جاوداں زندگی اور اخروی حیات پر ایمان کا مآخذ دوسری ہر چیز سے پہلے اللہ کی طرف سے وحی ہے جو انبیاء کے توسط سے انسان تک پہنچی ہے۔ جب انسان نے معرفت خدا کے بعد پیغمبران خدا کی سچائی کا یقین کر لیا اور یہ جان لیا کہ پیغمبر جو کچھ قطعی طور پر کہتے ہیں، وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے، اس کا خلاف واقع ہونا ممکن نہیں، تو وہ قیامت اور اخروی جاوداں حیات پر ایمان لے آتا ہے، کیونکہ تمام انبیاء و رسل کے نزدیک اس پر ایمان لانا توحید کے بعد اسلام کا اہم ترین اصول ہے، لہٰذا حیات اخروی پر ہر فرد کے ایمان کے درجہ کا تعلق ایک طرف تو اس بات سے ہے کہ اس کا ایمان نبوت کے اصول پر کس قدر ہے اور وہ کس قدر نبی کی سچائی اور صدق گفتار کا قائل ہے۔ دوسری طرف اس کا تعلق اس امر سے ہے کہ اس کی معرفت کی سطح کس قدر بلند ہے۔ معاد اور آخرت کے متعلق اس کا تصور کس قدر صحیح، معقول اور عقل کے نزدیک پسندیدہ ہے اور کہیں جاہلانہ تصورات اور عامیانہ خیالات نے اسے متاثر تو نہیں کیا؟ البتہ وحی الٰہی کے علاوہ بھی جس کی خبر انسان کو انبیاء کے ذریعے سے ہوئی ہے، کچھ راہیں قرائن اور علامات کی ہیں، جن کی وجہ سے معاد کے وجود کا اعتقاد اور اس پر ایمان پیدا کیا جا سکتا ہے۔ یہ راہیں اور قرائن انسان کی فکری، عقلی اور عملی کاوشوں کا نتیجہ ہیں اور ان راہوں اور قرائن کو کم از کم انبیاء کے فرامین کا موید قرار دیا جا سکتا ہے، جو یہ ہیں:
۱۔ خدا شناسی کا طریقہ
۲۔ انسانی روح اور نفس کی شناخت کا راستہ
فی الحال ہم ان قرائن سے معترض نہیں ہونا چاہتے کیونکہ اس کا لازمہ یہ ہو گا کہ کچھ خاص قسم کی علمی و فلسفی بحثیں سامنے آئیں گی، لہٰذا ہم صرف وحی اور نبوت کے ذریعے معاد کے بارے میں گفتگو کریں گے، لیکن چونکہ خود قرآن میں ان راہوں کے بارے میں صراحت یا اشارے پائے جاتے ہیں، لہٰذا ہم ان کا ذکر بعد میں "اخروی دنیا کے متعلق قرآن کا استدلال" کے عنوان کے تحت کریں گے۔ وہ مسائل جن کے بارے میں بحث ضروری ہے تاکہ معاد اور جاوداں زندگی کا مسئلہ اسلامی نقطہ گاہ سے واضح ہو جائے، درج ذیل ہیں:
موت کی ماہیت
موت کے بعد کی زندگی
عالم برزخ
قیامت کبریٰ
دنیوی زندگی کا اخروی زندگی سے رابطہ
انسانی اعمال کا مجسم اور جاوداں ہونا
دنیوی زندگی اور اخروی زندگی میں مشترکہ اور مختلفہ امور
اخروی دنیا کے متعلق قرآنی استدلات
عدلِ الٰہی
حکمتِ الٰہی
source : tebyan