بسم اللہ الرحمن الرحیم
سنت اہل بیت ؑ کی حجیت آیہ تطہیر اور حدیث ثقلین کی روشنی میں
فدا حسین حلیمی(بلتستانی)
پیشکش : امام حسین علیہ السلام فاؤنڈیشن
رسول گرامی اسلام ؐ کی سنت متفقہ طور پر تمام مسلمانوں کے نزدیک واجب الاتباع اور حجت ہے لیکن بات اہل بیت نبوت ؐ کی سنت کے ہماری اُپر حجت ہونے یا نہ ہونے میں ہے کیونکہ جب تک انکی سنت کی حجیت ثابت نہ ہو جائے اس وقت تک شرعااً اور عقلاً انکی پیروی کرنا جائز نہیں ہے ۔ اور مفسیریں حضرات نے کم بیش آیہ ( تطہیر ) (مباہلہ )(اولی الامر )(کونوا مع الصادقین )( لن ینالو العہد الظالمین) اور حدیث (ثقلین) (سفینہ )(امان ) کی ذیل میں معصومین ؑ کی علمی مقامات انکی عصمت اور حجیت سنت کے متعلق بحث کی ہیں ۔ لیکن ہم اپنے اس مختصر مقالے میں سنت اہل بیت نبوت کی حجیت کو صرف آیت تطہیراور حدیث ثقلین کی روشنی میں بحث کریں گئے تاکہ یہ معلوم ہو جائے کہ اس مذکورہ آیت اور حدیث شریف کی روشنی میں انکی حجیت ثابت ہوتی ہے یا نہیں ۔اصل موضوع کے متعلق بحث چھڑنے سے پہلے چند اصطلاحات کی وضاحت ضروری ہے ۔
١۔ اہلبیت اطہار : اہل بیت اطہار سے مراد چودہ معصومیں ؑ ہیں اور نفس نفیس پیغمبر اکرم ؐ سردار اہل بیتؑ ہیں ۔ لیکن جب (اہل بیت ؑ) کو رسولؐ یا نبوت ؐ کی طر ف اضافہ کرے تو اسے مراد بارہ ائمہ اور حضرت زہرا کی ذوات مقدسہ مراد ہیں ۔
٢۔ سنت : سنت عبارت ہے قول وفعل ا ور تقریر معصوم ؑ اس تعریف میں سنت کی تین قسموں کی جانب اشارہ ہے . سنت قولی یعنی گفتار معصوم اور سنت فعلی یعنی وہ عمل جسے معصوم نے انجام دیا اور سنت تقریر معصوم ؐ یعنی معصوم کی تائید جسے ہم دوسروں کے اعمال پر امام معصوم کے سکوت سے سمجھتے ہیں۔
اہل سنت سنت کی تعریف میں لکھتے ہیں :قول النبی ؐ(وفعلہ و تقریرہ )۔ وہ قول وفعل و تقریر جو نبی سے صادر ہو ۔
٣۔حجیت: حجیت سے مراد (منجز اور معذر )ہونا ہے ۔ منجز سے مراد یہ ہے کہ اگر سنت کسی حکم کو ثابت کرے تو اسے انجام دینا واجب اور عمدا ترک کرنے کی صورت میں مستحق عقاب ہو گا ۔اور معذریت سے مراد یہ ہے کہ اگر سنت کسی حکم کے ثابت نہ ہونے پر دلالت کرے تو اگر چہ وہ حکم واقعا ثابت ہی کیوں نہ ہو اسے معذور سمجھا جاے گا اور حکم واقعی کی مخالفت کرنے کی بنااسے عذاب کرنا قبیح سمجھا جاے گا ۔
الف:آیت تطہیر اور عصمت و حجیت اہل بیت ؑ:
اس آیہ مبارکہ سے درجہ ذیل اہم نکات استفادہ ہوتی ہیں۔
١: کلمہ (انّما ) عربی لغت میں قوی ترین ادات حصر شمار ہوتا ہے اس کے ذریعے حکم کو یعنی (طہارت ) کو موضوع کے ساتھ یعنی(اہل بیت اطہار ؑ ) منحصر کردیاہے ۔
