اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

شرک اور اس کی اقسام

شرک: یعنی غیر خدا کا شریک قرار دینا، اس کی بھی تین قسمیں ھیں ۱۔ شرک ذاتی: یہ ھے کہ انسان جھان کے لئے ایک سے زیادہ مبدٴا کا قائل ھو جیسا کہ ”ثنویَّہ“ (دو مبدٴا کے قائل) دو ”یزدان“ اور ”اھریمن“ کی خالقیّت پر اعتقاد رکھتے ھیں اور نصاریٰ ”اقانیم ثلاثہ“ یعنی تین اصولوں (پدر، پسر اور روح القدس) کے جوھر کی عین وحدت کے قائل ھیں یہ عقیدہ ذاتی مبدٴا کے وجوب کے ساتھ سازگار نھیں ھے جو اپنی جگہ پر برھان عقلی کے ذریعہ ثابت ھوچکا ھے۔ ۲۔ شرک صفاتی:
شرک اور اس کی اقسام

شرک: یعنی غیر خدا کا شریک قرار دینا، اس کی بھی تین قسمیں ھیں

۱۔ شرک ذاتی:

 یہ ھے کہ انسان جھان کے لئے ایک سے زیادہ مبدٴا کا قائل ھو جیسا کہ ”ثنویَّہ“ (دو مبدٴا کے قائل) دو ”یزدان“ اور ”اھریمن“ کی خالقیّت پر اعتقاد رکھتے ھیں اور نصاریٰ ”اقانیم ثلاثہ“ یعنی تین اصولوں (پدر، پسر اور روح القدس) کے جوھر کی عین وحدت کے قائل ھیں یہ عقیدہ ذاتی مبدٴا کے وجوب کے ساتھ سازگار نھیں ھے جو اپنی جگہ پر برھان عقلی کے ذریعہ ثابت ھوچکا ھے۔

۲۔ شرک صفاتی:

 یہ ھے کہ خدا کی صفات کو اس کی ”ذات اقدس“ پر زائد، جاننا جیسا کہ ”ممکنات“ میں ایسا ھی ھے، اس عقیدہ کا لازمہ یہ ھے کہ (نعوذ باللہ) ذات الہٰی اپنی ذات کے مرتبہ میں ھر طرح کے کمال جیسے: حیات، علم اور قدرت وغیرہ سے پاک ھو (جبکہ صفات کو حادث جانیں) یا یہ کہ صفات کو اس کی ”قدامت“ میں شریک جانیں،(جبکہ صفات کو قدیم فرض کریں)

حالانکہ خدا کی صفات جیسا کہ ھم ”توحید“ کے معنی میں اشارہ کرچکے ھیں کہ خدا کی صفات اس کی عین ذات ھیں اور کبھی بھی ”واجب الوجود“ کی ذات سے صفات کمالیہ جدا نھیں ھوسکتی، اگر چہ اس صورت میں ”واجب الوجود“ اور ھستی نامحدود تصور نھیں کی جائے گی۔

مثال کے طور پر : مٹھاس کا شکر سے جدا ھونا، یا چربی کا روغن سے جدا ھونا مساوی ھے کہ گھی اور شکر معدوم ھو جاتے اسلئے کہ گھی چکنائی، شکر مٹھاس اور نور روشنائی کے بغیر ایک نامعقول تصور کے علاوہ کچھ نھیں ھے۔

”وَتِلکٴَ الاَمْثْالُ نَضْربُھَالِلنّاسِ وَمَایَعقِلُھَا اِلّاالْعَالِمُونَ۔“

۳۔ شرک افعالی:

 یہ ھے کہ انسان عالم ایجاد، آفرینش اور تدبیر میں غیر خدا کی ”تاٴثیر استقلالی“ پر اعتقاد رکھتا ھو اور اس ”فاعلیت بالاستقلال“پر اعتقاد رکھتا ھو اور اس کو فاعلیت بالاستقلال میں شریک اور خدا جانتا ھو، اور تاثیر استقلالی یعنی غیر خدا،کو اثر بخشی اور اس کی تدبیر فعالیت جس طرح سے بھی ھو، اس میں وہ کسی بھی جہت سے خدا کا محتاج نہ ھو اور خود ارادہ و عمل میں ”مستقل“ اور خودکفا ھو۔

خواہ وہ اس کی استقلالی تدبیر و تاٴثیر بصورت ”اشتراک“یعنی خدا کے ساتھ مل جل کر انجام پائے یا یہ کہ اس کو ”تفویض“ یعنی خلق ِجھان کے امور کی ذمہ داری دے دی جائے۔

