ہمارا عقيدہ ہے کہ خدا نے ہميں سوچنے کي قوت اور عقل کي طاقت دے کر ہم پر لازم کر ديا ہے کہ ہم اس کي مخلوقات کے متعلق سوچيں، بڑے غور سے اس کي خلفت کي نشانياں ديکھيں اور دنيا کي پيدائش اور اپنے جسم کي بناوٹ ميں اس کي حکمت اور تدبير کي پختگي کا گہرا مطالعہ کريں- جيسا کہ خداوند عالم قرآن مجيد ميں فرماتا ہے- سَنُرِيھِم اٰيٰتِنَا فِي الاٰفَاقِ وَفِي اَنفُسِھِم حَتَّي يَتَبَيَّنَ لَھُم اَنَّہُ الحَقُّ
ہم بہت جلد دنيا کي اور ان (انسانوں ) کي پيدائش ميں اپني عظمت کي نشانياں دکھائيں گے تاکہ ان پر يہ ظاہر ہوجائے کہ خدا ہي حق ہے- (سورہ حَم سجدہ - آيت 53 کا جزو)
ايک اور مقام پر خدا ان لوگوں کو جو اپنے بزرگوں اور پرکھوں کي پيروي کرتے ہيں
ملامت کرتے ہوئے فرماتا ہے:
قَالُوا بَل نَتَّبِعُ مَااَلفَينَا عَلَيہِ اٰبَاءَنَااَوَلَوکَانَ اٰبَاۆُھُم لاَ يَعقِلُونَ شَيئًا---
انہوں نے کہا ، ہم اس طريقے پر چلتے ہيں جس پر ہم نے اپنے بزرگوں کو ديکھا ہے - تو کيا ان کے بزرگ کچھ بھي يہ سمجھتے ہوں پھر بھي (وہ پيروي کے لائق ہيں)؟ (سورہ بقرہ - آيت 170 کا جزو)
اسي طرح خدا ايک دوسرے مقام پر ان لوگوں کي مذمت کرتا ہے جو اپنے گمان اور مبہم اندازوں پر چلتے ہيں : اِن يَّتَبِعُونَ اِلَّاالظَّنَّ-
(گمراہ اور مشرک لوگ) صرف گمان پر چلتے ہيں- (سورہ انعام - آيت 117 کا جزو)
حقيقت ميں ہمارا يہ عقيدہ ہماري عقل کا حکم ہے جو ہم سے يہ چاہتي ہے کہ ہم اس پيدا ہونے والي دنيا کے متعلق سوچيں اور اس راستے سے خالق کو پہچانيں- اسي طرح وہ ہميں حکم ديتي ہے کہ ہم اس شخص کي دعوت پر غور کريں جو پيغمبر کا دعويٰ کرتا ہے اور اس کے معجزوں کا مطالعہ کريں- ان باتوں ميں ہمارے ليے دوسرو کي پيروي مناسب نہيں چاہے وہ کتنے ہي اونچے مرتبے کے مالک ہوں-
قرآن ميں علم و معرفت کي پيروي اور غور و فکر کے متعلق جو ترغيب دلائي گئي ہے وہ حقيقت ميں سوچ بچار کي اس پختگي اور آزادي کا بيان ہے جس پر تمام عقلمند لوگ متفق ہيں- در حقيقت قرآن مجيد حقيقتوں کو پہچاننے اور ان کو سمجھنے کي اسي قدرتي صلاحيت سے ہماري روحو کو آگاہ کرتا ہے اور ذہنوں کو تحريک دے کر عقل کے فکري تقاضوں کي طرف ان کي رہنمائي کرتا ہے اس ليے يہ بات ٹھيک نہيں ہے کہ انساني اعتقادي معاملات ميں بے پروا رہے اور اپنے ليے کسي ايک راستے کا انتخاب نہ کرے يا اپنے تربيت دينے والوں کي يا ہر شخص کي پيروي کرنے لگے بلکہ عقل کي فطري آواز کے مطابق جس کي تائيد قرآن مجيد کي واضح آيتوں سے بھي ہوتي ہے، اس پر واجب ہے کہ وہ سوچے سمجھے اور عقيدوں (1) کے اصول کا جنہيں اصول دين کہتے ہيں بہت دھيا سے مطالعہ کرے- ان ميں سب اہم توحيد (2) ، نبوت، امامت اور قيامت ہيں-
جس شخص نے ان اصولوں ميں اپنے بزرگوں يا دوسرے لوگوں کي پيروي کي ہے وہ يقيناً غلطي کر بيٹھا ہے اور سيدھے راستے سے بھٹک گيا ہے اسے ہرگز معاف نہيں کيا جائے گا-
اس معاملے ميں ہمارے عقيدے کا خلاصہ صرف دو باتيں ہيں:
1:- اصول دين کے پہچاننے ميں خود تفکر و تدبر کرنا ضروري ہے- اس بارے ميں کسي شخص کے ليے بھي دوسروں کي پيروي جائز نہيں ہے-
2:- غور و فکر کے ذريعے سے اصول دين کي پہچان----- حکم شروع سے بھي پہلے ---- عقل کے حکم کے مطابق واجب ہے، زيادہ صاف الفاظ ميں يوں کہيے کہ اگرچہ تحريريں اور روايتيں عقلي دليل کي تائيد کرتي ہيں مگر اصول دين کي پہچان کو واجب ثابت کرنے کے ليے ہم ديني کتابوں اور روايتوں کو دليل کے طور پر پيش نہيں کرتے-
اصول دين کي پہچان کو عقل کي رو سے واجب کہنے کے معني يہ ہيں کہ عقل اصول دين کي پہچان کي ضرورت اور اس معاملے ميں سوچ و بچار اور غور و خوض کي ضرورت صاف صاف سمجھ ليتي ہے-
حوالہ جات:
(1) جو کچھ اس کتاب مي مذکور ہے - يعني اصول عقائد - متذکرہ بالامنعوں ميں نہيں ہے، بعض عقائد جو اس کتاب ميں موجود ہيں مثلاً قضا و قدر اور رجعت وغيرہ ، ان امور ميں فکر اور عقلي تحقيق ضروري نہيں ہے بلکہ يہ جائز ہے کہ ايسے علماء کي پيروي کي جائے جو اس قسم کے اعتقادات رسول (ص) اور اہلبيت رسول (ص) کي صحيح روايات سے سمجھ کر ہميں بتائيں-
(2) عدالت چونکہ خدائے حکيم سے جدا نہ ہونے والي ايک صفت ہے اس ليے مصنف نے يہاں اس کا ذکر نہيں کيا کيونکہ اس کا بيان صرف تقابلي مطالعے کے وقت ضروري ہوتا ہے
source : tebyan