٢: کلمہ (رجس ) سے مراد لغت میں پلیدی اور ہر وہ آلودہ کردار جو تنفّر ؛ عذاب ؛ شک ؛ عقاب کا باعث بنتا ہے( مفردات راغب: مادہ رجس کا مراجعہ کریں)چونکہ کلمہ رجس کا متعلق حذف ہوا ہے اور ساتھ میں الف ولام استغراق بھی داخل ہوئی ہے جو جنس اور طبیعت رجس کے نفی ہونے کا فائدہدیتا ہے ؛ اسکے علاوہ جملہ( ویطّہرکم تطھیراً ) بطور تاکید لے کے آیا ہے اس سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ(لیذہب عنکم الرجّس ۔۔)ہر قسم کی معنوی آلودگی اور گناہ خواہ صغیرہ ہو یا کبیرہ ؛ ان تمام پلیدیوں کو نفی کیا ہے پس پروردگار عالم نے ارادہ کیا ہے کہ اہل بیت اطہار کو ہر طرح کی آلودگیوں سے پاک رکھّا جائے کہ جس کا لازمہ عصمت ہے ۔
٣: (انّما یرید اللہ۔۔۔) میں ارادہ سے مراد دو قرینے کی بنیاد پر ارادہ تکوینی ہو سکتا ہے ارادہ تشریعی نہیں ہو سکتا ۔
پہلا قرینہ : ارادہ تشریعی کا متعلق غیر کا فعل ہوتا ہے جو اس غیر کے اختیار اور ارادہ سے انجام پاتا ہے ؛ جیساکہ ارادہ الھی تشریعی مکلف کے روزہ رکھنے ؛ زکواۃ دینے ؛ حج بجا لانے وغیرہ سے تعلق لیا ہے ۔ اب ان تمام امور میں ارادہ کرنے والے کی ارادہ اور جس فعل کا ارادہ کیا ہے اس فعل کے درمیاں کسی غیر کا ارادہ واسطہ قرار پایا ہے جب تک غیر اس فعل کو انجام نہ دئے اس وقت تک اس فعل کا وجود میں آنا ممکن نہیں ہے ۔ جبکہ ارادہ تکوینی کا متعلق خدا کا اپنا فعل ہوتا ہے کسی غیر سے کوئی ربط نہیں ہوتا لہذا پرودگار عالم حب بھی ارادہ کرلے اسی وقت وہ فعل بغیر کسی تاخیر کے وجود میں آتا ہے چونکہ ارادہ الھی یہاں پر علت تام ہوتا ہے۔ چنانچہ مزکورہ آیت میں بھی ارادہ الھی (اذھاب الرجس )یعنی ہر قسم کی آلودگیوں کو دور کرنے سے تعلق لیا ہے جو کہ خدا فعل ہے کس اور کا فعل نہیں ۔
دوسراقرینہ: اگر اس ارادے سے مراد تشریعی ہو تا تو ارادہ تشریعی کو کسی خاص یعنی (اہل بیت اطہار )کے ساتھ اختصاص دینے کا کوئی معنی نہیں رکھتا چونکہ ارادہ تشریعیتمام مکلفیں کو شامل کرتا ہے ؛ اور لا محالہ تمام انسانوں کو پاک رکھنے کا ارادہ کیا ہے ۔لھذا حصر اور تاکید معنی نہیں رکھتا ؟ جسکی طرف پہلے اشارہ ہوا ہے ۔
پس پروردگار عالم نے ارادہ تکوینی (جس کو کن فیکن سے تعبیر کیا جاتا ہے) کیا ہے کہ اہل بیت اطہار سے ہر قسم کی مادی اور معنوی آلودگیوں کو دور رکھا جائے ۔
٤: اہل بیت اطہار سے مراد کون افراد ہیں؟
فریقین کی تاریخ ؛تفسیر ؛ اور حدیث کی کتابوں دسویں روایات آیہ تطہیر کی ذیل میں پیغمبر اکرمؐ سے نقل ہوئی ہیں جن میں آنحضرت ؐ آہل بیت اطہار سے مراد : رسالت مآب ؛ علی ؑ فاطمہ ؑ اور حسنؑ وحسینؑ مراد ہیں اور یہ آیہ مبارکہ انہی ذوات مقدسہ کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔
جیساکہ محمد بن مسلم نے صحیح مسلم میں جناب عائشہ سے (حدیث نمبر ٦١(٢٢٢٤)اور جناب ترمذی نے سنن میں عمر بن ابی سلمہ اور ام سلمہ سے (حدیث /٣٨٧٥۔٣٧٩٣)اس حدیث کو نقل کیا ہے ؛ام سلمہ کہتی ہے: پیغمبر اکرم ؐ نے علیؑ فاطمہؑ اور حسنؑ وحسین ؑ کے بارے میں؛ خصوصیت کے سا تھ تین مرتبہ فرمایا :اللہم ہؤلاء أہل بیتی و خاصتی فأذہب عنہم الرجس و طہرہم تطہیرا قالہا ثلاث مرات، پروردگارا ! یہ میرے اہلبیت ؑاور خاص افراد ہیں؛ انسے ہر قسم کی ناپاکی کو دور فرما ! فقلت: یا رسول اللہ ألست من أہل البیت؟ میں عرض کیا اے اللہ کے رسول کیا
میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں ؟ فقال: إنک إلی خیر أنت من أزواج رسول اللہ : فرمایا تم اچھائی پر ہو تم رسول اللہ کی زوجہ ہو ۔ ( کبیر مدنی، سید علی خان بن احمد، ریاض السالکین فی شرح صحیفۃ سیّد الساجدین، 7جلد، دفتر انتشارات اسلامی - ایران ؛ قم، چاپ: اول، 1409ق (تفسیر ابن کثیر: ج 5 ص 455 .)
اسی طرح جناب طبرانی نے المعجم الکبیبر ج/٣ ص/٥٣ /حدث نمبر / ٣٦٦٢) میں ام سلمہ اورحدیث نمبر /١٧٦٢)میں انس بن مالک اور حدیث نمبر/٣٧٦٢ ) میں ابوسعید خدری سے گزشتہ مضامیں میں اسی حدیث کو نقل کیا ہے ۔
جبکہ جناب سیوطی (الدرر المنثور ج/٥ص/ ٩٩١ میں ابن عباس اور ابو الحمراء دونوں سے اضافہ کرتے ہوے اس طرح نقل کیا ہے : کان رسول اللہ ص یجیء عند کل صلاۃ فجر- فیأخذ بعضادۃ ہذا الباب، ثم یقول: السلام علیکم یا أہل البیت و رحمۃ اللہ و برکاتہ :کہ پیغمبر اکرم ؐ نو مہینہ تک جب بھی نماز صبح کے لیے مسجد تشریف فرماتے تھے تو پہلے سیّدہ ؑ کے دروازے پر جاتے اور دستک دینے کے بعد فرتاتے : السلام علیکم یا ہل البیت ورحمۃ اللہ ۔۔۔ اور پھر آیت تطہیر کی تلاوت کرتے ( شواہد التنزیل لقواعد التفضیل / ج2 /ص ٧٤ و ٤٤)
اب فریقین کے برجتہ تریں علماء نے اتنی ساری روایات مختلف راستوں سے پیغمبر اکرم ؐ سے نقل کے کے بعد اورام المومنین ام سلمہ کو عملاًایت تطہیر کی دائرے سے نکال کر اس آیہ مبارکہ کی مصداق کو پنجتن پاک کے ساتھ حصر کرنے کے بعد وحدت سیاق سے تمسک لینا یا امھات المومنیں کو اہل بیت اطہارؑ کے ساتھ شامل کرنے کی کوشش کی کوئی معنی رکھتا ہے ؟
ب:حدیث ثقلین اور عصمت اہل البیت اطہارؑ:۔
یہ حدیث فریقین کے در میان متواتر ہے جسے 36 صحابیوں نے نقل کیا ہے 11 شیعہ محدثین کے علاوہ 180 علماء اور محدثین اہل سنت نے اسے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے ؛جن مشہور اصحاب نے اس حدیث کو نقل کیا ہے ،ان میں :ابو سعید خدری ،ابوذر غفاری،زید بن ارقم،زید بن ثابت،ابورافع،جبیر بن مطعم ،یاخذیفہ،ضمرہ اسلمی ،جابر بن عبداللہ انصاری اور ام سلمہ قابل ذکر ہیںْ؛اور وہ حدیث یہ ہے : قال رسول اللہ ؐ کأنی دعیت فأجبت- و إنی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ عز و جل و عترتی أہل بیتی ۔۔۔۔۔ فانظروا کیف تخلفوننی فیہما: میں تمھارے درمیان دویاد گار گرانقدر چیزیں چھوڑ ے جارہاہوں، قرآن مجیداور میرے اہل بیت(ع)۔یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوںگے یہاں تک کہ حوض کوثر کے کنارے میرے پاس پہنچ جائیںپس تم ان کا خیال رکھنا اور دیکھنا تم میری وصیت کا ان کے بارے میں کس قدر لحاظ رکھتے ہو۔ (صحیح مسلم حدیث /٢٤٨٠)(صحیح ترمذی حدیث/ ٣٧٩٢)(مستدرک الصحیحین ج/٣ ص /١٤٨)
جبکہ بعض کتابوں میں اس حدیث شریف کو ا س اضافے کے ساتھ نقل کیا ہے : ۔۔۔فلا تقدموہما فتہلکوا و لا تعلموہما فإنہما أعلم منکم.(المعجم الکبیر ج/٣ ج/٢٦٨)الصواعق المحرقہ ج/٩ ص/١٣٥ باب وصیۃ النبیؐ)
ان دونوں سے آگے جانے کی کوشش مت کرو ہلاک ہوجاو گے اور نہ ہی انہیں سکھانے کی کوشش کرو کیونکہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں :دلچسپ بات ہے کہ مختلف روایتوں سے معلوم ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو مختلف مواقع پر لوگوںکے سامنے بیان فرمایاہے:"جابربن عبداللہ انصاری" کی روایت میں آیاہے کہ آنحضرت نے سفر حج کے دوران عرفہ کے دن اس حدیث (ثقلین) کو بیان فرمایا۔"عبداللہ بن خطب" کی روایت میں آیا ہے کہ آنحضرت نے اس حدیث کو سرزمین جحفہ(جو مکہ اورمدینہ کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں سے بعض حجاج احرام باندھتے ہیں) میں بیان فرمایاہے۔" ام سلمہ" روایت کرتی ہیں کہ آنحضرتنے اس حدیث کو غدیر خم میں بیان فرمایا۔
بعض روایتوں میں آیا ہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو اپنی زندگی کے آخری دنوں میں بستر علالت پر بیان فرمایاہے۔
ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ نے یہ حدیث مدینہ منورہ میں منبر پر بیان فرمائی ہے۔حتی اہل سنت کے ایک مشہور عالم " ابن حجر" اپنی کتاب"صواعق المحرقہ" میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کرتے ہیں:" پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس حدیث کو بیان فرمانے کے بعد حضرت علیؑ کے ہاتھ کو پکڑ کرانھیں بلند کیا اور فرمایا:" یہ علی(ع) قرآن کے ساتھ ہے اور قرآن علی(ع) کے ساتھ ہے، یہ دونوں ایک دوسرے سے جدانہیں ہوںگے یہاں تک کہ حوض کوثر کے پاس مجھ سے آ ملے :( صوااعق المحرقہ ج/٩ ص/١٣٥ باب وصیۃ النبیؐ)
اس سے واضح ہوتاہے کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس مسئلہ پر ایک بنیادی اصول کی حیثیت سے بار بار تا کید فر ما ئی ہے اور اس قطعی حقیقت کو بیان کر نے کے لئے کو ئی دقیقہ فرو گزاشت نہیں کیا ہے تا کہ اسے کبھی فرا موش نہ کیا جائے۔ :
