معبود حقیقی سے انس و محبت
امین قریش نے اپنی زندگی کے تقریباً چالیس سال ان سختیوں اور محرومیوں کے باوجود، جو ھمیشہ دامن گیر رھیں، نھایت صداقت، شرافت، نجابت، کردار کی درستی اور پاکدامنی کے ساتھ گزارے آپ نے اس عرصے میں خدائے واحد کے علاوہ کسی کی پرستش نھیں کی، عبادت اور معرفت خداوندی کو ھر چیز پر ترجیح دی چنانچہ یھی وجہ تھی کہ آپ ھر سال کچھ عرصہ جبل نور اور ”غار حرا“ میں تنھا رہ کر عبادت خداوندی میں گزارتے تھے۔
جناب امیر المومنین حضرت علی (ع) اس سلسلے میں فرماتے ھیں:
و لقد کان مجاور فی کل سنة بحراء فاٴراہ و لایراہ غیری۔
رسول خدا ھر سال کچھ عرصے کے لئے غار حراء میں قیام فرماتے اس وقت میں ھی انھیں دیکھتا میرے علاوہ انھیں کوئی نھیں دیکھتا تھا۔
پیغمبر اکرم (ص) کے آباء و اجداد سب ھی موحد تھے اور سب ان آلودگیوں سے محفوظ تھے جن میں پوری قوم ڈوبی ھوئی تھی۔
اس بارے میں علامہ مجلسی فرماتے ھیں:
شیعہ امامیہ کا اس بات پر اتفاق ھے کہ رسول خدا کے والدین، آباء و اجداد مسلمان ھی نھیں بلکہ سب ھی صدیقین تھے، وہ یا تو نبی مرسل تھے یا معصوم اوصیاء ، ان میں سے بعض تقیہ کی وجہ سے یا مذھبی مصلحتوں کی بناء پر اپنے دین اسلام کا اظھار نھیں کرتے تھے۔
رسول اکرم کا ارشاد ھے: لم ازل انقل من اصلاب الطاھرین الیٰ ارحام التطھیرات۔
میں مسلسل پاک مردوں کے صلب سے پاک عورتوں کے رحم میں منتقل ھوتا رھا۔
مکہ میں اسلام کی تبلیغ اور قریش کا رد عمل
نزول وحی
خداوند تعالیٰ کی عبادت و پرستش کرتے ھوئے رسول اکرم کو چالیس سال گزر چکے تھے ایک مرتبہ آپ غار حراء میں معبود حقیقی سے راز و نیاز میں مشغول تھے اس وقت اچانک حضرت جبرئیل امین آپ کے پاس آئے اور رسالت کی خوشخبری دیتے ھوئے انھوں نے وہ پھلی آیت جو خداوند تعالیٰ کی جانب سے نازل کی گئی تھی:
اقراٴ باسم ربک الذی خلق۔ خلق الانسان من علق۔ اقراٴ و ربک الاکرم الذی علم بالقلم۔ علّم الانسانَ ما لم یعلم۔
اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو کہ جس نے انسان کو جمے ھوئے خون سے پیدا کیا ھے پڑھو کہ تمھارا پروردگار بڑا کریم ھے جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی ھے اور انسان کو سب کچھ سکھا دیا ھے جو وہ نھیں جانتا تھا۔
رسول اعظم نے جب یہ آیت مبارکہ سنی اور خداوند تعالیٰ کی جانب سے پیغمبری کی خوشخبری ملی نیز آپ نے مقام کبریائی کی عظمت و شان کا مشاھدہ کیا تو اس نعمت عظمیٰ کو حاصل کرنے کے بعد آپ نے اپنے وجود مبارک میں مسرت و شادمانی محسوس کی چنانچہ آپ غار سے باھر تشریف لائے اور حضرت خدیجہ کے گھر کی جانب روانہ ھو گئے۔
راستے میں جتنی پھاڑیاں اور چٹانیں تھیں وہ سب قدرت حق سے گویا ھو گئی تھیں اور پیغمبر خدا کے ساتھ باادب و احترام پیش آرھی تھیں اور ”السلام علیک یا نبی اللہ""کھہ کر آپ سے مخاطب ھو رھی تھیں۔شیعہ محدثین اور مورخین کے نظریئے کی رو سے واقعہ (عام الفیل) کے چالیس سال گزر جانے کے بعد رسول پر ۲۷/رجب کو پھلی وحی نازل ھوئی۔
دعوت کا آغاز
رسول اکرم غار حراء سے نکل کر جب گھر میں داخل ھوئے تو آپ نے بستر پر آرام فرمایا، ابھی اسلام کے مستقبل اور دین کے بارے میں سوچ ھی رھے تھے کہ سورہ مدثر نازل ھوئی اور رسول خدا کو اٹھ کھڑے ھونے اور ڈرانے پر مقرر کیا، چنانچہ اس طرح پیغمبر اکرم نے دعوت حق کا آغاز کیا اس دعوت کے تین مرحلے تھے:
قرآن مجید
