اردو
Sunday 22nd of December 2024
0
نفر 0

مومن کے شب و روز

مومن کے شب و روز حضرت محمد بن حنفیہ راوی ہیں کہ جنگِ جمل کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام بصرہ تشریف لائے تو احنف بن قیس نے آپ کو کھانے کی دعوت دی۔ جب کھانا تیار ہوگیا تو اس نے آپ کو بلایا۔ جب آپ وہاں پہنچ گئے تو آپ نے احنف سے فرمایا کہ میرے دوستوں کو بلاؤ۔
مومن کے شب و روز

مومن کے شب و روز

حضرت محمد بن حنفیہ راوی ہیں کہ جنگِ جمل کے بعد امیرالمومنین علیہ السلام بصرہ تشریف لائے تو احنف بن قیس نے آپ کو کھانے کی دعوت دی۔ جب کھانا تیار ہوگیا تو اس نے آپ کو بلایا۔ جب آپ وہاں پہنچ گئے تو آپ نے احنف سے فرمایا کہ میرے دوستوں کو بلاؤ۔

چنانچہ احنف کے بلانے پر خشوع و خضوع رکھنے والی ایک جماعت داخل ہوئی اور کثرتِ عبادت کی وجہ سے ان کے اجسام خشک مشکوں کی طرح سے ہوچکے تھے۔

احنف بن قیس نے عرض کیا: امیر المومنین! ان کی یہ حالت کیوں ہوگئی ہے؟ کیا خوراک کی کمی کی وجہ سے ایسا ہوا ہے یا جنگ کے خوف سے کمزورپڑ گئے ہیں؟

آپ نے فرمایا: احنف! ایسا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس داردنیا میں ایک گروہ کو اپنا محبوب بنایا ہے اور خدا کے محبوب افراد خدا کے لیے اس طرح سے عبادت کرتے ہیں جیسے انہیں قیامت کے مشاہدہ سے قبل قرب قیامت کا علم ہوچکا ہو اور انہوں نے اس کے لیے جدوجہد شروع کر دی ہو۔ اور جب انہیں خدا کے حضور پیش ہونے کے دن کی یاد آتی ہے تو وہ گمان کرتے ہیں کہ آتش دوزخ کا ایک شعلہ نکل کر مخلوقات کو خدا کے سامنے جمع کر رہا ہے اور انہیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ انہیں نامہ اعمال پکڑا دیئے جائیں گے اور جہان کے سامنے انہیں رسوا کیا جائے گا جس کی وجہ سے ان کی جانیں پگھلنے کو آجاتی ہیں اور ان کے دل خوف کے پَر لگا کر اڑنے کو آجاتے ہیں اور جب وہ محسوس کرتے ہیں کہ خدا کے حضور تنہا پیش ہوں گے تو جوش مارتی ہوئی دیگ کی طرح سے جوش و خروش میں آجاتے ہیں اور ان کی عقل ان سے جدا ہونے کو آجاتی ہے اور وہ لوگ تاریکی شب میں کسی حیران و سرگردان کی طرح سے نالہ وفریاد کرتے ہیں اور انہوں نے اپنے نفوس کو جس خوف سے آگاہ کیا ہے ‘ اس کی وجہ سے درد والم کشید کرتے رہتے ہیں۔ چنانچہ وہ دنیا میں اسی احساس کی وجہ سے ان کے اجسام کمزور‘ ان کے دل غمگین‘ ان کے چہرے دگرگوں‘ ان کے ہونٹ خشک اور ان کے شکم تہی ہوتے ہیں۔ تم انہیں دیکھو گے کہ گویا وہ نشے میں ہیں اور وحشتِ شب سے پیار کرتے ہیں اور وہ خدا کے سامنے یوں متواضع ہیں گویا کہ بوسیدہ مشکیں ہوں۔ انہوں نے اپنے ظاہری و باطنی اعمال کو خدا کے لیے خالص کیا ہے۔ ان کے دل خوفِ خدا سے مطمئن نہیں ہیں۔ ان کی حالت سلاطین کی بارگاہ کے نگہبانوں جیسی ہے (جو کہ ہر وقت ہوشیار رہتے ہیں)

اور اگر تم انہیں رات کے وقت دیکھو جب لوگوں کی آنکھیں سو چکی ہوں‘ صدائیں خاموش ہو چکی ہیں اور پرندوں کے آشیانوں پر بھی سکوت طاری ہو تو تم دیکھو گے قیامت کی ہولناکیوں اور وعید الٰہی نے ان کی آنکھوں سے نیند چھین لی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