قرآن وعترت کو ثقلین سے تعبیر کرنے کی وجہ:
اہل سنت کے برجستہ عالم دین جناب ابن حجر ہیثمی اس نکتے کے بارے میں کہتا ہے : رسول خدا ؐ نے قرآن اورعترت کو ثقلین ہے اس لیے تعبیر کیا ہے کیونکہ لفظ (ثقل ) عربی زبان میں کسی قیمتی ؛نفیساورگران بہا چیز کو کہا جاتا ہے جبکہ قرآن اور عترت ایسے ہیں چونکہ قرآن اور عترت دنوں معدن علم لدنی ؛ اسرار حکمت الہی ؛اور منبع احکام شریعت ہیں ؛ اسی لیے پیغمبر اکرمؐ نے اہل بیت اطہارؑ سے تمسک لینے اور ان سے علم ودانش سیکھنے پر اصرار کیاہے ؛ اور یقیناً عترت اہل بیت ؑ جنسے تمسک لینے کا حکم دیا گیا ہے صرف وہ افراد ہیںجو قرآن وسنت کے متعلق وافی علم رکھتے ہیں چو نکہ یہ وہی افراد ہیں جو قیامت تک قرآن سے جدا نہیں ہوں گے اور اس حقیقت پر دلیل؛ حدیث کی ذیل میں وہ جملہ ہے جس میں آنحضرتؐ فرماتے ہیں ( و لا تعلموہما فإنہما أعلم منکم ):
تم انہیں سکھانے کی کوشش مت کرو کیونکہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں؛ اور اسی بنا پر وہ لوگ اس امت کے دیگرعلماء پر امتیاز رکھتے ہیں ؛ اور پروردگار عالم نے ان سے ہر قسم کی پلیدی اور ناپاکی کو دور رکھا ہے ؛چنانچہ عترت اطہار جنسے تمسک لینے کا حکم دیا ہے ان میں برجستہ تریں فرد علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ ہیں:(صواعق المحرقۃ ج /٩؛ ص /١٣٥ اورص/ ٩٠)
اسی طرح جناب ابن اثیر اس بارے میں کہتا ہے: قرآن وعترت کو ثقلین سے تعبیر کرنے کا مقصد صرف انکی قدر ومنزلت کو بتانے کے لیے تھا (ابن اثیر ؛ النہایۃ؛نقل از لسان عرب لابن منظور ؛ مادہ ثقل )
پس معلوم ہوا ثقلین سے تعبیبر قرآن وعترت کی مقام ومنزلت کو بیاں کرنے کے لیے تھا؛ اب یہ دیکھنا ہوگا انکا کونسا مقام اور صفات اس حدیث شریف میں بیان ہوے ہیں :
حدیث ثقلین اور مقام اہل بیت اطہار ؑ
١۔ اہل بیت اطہا رؑ کی عصمت :
اس متوتر حدیث سے جو اہم نکات استفاد ہ ہوتے ہیں ان میں ایک اہم نکتہ عصمت عترت کا ثابت ہونا ہے ؛ وہ اس طرح کہ پیغمبر اکرم ؐکے قرآن مجید کا عترت کے ساتھ اور عترت کو قرآن مجید کے ہم رتبہ اور ہم پلہ قرار دینااور قیامت تک ان دونون کا جدائی ناپزیر ہونے کا خبر دینا اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن مجید، کلام خدا ہونے کے لحاظ سے ہر قسم کی خطا اور غلطی سے محفوظ ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ اس میں خطا اور غلطی کا احتمال دیا جائے جبکہ خداوند کریم نے اس کی یوں توصیف کی ہے ٭لاٰیْاتِیه الْبَاطِلُ مِنْ بَیْنِ یَدَیْه وَلاٰمِنْ خَلْفِه تَنزِیل مِنْ حَکِیمٍ حَمِیدٍ٭ (فصّلت/٤٢)
