اردو
Saturday 23rd of November 2024
0
نفر 0

شيعه مکتب کي ہاں فروع دين دس ہيں جو قرآن و حديث سے مأخوذ ہيں

. نماز 2. روزہ 3. حج 4. زکواة 5. خمس 6. جہاد 7. امر بالمعروف 8. نہي عن المنکر 9. تولّي 10. تبرّي
شيعه مکتب کي ہاں فروع دين دس ہيں جو قرآن و حديث سے مأخوذ ہيں

.     نماز

2.     روزہ

3.     حج

4.     زکواة

5.     خمس

6.     جہاد

7.     امر بالمعروف

8.     نہي عن المنکر

9.     تولّي

10.   تبرّي

فروع دين ميں اجتہاد و تحقيق کا باب الي الابد کھلا ہے اور شيعہ محدثين و فقہاء کو ہي اجتہاد کا حق حاصل ہس مگر اجتہاد تشيع کس ہاں قرآن و سنت و عقل و اجماع پر مبني ہے اور اجماع بھي صرف اسي وقت حجت ہے کہ معصوم (ع) کے قول کا انکشاف کرے. فروع دين کا انکار کفر ہے اور ان ميں جامع الشرائط مجتہد کي تقليد واجب ہے.

موضوع سے خارج ايک واقعہ صرف طراوت ايمان کي خاطر

خاندان علي کي اولويت پر مأمون کا اعتراف

ايک روز مأمون نے منصوبہ بنايا کہ امام رضا عليہ السلام سے اقرار کرادے کہ عباسي اور علوي دونوں پيغمبر (ص) کي قرابت کے حوالے سے يکسان درجے کے حامل ہيں؛ تا کہ اس طرح بزعم خويش ثابت کردے کہ اس کے اسلاف کي خلافت صحيح اور حق ہے. ليکن بحث کا نتيجہ برعکس ہؤا اور امام عليہ السلام نے مأمون سے اقرار کروايا کہ علوي رسول اللہ (ص) کے قريب تر ہيں چنانچہ مأمون اور اس کے اسلاف کي اپني رائے کے مطابق خلافت بھي علويوں کے پاس ہوني چاہئے اور يہ کہ عباسي غاصب اور جارح تھے. ماجرا کچھ يوں تھا کہ ايک روز مأمون اور امام رضا عليہ السلام سير کو نکلے تھے؛ مأمون نے امام رضا عليہ السلام سے مخاطب ہوکر کہا:

اے ابالحسن! ميري اپني ايک سوچ ہے اور آخر کار اس نتيجے پر پہنچا ہوں کہ يہ سوچ درست بھي ہے. اور وہ سوچ يہ ہے کہ ہم اور آپ (عباسي اور علوي) رسول اللہ (ص) کي قرابت کے حوالے سے يکسان ہيں. چنانچہ ہمارے شيعيان (شيعيان بني عباس اور شيعيان علي (ع)) کے درميان سارے اختلافات تعصب اور کوتہ انديشي پر مبني ہيں...

امام (ع) نے فرمايا: تمہاري اس بات کا جواب موجود ہے اور اگر چاہو تو بتاؤ ں  گا ورنہ خاموش رہنا پسند کروں گا.

مأمون نے اصرار کيا: ميں بھي سننا چاہتا ہوں کہ آپ اس مسئلے کے بارے ميں کيا کہتے ہيں؟

امام نے سوال اٹھايا کہ: يہ بتاؤ کہ اگر اسي وقت رسول اللہ (ص) ظاہر ہوجائيں اور تم سے تمہاري بيٹي کا رشتہ مانگيں تو کيا تم يہ رشتہ دوگے يا نہيں؟

مأمون نے کہا: سبحان اللہ ميں يہ رشتہ ضرور قبول کروں گا کيا کوئي رسول اللہ (ص) کا رشتہ رد کرسکتا ہے؟

امام عليہ السلام نے فورا فرمايا: اچھا يہ بتاؤ کہ کيا رسول اللہ (ص) مجھ سے ميري بيٹي کا رشتہ مانگ سکتے ہيں؟

مأمون دريائے سکوت ميں ڈوب گيا اور پھر خود ہي اقرار کيا: ہاں خدا کي قسم! آپ ہماري نسبت رسول اللہ سے کہيں زيادہ قريب ہيں-


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

باب تقلید
[دین اور سیاست] نظریہ ولا یت فقیہ
ولایت ہی امتِ مسلمہ و ملتِ تشیع کے لئے نکتۂ اتحاد ...
علم کا مقام
انتظاریعنی امام غائب پر عقیده
اس روایت کے کیا معنی ہیں کہ: " جس نے اپنے نفس کو ...
شيعوں کے صفات
علم و ایمان کا باہمی رابطہ
عقیدہ ختم نبوت
قبر کی پہلی رات

 
user comment