اردو
Thursday 19th of December 2024
0
نفر 0

روزہ اور رياضت

سوئم: تيسرا فرق اس محرک اور ہدف و غايت کے لحاظ سے ہے جس کے حصول کے لئے مرتاض تپسيا ميں مصروف ہوتا ہے- اگر مرتاض سے پوچھا جائے کہ اس عمل سے تمہارے اس عمل کا محرک اور اس کا ہدف کيا ہے، تو وہ کہہ سکتا ہے کہ: "ميں يہ سب روح کي تقويت يا ارادے کي تقويت کے لئے انجام دے رہا ہوں يا ايک خاص قسم کي صلاحيت حاصل کرنا چاہتا ہوں"- ليکن روزے کي
روزہ اور رياضت

سوئم: تيسرا فرق اس محرک اور ہدف و غايت کے لحاظ سے ہے جس کے حصول کے لئے مرتاض تپسيا ميں مصروف ہوتا ہے- اگر مرتاض سے پوچھا جائے کہ اس عمل سے تمہارے اس عمل کا محرک اور اس کا ہدف کيا ہے، تو وہ کہہ سکتا ہے کہ: "ميں يہ سب روح کي تقويت يا ارادے کي تقويت کے لئے انجام دے رہا ہوں يا ايک خاص قسم کي صلاحيت حاصل کرنا چاہتا ہوں"- ليکن روزے کي اولين شرط يہي ہے کہ روزہ دار شخص "قرب الہي" کي نيت کرے کيونکہ رسول اللہ (ص) کا ارشاد ہے کہ "إِِنَّمَا الْأََعْمالُ بِالنِّيِّاتِ"- (3) بے شک اعمال کا دارومدار نيتوں پر ہے-

البتہ روزہ دار کا محرک جنت اور جنت کي نعمتيں بھي ہوسکتي ہيں؛ تاہم "قربة الي الله" کي نيت کرنا ضروري ہے- وہ بندگي اور عبوديت کے دائرے ميں اللہ کي رضا کمانا چاہتا ہے اور اس کے بعد مادي اور معنوي نعمتوں سے بہرہ مند ہونا چاہتا ہے-

پس الٰہي رياضتوں ميں، نيت اور محرک، الہي ہے جبکہ تپسيا کرنے والوں کے عمل کي للٰہيت معلوم نہيں ہے-

چہارم- ديني اور غير ديني رياضتوں کے درميان ايک فرق رياضت کي حصوليابيوں اور نتائج کو بروئے کار لانے سے تعلق رکھتا ہے- ايک مۆمن انسان ـ جو احکام الہي پر عمل کرکے کمالات تک پہنچ جاتا ہے ـ کبھي بھي ان کمالات اور ثمرات سے ناجائز فائدہ نہيں اٹھاتا اور کسي صورت ميں بھي ان کمالات کو حرام راستے ميں خرچ کرتا- جبکہ ايک مرتاض جب رياضت اور تپسيا کے نتيجے ميں بعض صلاحيتيں حاصل کرتا ہے عين ممکن ہے کہ ان کو غير صحيح اور ناجائز راستوں ميں صرف کرے- اب سوال يہ ہے کہ کيا غيرديني تپسيا کے ذريعے بھي کوئي انسان کسي مقام و منزلت تک پہنچ سکتا ہے؟

جواب مثبت ہے؛ کيونکہ رياضت اور اس کے نتائج علت و معلول کے نظام آتے ہيں؛ يعني اگر علّت (يا سبب جو کہ اپنے آپ کو مشقت ميں ڈالنے سے عبارت ہے) معرض وجود ميں آتي ہے تو معلول (اور نتيجہ جو بعض پہلۆوں ميں روح کي تقويت کي صورت ميں نمودار ہوتا ہے) بھي حاصل ہوجاتا ہے؛ البتہ يہ علت معلول کا سلسلہ، ہوسکتا ہے کہ ايک اخلاقي اور الہي نظام کے دائرے ميں تشکيل پائے يا ممکن ہے کہ اس نظام سے باہر- بالکل ايک تيزدھار خنجر کي مانند جس کو صحيح يا غلط راستے ميں استعمال کيا جاسکتا ہے اور ممکن ہے کہ خنجر صحيح روش سے تيز کيا گيا ہو يا غصبي اور غلط روش سے- چنانچہ روح کو تقويت پہنچانا خنجر کو تيز کرنے کي طرح ہے- پس ديني رياضتوں کے سائے ميں، اگر ايک طرف سے انسان کا نفس طاقتور ہوجاتا اور وہ کمالات پر فائز ہوتا ہے؛ وہ حقيقي اور ابدي سعادت تک بھي پہنچ جاتا ہے- يہ وہ امر ہے جو غير ديني تپسيا کے ذريعے حاصل کرنا ممکن نہيں ہے-

 

حوالہ چات:

3- مستدرك الوسايل، ج 1، ص 90-


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

''سیرة النبی ۖ'' مولانا شبلی نعمانی اور ''اُسوة ...
قرآن کی نگاہ میں جوان
قيام عاشورا سے درس ( تيسرا حصّہ )
حکومت اسلامی کی تشکیل ائمہ (ع)کا بنیادی ہدف رہا ہے
اسلامی رسالت کے بعض نقوش
قرآن کریم میں ولایت اور اولوالامر کا بیان
حضرت علی (ع) کی شخصیت نہج البلاغہ کی نظر میں
قرآن مجيد اور خواتين
انبیاء کی خصوصیات
قرآن اور عورت

 
user comment