باطل نہ اس کے آگے سے آتا ہے اور نہ اس کے پیچھے سے اور یہ حکیم و حمید خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے : پس اگر قرآن مجید ہر قسم کی خطا سے محفوظ ہے تو اس کے ہم رتبہ اور ہم پلہ افراد بھی ہر قسم کی خطا سے محفوظ ہیں کیونکہ یہ صحیح نہیں ہے کہ ایک یا کئی خطاکار افراد قرآن مجید کے ہم پلہ اور ہم وزن قرار پائیں؛اور اگر ایک جگہ عترت اطہارؑکے سہواً یا نسیاناً کسی بھی لغزش یا غلطی کے شکار ہونا فرض کرلے توپھر وہ مقام مقامِ جدائی اور افترق کا ہوگا نہ عدم افتراق کا ؛توپھر لفظ (لن ۔۔۔۔۔یفترقا ابداً ) بے معنی رہے گا ؛ پس حدیث ثقلین گواہ ہے کہ وہ افراد ہر قسم کی لغزش اور خطا سے محفوظ اور معصوم ہیں ۔۔البتہ یہ بات ملحوظ رہے کہ عصمت کا لازمہ نبوت نہیں ہے کیونکہ ممکن ہے کہ کوئی معصوم ہو لیکن نبی نہ ہوجیسے حضرت مریم کے بارے میں قرآن مجید نے صراحت کے ساتھ انکی عصمت کی گواہی دی ہے (ال عمران /٢٢٢)۔۔
اور جب کسی کی عصمت ثابت ہو جاے تو حجیت بھی ثابت ہو جاے گئی چونکہ عصمت کا لازمہ حجیت ہے ۔
٢۔ اہل بیت نبوت ؑ کا ایک فرد قیامت تک باقی ہونگا۔
وانّہما لن یفترقا حتی یردا علیّ الحوض۔۔۔اس جملے سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اہل بیت نبوتؑ کا ایک فرد اس امت کے درمیاں قیامت تک موجود ہونگا کیونکہ زمان ایک لمحے کے لیے عترت طاہرہ ؑ کے وجود سے خالی ہو جاے تو افتراق اور قرآن وعترت کے درمیاں جدائی ہونا لازم آتا ہے جبکہ نبی اکرمؐ نے ان دونوں کے درمیان جدائی کے قطعی طور پر نفی کیا ہے چانچہ جناب ابن حجر ہیثمی اسی نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہتے ہے:اس حدیث کا اہل بیت ؑسے تمسک لینے پر اصرار اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ قیامت تک اہل بیت پیامبر ؐسے کوئی نہ کوئی شخص امت کے درمیا ں موجود ہونا چاہیے تاکہ اسے تمسک لے سکے:(صواعق المحرقہ ؛ج/٩ ؛ص٩٠)۔
٣۔ اہل بیت اطہاؑ ر علمی مرجع ہیں۔
جس طرح ابن حجر ہیثمی نے کہا کہ پیغمبر اکرم ؐکے اس جملے سے معلوم ہوتا ہے :(و لا تعلموہما فإنہما أعلم منکم : تم انہیں سکھانے کی کوشش مت کرو کیونکہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں؛)کہ قرآن وعترت دونوں معدن علوم لدنی ؛ اللہ کی حکمتوں کا اسرار ؛ اور منبع احکام شریعت ہیں ۔لہذا جس طرح قرآن تمام دینی امور میں علمی اور عملی مرجع اور قطعی سند ہے اسی طرح عترت طاہرہ ؑ کی قول وفعل اور تقریر ہمارے لیے علمی مرجع اور قطعی سند ہونا چاہیے ؛ اور مسلمانوں کو ہر گز ان دوچیزوں کا دامن نہیں چھوڑ نا چاہئے ،بالخصوص اس قید وشرط کے ساتھ جو بہت سی روایتوں میں مذکور ہے :" اگر ان دو چیزوں کا دامن نہ چھوڑو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہو گے "اس سے یہ حقیقت تا کید اً ثابت ہو تی ہے۔چنانچہ ہمارا عقیدہ ہے کہ اہل بیت اطہار ؑمجتہدین میں سے نہیں جو اپنے حدس و گمان پر اجتہاد کرتے ہوں اور اس اجتہاد کی روح سے اختلافِ فتوی کا
