بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
<زَعَم الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اٴَنْ لَنْ یُبْعَثُوْا قُلْ بَلٰی وَ رَبِّی لَتُبْعَثُنَّ ثُمَّ لَتُنَبِّوٴُنَّ بِمَا عَمِلْتُمْ وَ ذٰلِکَ عَلَی اللهِ یَسِیْرٌ>
”کافروں کا خیال یہ ھے کہ یہ لوگ دوبارہ نہ اٹھائے جائیں گے (اے رسول) تم کہہ دو، وھاں اپنے پروردگار کی قسم تم ضرور اٹھائے جاوٴ گے پھر جو جو کام تم کرتے رھے اس بارے میں تم کو ضرور بتا دیا جائے گا اور یہ تو خدا پر آسان ھے“
<قُلِ اَللهُ یَحْیِیْکُمْ ثُمَّ یُمِیْتُکُمْ ثُمَّ یَجْمَعُکُمْ اِلٰی یَوْمِ القِیَامَةِ لَا رَیْبَ فِیْہِ>
”(اے رسول ) تم کہہ دو کہ خدا ھی تم کو زندہ (پیدا) کرتا ھے اور وھی تم کو مارتا ھے پھر وھی تم کو قیامت کے دن جس (کے هونے) میں کسی طرح کا شک نھیں“
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
الحمد لله رب العالمین والصلوٰة و السلام علی خیرخلقہ محمد وآلہ الطیبین الطاھرین۔
یہ وہ عظیم اسلام ھے جس نے اپنے احکامات و تکالیف نوع بشریت کے حوالے کئے ھیں اور اپنے تمام احکامات میں یا تو کسی فعل کو طلب کیا ھے یا اس فعل کے ترک کرنے کے لئے کھا ھے اسی طرح اپنے تمام اھداف و مقاصد میں جتنے بھی رابطے پائے جاتے ھیں چاھے اس شخص کا معاشرہ سے رابطہ هو یا معاشرہ کا افراد سے رابطہ هو یا ان تمام کا حکومت سے رابطہ هو یا حکومت کا اپنے تمام شعبہ جات سے رابطہ هو، اس کے بعد (ان تمام رابطوں سے بڑھ کر)انسان کا اپنے پروردگار سے رابطہ کس طریقہ سے هو یا کس طریقہ سے خدا کی عبادت کی جائے اور اس کا تقرب حاصل کیا جا سکے۔
اس ھمیشہ باقی رہنے والے ا سلام نے اپنی تمام تر تعلیمات احکام،فرائض اور نظم و ضبط کے باوجود کیا اس نے ایک مسلمان کو عملی میدان میں آزادی کا اختیار دیا ھے؟ کہ اگر وہ چاھے تو عمل کرے اور نہ چاھے تو عمل نہ کرے؟
یا اس کو ملزَم اور مجبور کر دیا گیا کہ احکامات و تکالیف پر ھر حال میں عمل کرے اور کسی بھی صورت میں ان سے غفلت نہ کرے، کیونکہ اگر ان فرائض و احکام کی مخالفت کرے گا تو مستحق عقاب هوگا ،۔
اور جب ایک مسلمان کے لئے ان تمام احکام پر مکمل طریقہ سے عمل کرنا ضروری ھے، تو کیا صرف ان مخالفتوں پر عذاب وعقوبت هوگی جس کا علم حاکم وقت کو هوجائے اور وہ اس کے لئے قانون کے معین شدہ عقوبت کو اس پر جاری کرے اور بس؟
لیکن وہ جرائم اور مخالفتیں جو مخفی طورپر انجام پاتی ھیں تو اس صورت میں تو کسی حاکم کو معلوم نھیں هوتا تو کیا ان مخالفتوں پر کوئی عقاب نھیں هوگا؟!
