اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

حسن و قبح كے معنی

پھلے معنی حسن وقبح كا اطلاق كمال ونقص پر هوتا ھے، لہٰذا علم حسن ھے اور جھل ونادانی قبیح، شجاعت وكرم حسن ھیں اور ان كے مقابلہ میں بزدلی اور بخل قبیح ھیں، اور ان میں كسی بھی مفكر اور دانشمند نے كوئی اختلاف نھیں كیا ھے كیونكہ یہ ایسے یقینی مسائل ھیں جن كو انسان اپنی آنكھوں سے دیكھتا ھے۔ دوسرے معنی
حسن و قبح كے معنی

پھلے معنی

حسن وقبح كا اطلاق كمال ونقص پر هوتا ھے، لہٰذا علم حسن ھے اور جھل ونادانی قبیح، شجاعت وكرم حسن ھیں اور ان كے مقابلہ میں بزدلی اور بخل قبیح ھیں، اور ان میں كسی بھی مفكر اور دانشمند نے كوئی اختلاف نھیں كیا ھے كیونكہ یہ ایسے یقینی مسائل ھیں جن كو انسان اپنی آنكھوں سے دیكھتا ھے۔

دوسرے معنی

حسن اس كو كہتے ھیں جو طبیعت كو اچھا لگے، اور قبیح اس كو كہتے ھیں جس سے طبیعت نفرت كرے، مثلاً یہ منظر، حسن ھے، یہ آواز حسن ھے یا بھوك كے وقت كھانا كھانا حسن ھے، اسی طرح یہ بھی كھا جاتا ھے كہ یہ منظر قبیح ھے یہ آواز قبیح ھے، اور اس معنی میں بھی كوئی اختلاف نھیں ھے، كیونكہ اس كا فیصلہ بھی خود انسانی شعور كرتا ھے اور اس میں شرع كا كوئی دخل نھیں ھے۔

تیسرے معنی

حسن و قبح كا اس چیز پر اطلاق كرنا جو مستحق مدح وذم هو، لہٰذا اسی بناپر یہ دونوں اختیاری افعال كی صفت قرار پاتے ھیں، اس حیثیت سے كہ عقلاء كے نزدیك حسن كے فاعل كو مستحق مدح و ثواب سمجھا جاتا ھے اور تمام ھی لوگوں كے نزدیك قبیح كے فاعل كو مستحق ذم و عذاب سمجھا جاتا ھے، اور یھی تیسرے معنی موضوع بحث ھیں۔

چنانچہ شاعرہ كا عقیدہ ھے كہ افعال كے حُسن و قُبح پر عقل كوئی حكم نھیں كرتی، بلكہ حسن وہ ھے جس كو شریعت حسن قرار دے اور قبیح وہ جس كو شریعت مقدس قبیح قرار دے، اور ان چیزوں میں عقل كی كوئی دخالت نھیں ھے۔

لیكن شیعہ امامیہ اور معتزلہ مذكورہ نظریہ كو قبول نھیں كرتے بلكہ ان كا عقیدہ یہ ھے كہ عقل كی نظر میں خود افعال كی ارزش واھمیت ھے بغیر اس كے شریعت كا اس میں كوئی دخل هو، اور انھی افعال میں سے بعض وہ افعال ھیں جو بذات خود حسن ھیں اور بعض بذات خود قبیح ھیں اور بعض ایسے افعال ھیں جن كو ان دونوں صفات میں سے كسی بھی صفت سے متصف نھیں كیا جاسكتا، شریعت مقدس انھی چیزوں كا حكم كرتی ھے جو حسن هوتی ھیں اور ان چیزوں سے منع كرتی ھے جو قبیح هوتی ھیں اور چونكہ صدق بذات خود حسن ھے اسی حسن كی وجہ سے خداوندعالم نے صدق كے لئے حكم كیا ھے اور جھوٹ چونكہ بذات خود قبیح ھے، اسی قبح كی وجہ سے خداوند عالم نے اس سے روكا ھے، نہ یہ كہ خدا نے منع كرنے كے بعد جھوٹ كو قبیح قرار دیا هو۔

اس مطلب پر ھماری دلیل یہ ھے كہ جو لوگ دین اسلام كو نھیں مانتے اور مختلف نظریات كے حامل ھیں وہ بھی صدق كو حسن اور جھوٹ كو قبیح مانتے ھیں جبكہ ان كو شریعت نے حسن وقبح كی تعلیم نھیں دی ھے۔

لہٰذا ان تمام باتوں سے ثابت یہ هواكہ حسن و قبح ذاتی دونوں شرعی هونے سے پھلے عقلی ھیں، عدل حسن ھے كیونكہ عدل ھے اور ظلم قبیح كیونكہ وہ ظلم ھے، بغیر اس كے كہ ان كے حسن و قبح میں كوئی شرعی اور دینی حكم هو۔ لہٰذا عقلی لحاظ سے خداوندعالم كا عادل هونا ضروری ھے كیونكہ عدل حسن ھے، اسی طرح عقلی لحاظ سے خداوند عالم كا ظالم هونا محال ھے كیونكہ ظلم قبیح ھے۔


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام علی کا مرتبہ شہیدمطہری کی نظرمیں
علم کا مقام
وحی کی حقیقت اور اہمیت
امام خمینی معاصر تاریخ کا مردِ مجاہد
خدا کا غضب کن کے لیۓ
علم کا مقام
انساني اخلاق کي درستي ميں قرآن کا کردار
اہل سنّت بھائیوں کے منابع سے پیغمبر اعظم ﷺکی ...
مياں بيوي کے نازک تعلقات
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...

 
user comment