شکار ہوں پھر یہ فتوے ان مقلدین کے لئے حجت ہوتے ہوں جنکے نزدیک مجتہد کے شرائط اجتہاد محرز ہوں ۔ بلکہ مکتب اہل بیت علیہ السلام کے پیروکاروں کے نزدیک اہل بیت اطہار علم لدنی کے مالک اور الہی احکامات کے حقیقی مبلغ ہیں وہ جو احکام جو گذشتہ معصوم سے ان تک پہنچے ہیں چنانچہ امیر المؤمنین علیؑ فرماتے ہیں : :علمنی رسول اللہ ألف باب من العلم ینفتح لی من کل باب ألف باب .رسول خدا ؐنے مجھے علم کے ہزار باب سکھا دے ہر باب سے ایک ایک لاکھ علم کے دروازے میرے اپُر کھل گے ۔( مناقب آل ابی طالب ؛ ابن شہر آشوب ؛ ج /٢؛ ص/ ٣٤ )
اسی طر صحابی جلیل جابر بن عبد اللہ انصاری کہتا ہے میں نے حضرت امام محمد باقر ؑ سے عرض کیا اے فرزند رسول ؐ آپ جب بھي میرے لیے کوئیحدیث نقل کرے تو اس کی سند بھی ساتھ مجھے بتا دیں :عن جابر قال قلت لأبی جعفر محمد بن علی الباقر ع إذا حدثتنی بحدیث فأسندہ لی فقال حدثنی أبی عن جدی عن رسول اللہ ص عن جبرئیل ع عن اللہ عز و جل و کل ما أحدثک بہذا الإسناد و قال یا جابر لحدیث واحد تأخذہ عن صادق خیر لک من الدنیا و ما فیہا: امام نے فرمایا میرے بابا نے مجھے میرے جد سے اورب انہوں نے رسول خدا ؐ سے اور انھوں نے جبرئیل سے اور انھوں نے رب العزت سے روایت کی ہے اور جو بھی تیرے لیے روایت کرتا ہوں اسی سند کے ساتھ نقل کرتا ہوں ؛ اور فرمایا اے جابر ایک حدیث جو تم صادق سے دریافت کرتے ہو وہ تمھارے لیے دنیا وما فیہا سے بہتر ہے (الأمالی ؛مفید/ نص / 42 /مجلس/٥)
اسی طرح بڑے بڑے اصحاب نے صادق آل محمدؑسے اس طرح نقل کیا ہے کا آپ فرماتے تھے : حدیثی حدیث أبی، وحدیث أبی حدیث جدی، وحدیث جدی حدیث الحسین، وحدیث الحسین حدیث الحسن، وحدیث الحسن حدیث أمیر المؤمنین، وحدیث أمیر المؤمنین حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ، و حدیث رسول اللہ قول اللہ عز وجل) أی لیس فتیانا وقضاؤنا عن اجتہاد ورأی، أو یجوز نسبۃ حدیث کل منا إلی الآخرین فی زمن التقیۃ ونحوہا.میری حدیث میرے بابا کی حدیث اور انکی حدیث میرے جد کی حدیث اور میرے جد کی حدیث امام حسین ؑ کی حدیث اور انکی حدیث اورانکی حدیث امام حسن ؑکیحدیث اور انکی حدیث امر المؤمنین ؑ کی حدیث اور انکی حدیث رسول خداؐ کی حدیث اور رسول خداؐکیحدیث خدا کا قول ہے ؛یعنی ہم جو احکام اور مسائل بیان کرتے ہیں وہ حدس و گمان اوراجتہادپر مبنی نہیں ہوتے اورنہ ہی ہم میں سے کسی ایک کے تقیہ اور تقیہ جیسے موارد میں بتائے ہو ے حدیث کو کسی دوسرے کیطرف نسبت دینا جائز ہے ۔ (ابن حجر عسقلانی؛تھذیب التھذیب ؛ج/٢ ؛ص/٩٩٤)اور(الشافی فی شرح الکافی (للمولی خلیل القزوینی) / ج1 /ص 445)