تو اس بارے میں کیا نظریہ ھے جس میں مخالفت اور قانون شکنی پر کوئی بھی دیکھنے والا نھیں هوتا تاکہ اس کو اس کے جرائم کی سزا دلا سکے، لہٰذا یہ بات ثابت هوجاتی ھے کہ یہ خدا کے اوامر واحکامات کی مخالفت ھے مثلاً انسان کا نماز نہ پڑھنا یا روزہ نہ رکھنا۔
اور جن مخالفتوں پر مجرم پر حد جاری هوتی ھے یا اس کو دیت دینا پڑتی ھے تو کیا ان میں خداوندعالم کا حق بھی هوتا ھے ”جس پر قانون وضعی کی اصطلاح میںعام حق کا اطلاق هوتا ھے“ یا فقط مجرم پر حد جاری هونے سے مجرم بالکل بری الذمہ هوجاتا ھے؟
اور یہ مسلمان جو خدا کی خلوص کے ساتھ اطاعت کرتا ھے اور بہت سی لذات وشهوات اور رغبات کو اپنی اوپر حرام کرتا ھے تاکہ خدا کے احکام کی پابندی کرتے هوئے اس کا تقرب حاصل کرے ، جیسا روزہ دار جس کو بھوک وپیاس کا احساس هوتا ھے لیکن خدا کی اطاعت میں روزہ بجا لاتا ھے، یا جس طرح کوئی سامان کا بیچنے والا اگر وہ چاھے تو کم تول سکتا ھے یا کسی چیز میں ملاوٹ کرسکتا ھے ، لیکن خدا کی اطاعت کی خاطر یہ کام نھیں کرتا، یا اسی طرح کی دوسری مثالیں، جن میں انسان مخفی طریقہ سے کوئی حرام کام کرسکتا ھے لیکن خدا کی رضا کے پیش نظر اس کو انجام نھیں دے سکتا۔
چنانچہ یہ مسلمان جو اپنے نفس پر اتنی چیزوں کو صرف خدا کی خوشنودی کے لئے حرام قرار دیتا ھے، تو کیا اس کا ثمر ہ صرف یہ ھے کہ اس نے خدا کی اطاعت کر لی اور بس ، مرحبا،! یعنی اس کے بعد کوئی ثواب وجزا نھیں، یا اس کے بعد انسان کے لئے اس کا معاوضہ ملے گا جو اس نے اس دنیا میں رہ کر بہت سی چیزوں سے پرھیز کیا ھے اس کے بدلہ میں اس کو روزقیامت اتنا اجر ملے گا کہ اس کا کوئی گھاٹا نھیں هوگا، بلکہ اس کا بدلہ کھیں زیادہ ملے گا ۔
اور جبکہ اس کو یہ معلوم ھے کہ اس کو ان تمام چیزوں کے بدلے میں اتنا سب کچھ ملے گا تو وہ یہ کام اطمینان اور سکون کے ساتھ انجام دے سکتا ھے ، اور اس راہ میں آنے والی تمام روکاٹوں کا مقابلہ کرنے کےلئے دلی طور پر آمادہ رھے گا۔
اور جب یہ بدلہ صحیح ھے جیسا کہ ھم نے ابھی اشارہ کیا تو یہ کب هوگا اور کس طرح؟
تو پھر ضروری ھے کہ انسان اپنی زندگی گذارنے کے بعد اس منزل پر پہنچے جھاں اس کو اطاعت کے بدلے میں انعام واکرام ملے اور معصیت نافرمانی کے بدلے میں عقوبت و عذاب ملے۔
تو پھر انسان کے مرنے کے بعد ایک ایسے دن کا آنا ضروری ھے کہ جب اس کو حساب اور قضاوت کے لئے دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ معلوم هوجائے کہ یہ شخص اپنے گذشتہ کاموں کی بنا پر مستحق ثواب وجزا ھے یا مستحق عذاب وسزا۔
لیکن یھاں پر پهونچنے کے بعد یہ سوال پیدا هوتا ھے کہ کیا یہ سب ممکن ھے؟ اور اس کی کیا دلیل ھے؟ اور کیا کوئی عقلمند انسان اس بات کو قبول کرسکتا ھے کہ وہ مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کیا جا سکتا ھے؟ تا کہ اس کا حساب وکتاب هو سکے اور اس کے ثواب وعذاب کے بارے میں طے کیا جا سکے؟!