الف: پوشیدہ دعوت
دعوتِ حق کے اس مرحلے کی مدت مورخین نے تین سے پانچ سال لکھی ھے مشرکین کی سازش سے محفوظ رھنے کے لئے رسول اکرم نے یہ فیصلہ کیا کہ عوام کی جانب توجہ دینے کے بجائے لوگوں کو فرداً فرداً دعوتِ حق کے لئے تیار کریں اور پوشیدہ طور پر باصلاحیت لوگوں سے ملاقات کرکے ان کے سامنے دین الٰھی پیش کریں، چنانچہ آپ کی جد و جھد سے چند لوگ آئین توحید کی جانب آگئے مگر ان کی ھمیشہ یھی کوشش رھی کہ اپنے دین کو مشرکین سے پوشیدہ رکھیں اور فرائض عبادت کو لوگوں کی نظروں سے دور رہ کر انجام دیں۔
جب مسلمانوں کی تعداد میں اضافہ ھوا اور تیس تک پھونچ گئی تو رسول خدا(ص) نے ارقم کے گھر کو جو کوہ صفا کے دامن میں واقع تھا تبلیغ اسلام اورپرستش خداوند تعالیٰ کا مرکز قرار دیا آپ اس گھر میں ایک ماہ تک تشریف فرما رھے اب مسلمانوں کی تعداد چالیس تک تھی۔
قریش کا رد عمل
اگر چہ قریش کو کم و بیش علم تھا کہ رسول خدا کی پوشیدہ طور پر دعوت دین حق جاری ھے لیکن انھیں اس تحریک کی گھرائی سے واقفیت نہ تھی اس لئے انھوں نے کسی رد عمل کا اظھار نہ کیا کیونکہ اس سے انھیں کسی خطرہ کا اندیشہ نھیں تھا، مگر اس کے ساتھ ھی وہ اپنے گرد و پیش کے ماحول سے بھی بے خبر نہ تھے چنانچہ وہ ان واقعات کی کیفیت بھی ایک دوسرے سے بیان کردیتے تھے، رسول خدا نے اس موقعہ سے فائدہ اٹھایا اور اس عرصے میں آپ نے (حزب اللہ) جماعت حق کی داغ بیل ڈال دی۔
ب: عزیز و اقرباء
دعوت کا یہ مرحلہ اس آیہٴ مبارکہ کے نزول کے ساتھ شروع ھوا:
و اٴنذِر عشیرتک الاقربین۔
اپنے رشتہ داروں کو عذاب الٰھی سے ڈرائیے
پیغمبر اکرم نے حضرت علی (ع) کو اس کام پر مقرر کیا کہ آپ (ع) کھانے کا انتظام کریں اور آنحضرت کے عزیز و اقارب کو کھانے پر بلائیں تاکہ ان تک خداوند تعالیٰ کا پیغام پھونچا دیں۔
تقریباً چالیس یا پینتالیس آدمی آپ کے دسترخوان پر جمع ھوئے، رسول خدا چاھتے تھے کہ لوگوں سے گفتگو کریں مگر ابولھب نے غیر متعلقہ باتیں شروع کرکے اور آپ پر سحر و جادوگری کا الزام لگا کر محفل کو ایسا درھم برھم کیا کہ اس میں اصل مسئلہ کو پیش نہ کیا جاسکا۔
اگلے روز آپ نے دوبارہ لوگوں کو کھانے پر مدعو کیا جب لوگ کھانے سے فارغ ھوگئے تو رسول خدا اپنی جگہ سے اٹھے اور تقریر کے دوران فرمایا:
اے عبد المطلب کے بیٹو! خدا کی قسم مجھے عرب میں ایک بھی ایسا جوان نظر نھیں آتا کہ وہ اس سے بھتر چیز لے کر آیا ھو جو میں اپنی قوم کے لئے لے کر آیا ھوں، میں تمھارے لئے دنیا اور آخرت کی خیر (بھلائی) لے کر آیا ھوں، خداوند تعالیٰ نے مجھے اس کام پر مقرر کیا ھے کہ میں تمھیں اس کی طرف دعوت دوں، تم میں سے کون ھے جو اس کام میں میری مدد کرے تاکہ وہ تمھارے درمیان میرا بھائی، وصی اور جانشین بن سکے۔
فاٴیکم یوازرنی علی ھذا الامر علی ان یکون اخی و وصیی و خلیفتی؟
رسول خدا نے تین مرتبہ اپنی بات دھرائی اور ھر مرتبہ حضرت علی (ع) ھی نے اٹھ کر اعلان کیا کہ میں آپ کی مدد و پشتیبانی کروں گا، اس پر رسول خدا نے فرمایا:
انّا ھذا اخی و وصیی و خلیفتی فیکم فاسمعوا لہ اطیعوا
یہ ۔علی۔ تمھارے درمیان میرے بھائی، وصی اور خلیفہ ھیں ان کی بات سنو اور اطاعت کرو۔
اس مجلس میں رسول خدا نے جو تقریر کی اس سے مسئلہٴ امامت کی اھمیت واضح ھوجاتی ھے اور یہ بات ثابت ھوتی ھے کہ اصل (نبوت) کو (امامت) سے جدا نھیں کیا جاسکتا۔
source : tebyan