پس ان روایا ت سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح پیغمبر اکرمؐ کی احادیث ہمارے لیے حجت ہیں اسی طرح اہل بیت اطہارؑکی احادیث بھی حدیث نبی ہونے کے اعتبار سے ہمارے اُپر حجت ہیں ۔
ج: عصمت اور حجیت میں ملازمہ
عصمت ایک ایسی اندرونی طاقت ہے جو درحقیقت تقوایِ الھی ؛تسلط بر نفس ؛ اور عمیق ادراک (جناب ابن حجر ہیثمی کے بقول علم لدنی )سے وجود میں آتی ہے ؛ چونکہ معصوم ؑاپنے دل کی آنکھوں سے جہانِ رنگ وبُو کے باطن اور ملکوتِ عالم کا مشاہدہ کرتا ہے ۔اور اس ذریعہ سے معارف وحقیقی علوم حاصل کرتا ہے ۔ لہذا جب واقعات کا ادراک اسطرح کرتا ہے حواس کے واسطہ سے نہیں کرتا تو ظاہر ہے کہ اسکے یہاں خطا ء واشتباہ کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔در اصل خطا اور اشتباہ اورلغزشیں؛جہل ونادانی اور صورت ذہنی کو خارج میں تطبیق دینے میں ہوتی ہے
اور جب انسان ڈایرکٹ حقیقتوں کے درمیاں ہوتا ہے اور اپنی باطنی قوت سے حقیقتِ ہستی سے رابطہ پیدا کرتا ہے تو وہاں خطا واشتباہ نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی ۔اور یہی آگاہی اور بینش ہی غیبی احاطہ کا نتیجہ ہے جو انسان کو ہمیشہ خطا واشتباہ سے محفوظ رکھتاہے۔اور جب کوئی شخص قبیح اعمال کے برے نتائج اور خسارتوں سے بخوبی واقف ہو اور اطاعت مولی کا جذبہ اسکے اندر بہت زیادہ ہو اور تقوا کی چوٹی پر فائز ہو تو ایسے شخص کے اندر یہ خود حفاظتی قدرت پیدا ہوجاتی ہے اور گناہ کرنا الگ وہ گناہ کا تصور بھی نہیں کرتا ۔لہذا معصوم کی عصمت ؛رفتار ؛گفتار اور افکار سب میں ہوتی ہے اور اسکی بنیاد علم غیب ہے جو کی عطیہ الہی ہے ۔اور جب یہ معلوم ہو جاے کہ تقوی اور ایمانِ کامل کا لازمہ عصمت ہے اور جب بندہ ایمان کے آخری مراحل میں داخل ہوتا ہے اور ظلمات کے سارے مراحل کاٹنے کے بعد جب نور الھی میں محو ہو جاتا ہے اور آنکھوں کے سامنے سے ظلمانی اور نورانی پردے ھت جاتے ہیں اور نفس ِ انسانی عین یقین کے مرحلے تک پہونچ جاتی ہے تو پھر اس مرحلے میں یقین کے ذریعے ہر چیز کا اصل حقیقت کشف ہوتی ہے اور کوئی شئی غیر معلوم نہیں رہ جاتی بلکہ صددر صد واقع کے مطابق پاے گا؛ لہذا جب عصمت اس مرحلے تک پہونچ جاے (جس تک رسائی ایک عام آدمی کے لیے ممکن نہیں اگر چہ عصمت کے ایک مرحلہ کا تحصل ممکن ہے )تو یہ عصمت خود بخود اس انسان کے تمام افعال اور اقوال میں حجیّت لے آتی ہے ۔
آخر میں درگاہ ازدی میں دست بستہ دعا ہے کہ پروردگارا ہم سب کو ثقلین طاہرہ سے صحیح معنوں میں تمسک لینے کی توفیق عطا فرمائیں آمین!