اردو
Sunday 17th of November 2024
0
نفر 0

ماہ صفر اسلامی سن ہجری کا دوسرا مہینہ/ بدشگونی کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں

لفظ ’شگن‘ سنسکرت سے لیا گیا ہے کیوں کہ سنسکرت میں شگن بمعنی فال اور ’اچھی خبر دینے والا‘ کے آیا ہے اور’ شگون ‘بھی اسی کو کہتے ہیں اور ’شگن کرنا‘ یعنی کسی کام کو اچھے وقت میں شروع کرنا ہے اور’ شگون لینا ‘بمعنی فال لینا ہے یعنی مبارک گھڑی دیکھنا اور کسی کام کے ہونے یا نہ ہونے کا وقت دیکھنا ہے۔(فرہنگ آصفیہ، فیروز اللغات )
ماہ صفر اسلامی سن ہجری کا دوسرا مہینہ/ بدشگونی کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں

 لفظ ’شگن‘ سنسکرت سے لیا گیا ہے کیوں کہ سنسکرت میں شگن بمعنی فال اور ’اچھی خبر دینے والا‘ کے آیا ہے اور’ شگون ‘بھی اسی کو کہتے ہیں اور ’شگن کرنا‘ یعنی کسی کام کو اچھے وقت میں شروع کرنا ہے اور’ شگون لینا ‘بمعنی فال لینا ہے یعنی مبارک گھڑی دیکھنا اور کسی کام کے ہونے یا نہ ہونے کا وقت دیکھنا ہے۔(فرہنگ آصفیہ، فیروز اللغات )
بدفالی اور بد شگونی کو عربی میں تطیرکہتے ہیںکیوں کہ اہل عرب اکثر پرندوں کی آواز سے بدفالی لیا کرتے تھے اس لئے یہ لفظ طیر سے مشتق ہوا جسکے معنی پرندہ کے ہیں ،تاریخ شاہد ہے کہ دین اسلام میں کبھی بدشگونی اور نحوست کا کوئی تصور نہ تھا یہ خالص جاہلیت کی چیزیں ہیں چنانچہ کلام پاک کے بیشتر مقامات میں متعدد انبیاء علیھم السلام کی قوموں کے کفار و مشرکین کا حال قرآن مجید میں ہے کہ جب ان پر کوئی مصیبت یا آفت آتی تو بجائے اسکے کہ وہ اسکو اپنی شامت اعمال سمجھتے اور کفر و شرک کی سزا سمجھ کر تائب ہوتے الٹا نبیوں اور انکے متبعین سے بدفالی لیا کرتے تھے۔قرا ئن سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ چیزیں پہلے تو اسلامی تعلیمات سے دور ناواقف مسلمانوں نے کفار و مشرکین سے اختیار کرلیا پھر ضعیف الاعتقاد مسلمانوں میں یہ چیزیںپھلتی پھولتی رہیں یہاں تک کہ آج معاشرہ کا غیر معمولی حصہ ان خرابیوں میں مبتلا ہے۔دین اسلام نے بدفالی کی سختی کے ساتھ تردید فرمائی حتی کہ اسکے ارتکاب پر شدید وعیدیں وارد ہیں اور اس سے اجتناب کرکے توکل اختیار کرنے کی نہ صرف ترغیب دی بلکہ اس پر حق تعالی کے فضل عظیم کی بشارت کا مژدہ سنایا، چنانچہ بخاری و مسلم میںسیدنا عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت کے ستر ہزار افراد بغیر حساب و کتاب کے جنت میں داخل ہونگے یہ وہ لوگ ہونگے جو جھاڑ پھونک نہیں کرتے اور بدفالی نہیں لیتے اور اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔
مصائب اور بلائیں اعمال کا نتیجہ ہوتی ہیں: کلام پاک کے متعدد مقامات میں کفار و مشرکین جو بدفالی کیا کرتے تھے اسکے جواب میں کہا گیا’’ طائرکم معکم‘. تمہاری بدفالی تمہارے ساتھ ہے یعنی جو کچھ تمہیں مصیبتیں پہنچ رہی ہیں وہ تمہارے کفر و شرک اور بد عملیوں کا نتیجہ ہے۔ کسی نحوست کی وجہ سے نہیں۔ارشاد باری تعالی ہے ’’وما اصابکم من مصیبۃ فما کسبت ایدیکم ‘‘. یعنی جو کچھ تمہیں مصیبت پہنچتی ہے وہ تمہارے عمل کی وجہ سے ہے پس واضح ہوا کہ مصیبتیں اور بلائیں بد عملی کی وجہ سے نازل ہوتی ہیں کسی نحوست کی وجہ سے نہیں۔
ماہ صفر نحوست اور آفات وبلیات سے قطعاًپاک مہینہ
دین اسلام نہایت پاکیزہ اور صاف ستھرا دین ہے۔ اور یہ فطری دین قیامت تک تمام مسلمانوں کیلئے جامع دستور العمل اور مکمل ضابطۂ حیات ہے اسکے احکام آفتاب سے زیادہ روشن اور واضح ہیں اسکی تعلیمات نہایت عمدہ اور ستھری اور صلاح و فلاح کی ضامن ہیں۔ شریعت مطہرہ میں مسلمانوں کیلئے زندگی کے تمام شعبوں میں معاملات ہوں کہ عبادات پھر انکا تعلق انفرادی زندگی سے ہو یا اجتماعی ہر شعبۂ میں واضح ہدایات اور مفصل احکام موجود ہیں۔
دین اسلام دو چیزوں سے مرکب ہے (۱) عمل (۲) عقیدہ. اور وہی عقیدہ و عمل اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوگا۔ جس کی شریعت نے تعلیم دی ہے اور وہ عقیدہ و عمل مردود ہوگا جو دین اسلام کی تعلیمات کے مغائر و مخالف ہو۔ ارشاد باری ہے ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ من الخسرین.(سورۃ آل عمران ،آیت ۸۵)یعنی جو کوئی اسلام کے سوا کسی اور دین کو چاہے گا تو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور وہ آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں سے ہوگا۔ موجودہ دور میں اسلامی تعلیمات سے دوری اور بے رغبتی عام ہے جسکا لازمی نتیجہ عقیدہ اور عمل میں خرابی اور بگاڑ ہے اور اسی کا ایک حصہ بد شگونی، توہم پرستی اور خود ساختہ فاسد خیالات اور عقائد ہیں اور اس سلسلہ میں بعض مروجہ اعمال و افکار اور رسوم و رواج اس قدر لوگوں کے دلوں میں رچ بس گئے ہیں کہ اگر اس طرح اللہ سبحانہ و تعالی کی ذات پر توکل اور اسکی قدرت کا یقین اور تقدیر پر ایمان دلوں میں راسخ ہوجائے تو دارین کی سعادت مندی نصیب ہوجائے۔ منجملہ ان فاسد عقیدوں کے کچھ وہ جاہلانہ نظریات ہیں جو ماہ صفر سے متعلق ہیں۔ (۱) ماہ صفر اور خصوصا اسکے ابتدائی تیرہ دن جنہیں لوگو ںنے تیرہ تیزی سے موسوم کیا ہے ان کو منحوس جانتے ہیں اور اس میں آفات و بلیات اور مصیبتوں کے نازل ہونے کا عقیدہ رکھتے ہیں حتی کہ بعضوں نے سینکڑوں کی تعداد میں آفات و بلیات کے نزول کی اور ماہ صفر کی نحوست کی بے اصل اور من گھڑت راویات بھی نقل کردی ۔(۲) اس ماہ میں رشتہ اور شادیاں نہیں کی جاتیں بلکہ جن کی شادی ہوچکی ہوتی ہے ابتداء میں ان شوہر اور بیوی کو تیرہ دن تک جدا رکھا جاتا ہے اس نظریہ سے کے ان ایام میں ان کا تعلق آپس میں کشیدگیوں اور نزاع کا باعث ہوگا۔(۳) اس ماہ میں سفر نہیں کیا جاتا اور کسی نئے کام کا آغاز مثلاًدوکان یا مکان کی افتتاح وغیرہ نہیں کی جاتی۔ اس بنا پر کہ اس ماہ کی نحوست کی وجہ سے یہ سب کام باعث خیر نہ ہونگے۔(۴) تیرہویں تاریخ کی صبح کو تیرہ تیزی کی مخصوص خیرات آفات و بلیات سے حفاظت کے لئے بطور صدقہ فقراء میں تقسیم کردی جاتی ہے۔(۵) ماہ صفر کے آخری چہارشنبہ کو سیر و تفریح کے لئے نکلتے ہیں جسکا نظریہ یہ ہے کہ اس روز نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل صحت فرمایا تھا اور تفریح فرمائی تھی یہ تمام کے تمام جاہلانہ نظریات اور بے حقیقت چیزیں ہیں شریعت میں ان کی کوئی اصل نہیںاگر ماہ صفر میں نحوست ہوتی یا یہ آفات وبلیات کا مہینہ ہوتا تو شریعت میں اسکا ضرور تذکرہ بھی ہوتا اور اس سے حفاظت کے طریقے بھی بتائے جاتے لیکن قرآن و حدیث میں کہیں ایسا نہیں ہے ۔ بلکہ صحاح ستہ و دیگر کتب حدیث کی سینکڑوں احادیثِ شریف سے یہ ثابت ہے کہ ماہ صفر میں قطعا کوئی نحوست نہیں ہے ۔ دین اسلام نے کبھی کسی مہینہ اور کسی دن کو منحوس قرار نہیں دیا، لھذا کوئی وقت برکت والا اور عظمت و فضیلت والا تو ہوسکتا ہے جیسے ماہ ربیع الاول، ماہ رمضان، سال کے متبرک شب و روز اور جمعہ کی ساعت اجابت (قبولیت کی گھڑی) وغیرہ۔لیکن نحوست والا قطعی نہیں ہوسکتا، اور ماہ صفر میں انجام دیئے جانے والے یہ تمام امور اور اس سے متعلق نظریات خود ساختہ ہیں،اسی طرح شریعت مطہرہ میں نکاح کی حلت کسی وقت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے لہذا سال کے تمام مہینوں اور دنوں میں شادیاں کی جاسکتی ہیں اب رہا آخری چہارشنبہ سے متعلق نظریہ سو اس کا جواب یہ ہے کہ تمام مکاتب فکر اس بات پر متفق ہیں کہ اس روز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صحت یاب نہیں ہوئے بلکہ مرض الموت جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ۱۳ دن تک بیمار رہے اس بیماری کی ابتداء اس دن سے یعنی ماہ صفر کے آخری چہارشنبہ سے ہوئی جو بڑھتی ہی گئی یہاں تک کہ آپ کا وصال ہوا۔ لھذا یہ آپ کے مرض وفات کے آغاز کا دن تھا نہ کہ صحت یابی کا ، (ملاحظہ ہو فتاوی رشیدیہ ، بہار شریعت، احکام شریعت) پاکستان کے ایک عالم دین مفتی محمد رضوان صاحب ماہ صفر کے اپنے مضمون میں تحریر فرماتے ہیں کہ ’’در حقیقت بات یہ ہے کہ آخری چہارشنبہ یہودیوں اور ایرانی مجوسیوں کی رسم ہے جو ایران سے منتقل ہوکر ہندوستان میں آئی ہے اور یہاں کہ بے دین بادشاہوں نے اسے پروان چڑھایا ‘‘۔(دائرہ معارف اسلامیہ پنجاب یونیورسٹی ج ۱، صفحہ ۱۸ )
لمحۂفکر:حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات کے آغاز پر یہود کا جشن کے طور پر آخری چہارشنبہ منانا تو انکی اسلام دشمنی کی وجہ سے ظاہر اور واضح ہے لیکن اہل اسلام اس امر میں غور کریں کہ وہ آخری چہارشنبہ کی اس یہودیانہ رسم کو اپنا کر کہیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات کا جشن منانے میں صورتاً یہود کی موافقت تو نہیں کر رہے ؟
