک ننگے ، یه جاهل و نادار افراد آخر مسلم ممالک کی هی تقدیر کیونکر بن گئے هیں ؟ آخر اس کی کیا وجه هے ؟
دوسرے اسلامی ممالک به نسبت جب هم “جمهوری اسلامی ایران” کے استقلال اور ترقی کو دیکھتے هیں تو یه بات واضح هوجاتی هے که دوسرے اسلامی ممالک کے پاس ضرور کوئی ایسی چیزنهیں جو ایران کے پاس هے .وه چیز هے جس کا دوسرے ممالک کے یهاں فقدان هے وه قرآنی تعلیمات اور اس پر عمل،اور یهی وه چیزهے جس نے مسلمانوں کو دوسروں کے سامنے جھولی پھیلائے رهنے پر مجبور کردیاهے. آج اگر دنیا کے تمام مسلمان خود کو قرآن و عترت کی تعلیمات سے آراسته کرلیتے تو کبھی غیروں کی چاپلوسی اور غلامی کرتے نظرنه آتے، لیکن افسوس که مسلمان اس سے بے خبر هیں .آج کی مسلمانوں کی زندگی پر نظر ڈالیے قرآن کهاں هے ؟سرکاری اداروں میں هے؟ اقتصادی اور سیاسی نظام میں هے؟عوام کے باهمی تعلقات میں هے؟ اسکولوں اور یونیورسٹیوں میں هے؟خارجه سیاست یا حکومتوں کے باهمی تعلقات میں هے؟عوام کے درمیان قومی سرمایه کی تقسیم میں هے؟ اسلامی معاشرے کے سربراهوں کے عادات و خصائل میں هے ؟ اقوام و ملل کے مختلف طبقات میں کهیں قرآن نظر آتاهے؟ اسلامی احکام کی انفرادی رفتار میں ، زن و مرد کے روابط میں ، خوراک و لباس میں ، زندگی کے کسی اصل پر قومین قرآن هے؟ایوانوں میں ؟ امانتوں اور بینک ڈپازٹ میں،معاشرت میں ؟زندگی کے اتنے میادیں هیں البته مسجدوں ، میناورں اور عوام فریبی کے لئے ریڈیو ٹیلویژں کے چند پروگرام مستثنی هیں !مگر قرآن کیا اسی لئے هے ؟
سید جمال الدین سو برس پهلے اس بات پر روتے تھے که قرآن صرف هدیه دینے اور آرائش و زینت کے لئے سجاکر رکھنے ، اور قبرستان میں تلاوت کرنے اور طاقوں میں سجانے کے لئے ره گیا هے!بتائیے سوسال میں کوئی فرق پڑا هے ؟ کیا امت قرآن کی حالت پریشان کن نهیں هے؟(رهبر انقلاب کی تقریر سے اقتباس،توحید شماره 2،ص38ومیزان،شماره2،ص1و2)
آج اگر مسلمان اپنے گزشته افتخارات کو پھر سے حاصل کرنا چاهتے هیں تو ان کے لئے ضروری هے که هر چیز سے پهلے قرآن کی طرف رجوع کریں اور صرف اسی سے مدد حاصل کریں اس لئے که یه وه کتاب هے جس پر عمل کرکے هی دنیا کے سامنے اپنا لوها منوایا جاسکتا هے .قرآن کی طرف رجوع اور اس کے متعالی مفاهیم میں غور و خوض کرنے کا ماه مبارک رمضان سے بهتر کونسا وقت هوسکتاهے ؟ وه مهینه جو بهار قرآن کے نام سے جانا جاتاهے یقیناً قرآن کو بهتر طور پر سمجھنے اور اس کے مفاهیم کے استخراج کے لئے ماه مبارک سے بهتر اور کونسا موقع هوسکتا هے ؟آئیے !تھوڑا سا وقت نکال کر تلاوت کے ساتھ ساتھ اس کے مفاهیم پر بھی غور کرتے هیں که قرآن هم سے کیا چاهتاهے.خدایا همیں توفیق عطافرما که هم تلاوت قرآن کے ساتھ ساتھ زیاده سے زیاده وقت اس کے مفاهیم اور معنوں کو سمجھنے میں صرف کرسکیں. آمین ثم آمین .
source : http://www.alhassanain.com/urdu/show_magazin.php?magazinname_id=43