قارئین کرام ! ھم نے انھیں تمام باتوں کی تفصیل بیان کرنے کے لئے اس حصہ کو مرتب دیا ھے تاکہ ھم اپنے قارئین کے سامنے ان مسائل کی تھوڑی تفصیل بیان کریں، البتہ ھم مطالب کو آسان عبارت میں بیان کرنے کی کوشش کریں گے اور فلسفی اور دقیق اصطلاحوں سے پرھیز کریں گے تاکہ مطالب کماحقہ آپ حضرات تک پهونچ سکیں، اور آپ حضرات کی فکر روشن هو جائے۔
ھمیں امید ھے کہ ان صفحات میں اپنے مقصد کو کماحقہ آپ تک پهونچائیں اور پیچیدہ مسائل کی توضیح وتفسیر بیان کریں تاکہ آپ حضرات تک اسلامی حقائق پهونچ جائیں۔
اور یہ بات بھی عرض کر دینا ضروری ھے کہ: ھمارے قارئین کرام ھم سے یہ چاھیں (جبکہ ھم اصول دین کی اس اھم اصل (قیامت) کے بارے میں گفتگو کریں گے) کہ آپ کی بحث صرف عقلی هونی چاہئے تاکہ نقض وبررسی کی جا سکے اور وہ بھی فلسفی روش کے مطابق تاکہ اس میں قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار هو۔
لیکن حقیقت یہ ھے کہ ھم یھاں پر ایک دوسرا طریقہ اختیار کر رھے ھیں جو آپ کی خواہش سے تھوڑا مختلف ھے۔
کیونکہ ھم دیکھتے ھیں کہ کلی طور پر قیامت کا مسئلہ ھمارے عقیدہ اور شریعت اسلام کی حدود میں ھے، لہٰذا ھمارے لئے ضروری ھے کہ پھلے ھم قرآن کریم سے کوئی نظریہ اور دلائل پیش کریں اور اس کے بعد قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیارآپ لوگوں کو هو گا یا اس پر اشکال کا بھی اختیار هوگا، لہٰذا ھم اسی روش کو اختیار کرتے ھیں۔
چنانچہ اس چیز کو ماننے میں کوئی عقلی قباحت نھیں ھے بلکہ یہ تو منطق صحیح کا نتیجہ ھے جس کو ھر شخص قبول کرتا ھے اور اسی عقل کے ذریعہ انسان آہستہ آہستہ اپنے ایمان کو پختہ کرتا ھے اور اس کو ھر اعتبار سے اپنے لئے مشعل راہ قرار دیتا ھے۔
اورھم خداوندعالم پر ایمان رکھتے ھیں کہ وھی ھمارا خالق اور ایجاد کرنے والا ھے، جبکہ اس ایمان پر عقل کے علاوہ اور کوئی دلیل نھیں ھے۔
اسی طرح ھم خدا وندعالم پر ایمان رکھنے کے ساتھ ساتھ اس کو عادل مانتے ھیں جو ھر طرح کی هواء نفسی، جھوٹ، ظلم اور برے قصد سے پاک و پاکیزہ ھے۔
اسی طرح خدا کے ایمان کے ساتھ ساتھ ھم نبوت عامہ (گذشتہ انبیاء کی نبوت) اور نبوت خاتم (نبوت حضرت محمد مصفیٰ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بھی ایمان رکھتے ھیں.
کیونکہ یہ ایمان کے تینوں مراحل ایسے ھیں جو پھلے مرحلہ پر موقوف ھیں اور انھیں تینوں مراحل کی بنا پر ایک دوسرے مرحلہ کی نوبت آتی ھے جس کو قیامت کھا جاتا ھے، کیونکہ جب پھلے مرتبہ میں خدائے خالق وعادل پر ایمان رکھتے ھیں تو دوسری منزل میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان رکھنا ضروری ھے اور تیسرے مرحلہ میں خدا کی نازل کردہ کتاب (قرآن کریم) پر ایمان رکھنا ضروری هو جائے گا، تو پھر تعجب کی کوئی بات نھیں کہ اس سلسلہ میں ان احادیث نبوی پر بھی عمل کریں جو خدا کی طرف سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر وحی نازل هوئی ھے۔
source : tebyan