عمل میں ”اشتراک“ کی نظیر یہ ھے کہ دو یا چند طاقتور آدمی ملکر ایک دوسرے کی مدد سے چاھیں کہ زمین سے ایک بہت بڑا پتھر اٹھالیں تو اس صورت میں ان میں سے ھر ایک زمین سے اس پتھر کو حرکت دینے میں دوسروں کا محتاج ھے، لیکن وہ اس مقدار میں اپنی اس طاقت کے رکھنے میں مستقل ھے اور دوسروں کا محتاج نھیں ھے۔

یھاں بھی غیر خدا کے اشتراک کی صورت کے فرض میں (نعوذباللہ) خدا اپنی طاقت کا اثر محدود ھونے کی وجہ سے عالم کی تدبیر میں دوسروں کا محتاج ھوگا اور وہ دوسرا موجود (غیر خدا) اپنے سے مخصوص مقدار طاقت کے رکھنے میں مستقل اور خدا سے بے نیاز ھوگا۔

لیکن ”تفویض“ اور خلق جھان کے امور کی غیر خدا کو واگذاری کی صورت میں خدا مخلوقات کے پیدا کرنے کے بعد تدبیر اور ادارہٴ امور مثلاً: زندہ کرنے، مارنے، روزی دینے، عزت و ذلت بخشنے وغیرہ کے امور سے ھاتھ کھینچ بیٹھا ھے اور تمام تدبیرات کو خود مخلوقات یا ان میں سے بعض افراد کے سپرد کردی ھے ۔

جیسا کہ یھودیوں کا اعتقادھے کہ خدا کے ھاتھوں کو امور جھان کی تدبیر سے بندھا ھوا مانتے ھیں، قرآن میں ارشاد ھے: ”وَقَاْلَتِ الْیَہُودُ یَدُاللّٰہِ مَغْلُولَة“

”یھودیوں نے کھا: خدا کے ھاتھ تو بندھے ھوئے ھیں۔“

”غلات“ نامی ایک گروہ جس کو ”مفوضہ“ بھی کہتے ھیں،عقیدہ رکھتا ھے کہ (نعوذباللہ) خدا نے پیدا اور خلق کرنے، روزی دینے، زندہ کرنے، مارنے، شفا دینے اور مشکلات کے حل کرنے وغیرہ کے تمام امور کو ائمہ طاھرین علیھم السلام کے سپرد کردئے ھیں اور خود کنارہ کشی کرلی ھے (تعالی اللّٰہ ُ عمّایقول الجاھلون علواً کبیراً۔“)

یہ دونوں اعتقاد (اشتراک و تفویض) کے حقیقی مواحدوں کی نظر میں مشرکانہ اور باطل ھیں جو شرعی ممانعت کے علاوہ عقلاً محال بھی ھیں۔ یعنی عمل میں خالق کے ساتھ اشتراک مخلوق اور ایسے ھی مخلوق کو تفویض عمل اور عمل سے خالق کے اعتزال کا مسئلہ عقل سلیم کی نظر میں محال اور ممتنع الوقوع ھے۔

کیونکہ جو مخلوق ”ممکن الوجود“ ھے اور ذاتاً فاقد ھستی ھے ھر وقت خالق فیّاض کی جانب سے ”افاضہ“ کی محتاج ھے تا کہ اس سے وجود لے اور پھر ”ایجاد“ اثر کرے، لہٰذا اگر ایک آن کے لئے خداوند منّان کی جانب سے فیض بند ھوجائے تو مخلوق کا وجود ختم ھوجائے گا اس کی قدرت ایجاد تو دور کی بات ھے۔

جس امکان کا” وجود “جو واجب سے ربط اور خالق واقعی پر بھروسہ رکھنے کے سوا کچھ نھیں ھے اس کے لئے استقلال کا تصورایک نامعقول تصور ھے اور اس کو مستقل مخلوق کھنا ایک متناقض سخن ھے ، جس کا لازمہ وجود اور عدم کا ایک جگہ جمع ھونا ھے جس کا محال ھونا بھی واضح ھے ۔


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

ماہ رجب کےواقعات
نماز کی اذان دنیا میں ہر وقت گونجنے والی آواز
شہید مطہری کے یوم شہادت پر تحریر (حصّہ دوّم )
قرآن اور دیگر آسمانی کتابیں
بے فاﺋده آرزو کے اسباب
شیطان اور انسان
سمیہ، عمار یاسر کی والده، اسلام میں اولین شہید ...
"صنائع اللہ " صنائع لنا" صنائع ربّنا " ...
مجلسِ شبِ عاشوره
اولیائے الٰہی کیلئے عزاداری کا فلسفہ کیا ہے؟

 
user comment