اسی کو مدنظر رکھ کر وہ خوفزدہ ہوکر بیدار ہو جاتے ہیں اور بلند آواز سے گریہ کرتے ہوئے نماز کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ کبھی وہ رو رہے ہوتے ہیں اور کبھی تسبیح میں مصروف ہوتے ہیں۔ وہ اپنے محراب عبادت میں گریہ کرتے ہیں اور نالہ و فریاد کرتے ہیں اور تاریک و خاموش راتوں میں صفیں بنا کر خدا کے حضور روتے ہیں۔

احنف! اگر تم رات کے وقت جب وہ عبادت میں کھڑے ہوں‘ انہیں دیکھ سکو تو تم یہ دیکھو گے کہ ان کی پشت (رکوع میں) خم ہوگی اور اپنی نماز میں قرآن کے اجزاء کی تلاوت میں وہ تمہیں مصروف دکھائی دیں گے اور اس عالم میں ان کے گریہ و فریاد اور نالوں کی آوازیں بلند ہوں گی اور جب وہ سانس لیں گے تو تم یہ سمجھو گے کہ آگ نے ان کے حلق کو پکڑ رکھا ہے اور جب ان کی صدائے گریہ بلند ہوتی ہے تو تم اس کے متعلق یہ تصور کرو گے کہ ان کی گردنیں سختی کے ساتھ زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔

اور جب تم انہیں دن میں دیکھو گے تو تمہیں وہ پروقار طریقہ سے زمین پر چلتے ہوئے دکھائی دیں گے اور لوگوں سے اچھی گفتگو کر رہے ہوں گے۔ اور جب جاہل انہیں خطاب و عتاب کرتے ہیں تو وہ نرمی و مدارات سے انہیں جواب دیتے ہیں اور جب ان کا گزر کسی لغو اور بے فائدہ چیز کے پاس سے ہوتا ہے تو وہ شریفانہ انداز سے وہاں سے گزر جاتے ہیں۔ انہوں نے اپنے قدموں کو تہمت (کے مقامات) سے روکا ہوا ہے۔ اور لوگوں کی آبروریزی سے انہوں نے اپنی زبانوں کوگونگا بنا لیاہے اور ہر بات کرنے والا جب اپنی بات کو ان کے کانوں میں گھسیڑنا چاہے تو انہوں نے اپنے کانوں کو بہرا بنا لیا ہے اور انہوں نے اپنی آنکھوں کو گناہوں سے چشم پوشی کا سرمہ لگایا ہوا ہے اور انہوں نے سلامتی کی اس سرائے کا قصد کیا ہوا ہے کہ جو اس میں داخل ہو جائے اسے شک و اندوہ سے نجات مل جاتی ہے۔

احنف! معلوم ہوتا ہے تمہاری نظر اس داردنیا میں ہی ٹک گئی ہے اور تم نے اس دنیا کو دیکھا ہی نہیں ہے جسے اللہ تعالیٰ نے سفید موتی سے پیدا کیا ہے اور اس میں اس نے نہریں جاری کی ہیں اور جوان حوروں سے اسے پُر کیا ہے اور اپنے دوستوں اور اطاعت گزاروں کو اسی میں رہایش دی ہے۔

احنف! کاش تمہیں بھی چشم تصور سے وہ منظر دکھائی دیتاجب اہلِ اطاعت اپنے پروردگار کی وسیع نعمات پر وارد ہوں گے جب وہ جانے کا ارادہ کریں گے تو اس وقت ان کی سواریاں ایسی آوازیں نکالیں گی کہ اس سے بہتر آواز کسی سننے والوں نے کبھی سنی تک نہ ہوگی۔ اس وقت ایک بادل ان پر سایہ کرے گا اور وہ ان پر مشک و زعفران کی بارش برسائے گا۔ ان کے گھوڑے ان باغات کے پودوں میں ہنہنائیں گے اور ان کی جنتی اُونٹنیاں انہیں زعفران کے ٹیلوں سے لے کر گزر رہی ہوں گی اور وہ درو مرجان ان کے پاؤں میں پامال ہو رہے ہوں گے۔ اور جنت کے خدام گلوں کے بڑے بڑے دستے بنا کر ان کا استقبال کر رہے ہوں گے اور عرش کی جانب سے نسیم ملائم چلے گی اور وہ ان پر یاسمین اور بابونہ کے گلوں کو نچھاور کرے گی اور وہ دروازہ جنت پر جائیں گے تو رضوان ان کے لیے دروازہ کھولے گا پھر وہ دربہشت کے آستانہ پر خدا کے لیے سجدہ کریں گے۔ اس وقت خدائے جبار ان سے فرمائے گا:

