موت کا ڈر اور اس حقيقت سے فرار ايک ايسا انکار ناپذير موضوع ہے کہ کم و بيش تمام انسانوں نے اس کا تجربہ کيا ہے - اس مقالے ميں ہم اس موضوع پر روشني ڈاليں گے کہ ہم موت سے کيوں ڈرتے ہيں يا اس دليل کي وجہ سے کيوں پريشان ہوتے ہيں -
مال سے لگاو
اس کي ايک وجہ يہ ہوتي ہے کہ بعض افراد مال و اموال کو دنياوي زندگي ميں جمع کرتے ہيں اور اس سے بہت زيادہ وابستگي پيدا کر ليتے ہيں - ايسے افراد اس حد تک اپنے مال سے وابستہ ہو جاتے ہيں کہ پھر ان کے دل ميں پائي جانے والي دنيا کے مال کي حوس سے جان چھڑانا مشکل ہو جاتا ہے -
امامصادق(عليه السلام) نے اپنے والد اور پيغمبر اکرم صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم سے نقل کيا ہے کہ " ايک شخص ان کي خدمت ميں حاضر ہوا اور عرض کي کہ مجھے کيا ہو گيا ہے کہ ميں موت کو پسند نہيں کرتا ؟ پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا کہ ألکمال؟ کيا آپ کے پاس مال و دولت ہے ؟ اس نے جواب ديا کہ ہاں ! پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا کہ کيا يہ مال ايسي چيز ہے جسے تم نے بھيجا ؟ اس نے جواب ديا کہ کچھ نہيں بھيجا - پيغمبر صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا ! يہي وجہ ہے کہ موت کو پسند نہيں کرتے ہو - "
ايک دوسري روايت ميں ہے کہ انسان کي يہ خواہش ہوتي ہے کہ وہ مال کے پاس ہميشہ رہے - جس جگہ اس کا مال ہوتا ہے ، وہ بھي چاہتا ہے کہ اسي جگہ رہے - اگر وہ کسي جگہ اپنے مال کو بھيجے تو وہ چاہتا ہے کہ وہ بھي مال کے ساتھ جاۓ اور اگر مال کو کسي جگہ نہ بھيجے تب اس کي خواہش ہوتي ہے کہ مال کے پاس اسي جگہ پر موجود رہے -
يہ ايک دليل ہے کہ جس سے ہم بڑي آساني سے اس مفہوم کو سمجھ سکتے ہيں - دنياکےمال اور دنيا کي دوسري چيزوں سےانسان کي دلبستگي اسےاس حدتک مشغول کرديتي ہےکہ انسان يہ بھول جاتا ہے کہ جس دنيا ميں وہ زندگي گزار رہا ہے اور جو زندگي وہ گزار رہا ہے وہ فاني ہے -
موت سے ناپسنديدگي کي بڑي وجہ يہ ہے کہ انسان جانتا ہے کہ موت اسے زندگي ميں ہر اس چيز سے دور کر دے گي جسے وہ عزيز رکھتا ہے -
يہ بھي ممکن ہے کہ ہمارے ذہن ميں يہ سوال ابھرے کہ ہم اپنے بيوي بچوں کو محبوب نہ رکھيں ؟
موت سے ڈر کي ايک وجہ مال و دولت سے وابستگي ہے ليکن موت سے بےخوف رہنے کے ساتھ دنياوي مال کے ہونے ميں کوئي حرج نہيں ہے - موت سے خوف کي اصل وجہ وہ مال نہيں ہے بلکہ مال سے ہماري وابستگي يا محبت ہے جو ہمارے اوپر موت کا خوف طاري کر ديتي ہے -
جيسا کہ کہا جاتا ہے کہ مال کو پسند نہ کريں يعني مال و دولت سے وابستہ نہ ہوں - اس کا يہ ہرگز مطلب نہيں کہ ہمارے پاس مال ہي نہ ہو - انسان کو بہتر زندگي کے ليے کوشش کرني چاہيۓ - انسان اگر علم حاصل نہ کرے اور بہتر زندگي کے ليۓ کوشش نہ کرے تو وہ زندگي ميں ايک کامياب انسان نہيں بن سکتا ہے - اگر وہ چاہے کہ کوئي چيز بھيجے تو اس چيز کا اس کے پاس ہونا بھي ضروري ہے - خدا کي طرف سے اگر انسان کو کوئي نعمت عطا ہوتي ہے تو انسان کو اس کا اسير نہيں ہونا چاہيۓ - اس نعمت کا انسان کے پاس ہونا اچھي بات ہے ، اس نعمت کے ہونے پر اسے خدا کا شکر ادا کرنا چاہيۓ مگر اس نعمت کے ساتھ دنياوي وابستگي اختيار نہيں کرني چاہيۓ - جہاں ضرورت ہو اس نعمت کو خرچ کرنا چاہيۓ اور انسان کو ہر حال ميں قانع رہنا چاہيۓ -
يہ جو کہا جاتا ہے کہ انسان کا مال ، موت سے خوف کا باعث بنتا ہے ، اس کا مطلب يہ نہيں ہے کہ جس کے پاس بھي دولت ہے وہ موت کو پسند نہيں کرتا -
ائمه عليهم السلام فقير نہيں تھے بلکہ دولت مند تھے مگر انہوں نے دولت سے لگاو پيدا نہيں کيا - اميرالمومنين(عليه السلام) کے پاس بہت مال و دولت تھا مگر وہ لوگوں ميں بانٹ ديتے - اگر اميرالمومنين اپنا مال دوسروں کو نہيں ديتے تو اپنے دور کے اميرترين فرد ہوتے ليکن چونکہ وہ دوسروں کو دے ديا کرتے تھے اس ليۓ ان کے پاس مال جمع نہيں ہوا کرتا تھا -
انسان موت سے اس ليۓ ڈرتا ہے کہ موت انسان کو اس کي محبوب چيزوں سے دور کر ديتي ہے - وہ کھيتي جسے انسان نے آباد کيا ہوتا ہے ، وہ کنويں جو اس نے کھودے اور دوسري بہت ساري اشياء جو انسان اپني زندگي ميں بناتا ہے ، اس کي موت کے سينکڑوں سال بعد بھي باقي رہتي ہيں مگر خود انسان فاني ہے اور ايک محدود زندگي گزار کر وہ اس جہان فاني سے رخصت ہو جاتا ہے - آج بھي مدينہ کے علاقے ذولغريف ميں مسجد شجرہ کے نزديک حضرت علي عليہ السلام کے کنويں موجود ہيں جو دشمنان اسلام کي تمام تر سازشوں کے باوجود باقي رہے ہيں - اس زمانے ميں ان کنووں کي قيمت بہت زيادہ تھي ليکن حضرت ايک ہي لمحے ميں بطور مثال کسي باغ کو بيچتے اور اس کي کمائي غريبوں اور مسکينوں ميں تقسيم کر ديا کرتے تھے -
source : tebyan