بدشگونی کے اقسام
جاہلیت کے زمانے میں بدشگونی کے بہت سے طریقہ رائج تھے۔ لوگ سفر کے وقت پرندوں کو گھونسلوں سے اڑاکر فال لیا کرتے تھے اگر پرندہ دائیں جانب اڑھ کر جاتا تو نیک فال لیتے کہ سفر کا مقصد پورا ہوگا اور اگر بائیں جانب اڑتا تو سفر ملتوی کردیتے کہ بدشگونی ہوگئی اب کام پورا نہیں ہوگا۔ اسی طرح آج بھی بعض لوگ بلی کے راستہ کاٹنے کو برا شگون جانتے ہیں اسلام نے اسکی سختی سے تردید فرمائی حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’الطیرۃ شرک‘‘(ابو داؤد)یعنی بدشگونی شرک ہے۔
بدشگونی کا کفارہ : حدیث شریف میں ہے ’’جس کو بدشگونی اپنے کام سے پھیر دے (یعنی برا شگون لینے کے سبب وہ اپنے کام سے رک جائے)تو اس نے شرک کیا، عرض کیا گیا یا رسول اللہ ایسا شخص کیا کفارہ دے تاکہ اسکی توبہ قبول ہو فرمایا یہ کہے ’’اللھم لا طیر الا طیرک ولا خیر الا خیرک ولا الہ غیرک‘‘ یہ کہہ کر اپنے کام کو چلا جائے تو اس کی توبہ قبول ہوگی۔
ابو داؤد کی حدیث شریف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کسی شخص کوکوئی چیز ناگوار معلوم ہو تو وہ کہے ’’اللھم لا یاتی بالحسنات الا انت ولا یدفع السیات الا انت ولا حول ولا قوۃ الا باللہ ‘‘.
کوئی بیماری متعدی نہیں : اسی طرح دین اسلام نے بیماری کے متعدی ہونے کی بھی نفی کردی حدیث شریف میں ہے کوئی بیماری متعدی نہیں (مسلم،طبری،مسند احمد)یعنی کوئی بیماری بغیر حکم خداوندی خودبخود ایک بیمار سے دوسرے کو نہیں پہنچ سکتی۔ جامع ترمذی میں حدیث شریف ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جذامی (کوڑھ کی بیماری والا) کے ساتھ ایک ہی برتن میں کھانا تناول فرمایا اور اس سے فرمایا اللہ کا نام لے کر کھاؤ اور اس پر بھروسہ رکھو۔ حدیث شریف میں ہے کہ ایک شخص نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا یا رسول اللہ اونٹوں کے ریوڑ میں ایک خارش زدہ اونٹ داخل ہوجاتا ہے اور تمام اونٹوں کو خارش زدہ کردیتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جوابا ارشاد فرمایا پہلے کو کس نے بیمار کیا ۔ یعنی جس طرح پہلا اونٹ اللہ سبحانہ و تعالی کی مشیت سے خارش زدہ ہوا اسی طرح دوسروں اونٹوں کو بھی یہ بیماری لاحق ہوئی نہ کہ پہلے اونٹ سے وہ بیماری پھیلی۔


source : abna24
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

کیا آسمان وزمین اور ارزاق کی خلقت چھ دنوں میں یا ...
اسلامي نظام کے بنیادي اصول
غدير اور مسلمانوں کواندر سے درپيش خطرہ
قرآن مجید اللہ تعالی کی طرف سے ایک عظیم تحفہ
نماز اور قرآن
جکارتہ؛ «قرآن و سنت میں اعتدال پسندی» سیمینار کا ...
ماہ محرم الحرام کے اعمال
شرک سے بچيں
خطبات امام حسین علیہ السلام (کربلا کے نزدیک)
رمضان کے لغوی اور اصطلاحی معنی

 
user comment