اپنے سروں کو بلند کرو۔ میں نے عبادت کی زحمت تم سے اٹھا لی ہے اور میں نے تمہیں جنت رضوان میں رہائش دی ہے۔

احنف! یاد رکھو اگر تم نے میری مذکورہ گفتگو کو جو میں نے ابتدا میں تم سے کی ہے‘ بھلا دیا تو تمہیں قطران کے پیراہن پہنا دیے جائیں گے۔ (قطران‘ اس سیاہ اور بدبودار پیپ کو کہا جاتا ہے جو خارشتی اونٹوں کے جسم سے نکلتی ہے)

تجھے دوزخ کے طبقات اور دوزخ کے گرم پانی کے درمیان چکر لگانا پڑیں گے اور تجھے انتہائی سخت گرم پانی پلایا جائے گا۔

ہائے اس دن دوزخ میں بہت سی ٹوٹی ہوئی پشتیں اور تباہ چہرے ہوں گے اور جلنے کی وجہ سے انتہائی بدصورت چہرے وہاں موجود ہوں گے اورحالت یہ ہوگی کہ طوق و سلاسل ان کی مٹھیوں کو کھا چکے ہوں گے اور آتشیں طوق ان کی گردنوں سے پیوست ہوں گے۔

احنف! کاش تم دیکھ سکتے کہ وہ دوزخ کی وادیوں میں کیسے گر رہے ہوں گے اور آتشیں پہاڑوں پر کیسے چڑھ رہے ہوں گے اور انہیں قطران کا لباس پہنایا جا چکا ہوگا۔ اور انہیں بدکاروں اور شیاطین کے ساتھ ایک ہی زنجیر میں باندھا گیا ہوگا اور جب وہ دہکتی ہوئی آگ سے بچنے کے لیے بری طرح سے فریاد کریں گے تو ان پر دوزخ کے بچھو اور سانپ حملہ کر دیں گے۔

کاش! تم یہ آواز بھی سنتے جب منادی ندا دے کر کہے گا:

اے اہلِ جنت و نعیم اور اے جنت کے لباس و زیورات پہننے والو! اب تم ہمیشہ رہو گے۔ تمہیں موت نہیں آئے گی۔ یہ آواز سن کر اہلِ دوزخ کی ناامیدی میں مزید اضافہ ہوجائے گا اور ان کی تمام امیدیں منقطع ہوجائیں گی اور رحمت الٰہی کے تمام دروازے ان کے لیے بند ہوجائیں گے۔ اس وقت بہت سے بوڑھے چیخ کر کہہ رہے ہوں گے۔ ہائے میرا بڑھاپا اور کئی جوان چیخ کر کہیں گے ہائے میری جوانی!اور کئی عورتیں آواز دے کر کہیں گی: ہائے میری رسوائی۔ ان پر پڑے ہوئے پردے ان سے ہٹا لئے جائیں گے۔ اس دن کتنے ہی گناہ گار دوزخ کے طبقات میں قیدی بنا لئے جائیں گے۔ اس لباس دوزخ کی وجہ سے ہلاکت ہے جو تیرے تمام بدن پر چڑھا دیا جائے گا جب کہ دنیا میں تو تو نرم و ملائم لباس پہنا کرتا کرتا تھا۔ اور دنیا میں تو ٹھنڈے پانی اور دیواروں کے زیرسایہ بیٹھنے کا عادی تھا اور انواع و اقسام کے طعام کھایا کرتا تھا۔ پھر تجھے ایسا لباس دیا جائے گا جو تیرے ہر نرم و نازک بال کو سفید کرے گا اور جن آنکھوں سے تو اپنے دوستوں کو دیکھتا تھا وہ نگاہیں اندھی کر دی جائیں گی۔

اللہ تعالیٰ نے مجرمین کے لیے یہ کچھ آمادہ کیا ہے اور متقین کے لیے یہ کچھ تیار کیا ہے۔


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اولیائے الٰہی کیلئے عزاداری کا فلسفہ کیا ہے؟
امام محمد باقر (ع) كى سوانح عمري
اھداف عزاداری امام حسین علیه السلام
قمر بنی ہاشم حضرت ابوالفضل العباس (علیہ السلام)
قوم لوط (ع) كا اخلاق
عید مسلمان کی خوشی مگر شیطان کے غم کا دن ہے
علامہ اقبال کا حضرت فاطمة الزہراء (س) کی بارگاہ ...
جرمنی کے ایک شخص نے شیراز میں اسلام قبول کر لیا
يہوديت و نصرانيت ميں حکم حجاب
عاشورائے حسینی کا فاتح کون؟

 
user comment