اردو
Friday 8th of November 2024
0
نفر 0

فضائلِ صلوات

پيغمبر اکرم ۰ کي ولادت کي مناسبت سے ايک اہم مضمون پيش کر رہے ہيں جس ميں درود کے حوالے سے متعدد باتيں ذکر کي جارہي ہيں۔ اس ميں درود کا ثواب، درود بھيجنے کے آداب، اور درود کي برکتوں کے حوالے سے چند واقعات شامل ہيں۔ يہ اقتباسات ہم نے کتاب ’’فضائل صلوات‘‘ سے لئے ہيں، جسے علي قزويني نے تاليف اور سيد محمد سليم علوي نے ترجمہ کيا ہے۔

صلوات کا ثواب

رسول خدا ۰ فرماتے ہيں: ’’شب معراج ميں نے ايک فرشتہ ديکھا، جس کے ايک لاکھ ہاتھ تھے اور ہر ہاتھ ميں ايک لاکھ انگلياں تھيں اور ہر انگلي ميں ايک لاکھ پور (بند) تھے۔ اس فرشتے نے کہا: ’’ميں بارش کے قطروں کا حساب جانتا ہوں کہ کتنے صحرا ميں اور کتنے دريا ميں برستے ہيں، ميں خلقت سے لے کر اب تک کے بارش کے قطروں کو جانتا ہوں، مگر ايک ايسا حساب ہے کہ جس سے ميں عاجز ہوں۔‘‘

رسول خدا صلي اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: ’’وہ کونسا حساب ہے؟‘‘

اس نے عرض کيا:’’جب آپ کي امت گروہ کي شکل ميں ايک ساتھ ہوتي ہے اور ايک ساتھ مل کر آپ پر صلوات بھيجتي ہے تو ميں اس صلوات کے ثواب کا حساب کرنے سے عاجز رہ جاتا ہوں۔‘‘

صلوات پڑھنا اور پھول سونگھنا

مالک جہني بيان کرتے ہيں:ميں نے ايک پھول حضرت امام جعفر صادقٴ کو ديا۔ آپٴ نے اسے ليا اور سونگھا اور دونوں آنکھوں سے مس کيا، پھر فرمايا:

’’جو شخص پھول لے کر سونگھتا ہے اور آنکھوں سے لگا کر کہتا ہے: ’’اللھم صل علي محمد وآل محمد‘‘ تو اسے زمين پر رکھنے سے پہلے اس کے تمام گناہ بخش دئيے جاتے ہيں۔‘‘

ذکرِ الہٰي اور وردِ صلوات کے آداب

١۔ طہارت:

استجابتِ دعا اور ذکر و وردِ صلوات کے لئے جسماني و باطني طہارت و پاکيزگي کي شرط ہے ۔

٢۔ نااميدي:

استجابت کي ايک شرط يہ ہے کہ خدا کے سوا سب سے نااميد ہوجائے اور ذکر کرنے والے کا جسم وروح صرف خدا سے اميد رکھے۔ اسي وجہ سے امام جعفر صادقٴ فرماتے ہيں: ’’انسان کو چاہئے کہ ہر ايک سے نااميد ہوکر صرف خدا سے اميد رکھے۔‘‘

٣۔ يقين:

قبوليت دعا کي ايک شرط يہ ہے کہ ذکر کرنے والا يقين رکھتا ہو کہ خداوندِ عالم اس بات پر قادر ہے کہ جو چاہے کرسکتا ہے۔

٤۔ دعا ميں محو ہو جانا:

يعني خدا کے علاوہ کوئي ذريعہ نجات و پناہ گاہ نہ پائے اور يہ علم و يقين رکھے کہ مدد و نجات صرف خدا کے ہاتھ ميں ہے۔ اس لئے کہ خدوندعالم نے جناب عيسيٰ سے فرمايا: ’’دعاميںصرف مجھے ياد رکھو کہ ميرے سوا تمہارے لئے کوئي پناہ گاہِ نجات نہيں ہے۔‘‘

٥۔ حمد و ثنا:

ذکر سے پہلے خدا کي حمد و ثنا بندگي کا اہم لازمہ ہے۔ چنانچہ حضرت عليٴ فرماتے ہيں: ’’دعا سے پہلے حمدو ثنا کرني چاہئے‘‘۔ يعني ہر وہ دعا کہ جس کے شروع ميں خداوندعالم کي حمد وثنا نہ ہو وہ ناقص ومنقطع ہے۔

٦۔ اعترافِ گناہ:

يعني اعتراف کيجيے کہ گناہوں نے آپ کو تقربِ الہي سے دور اور اسباب بلا کو فراہم کرديا ہے۔ پس اعتراف کيجئے اور خدا سے عفووبخشش کي دعا مانگئے۔

٧۔ طلبِ مغفرت:

يعني جن گناہوں نے آپ کے دل کو سياہ اور دعاؤں کوقيد کرديا ہے ان کے لئے عفو و بخشش کي دعا مانگے۔ اس کیلئے کم از کم ستر مرتبہ ’’استغفر اللہ و اتوب اليہ‘‘ کہنا چاہئے ۔

٨۔ حضور قلب:

جب انپے باطن کو نجاست اور نفساني شہوت سے پاک کرو گے تو حضورِ قلب حاصل ہوجائے گا۔ رسول خدا ۰ فرماتے ہيں:

نماز صرف اتني مقدار ميں قبول ہوتي ہے کہ جتني مقدار ميں انسان قلبي طور پر خدا کي طرف متوجہ رہتاہے ۔

٩۔ نيت:

مسائل و آداب ذکر خدا اور درود و توسل ميں سب سے زيادہ اہم نيت ہے کيونکہ اگر نيت متحقق نہ ہو تو زبان حقيقي طور پر ذکرِ الٰہي ميں مشغول نہيں ہوتي اور دل دوسري طرف لگا رہتا ہے۔ چنانچہ حضرت امام جعفر صادقٴ فرماتے ہيں ’’صلوات خلوص نيت کے ساتھ پڑھيے۔‘‘

١٠۔ وقت:

بعض اذکار کے لئے کوئي خاص وقت کسي خصوصي کيفيت کے ساتھ بيان ہوتا ہے۔ چنانچہ معصومين نے بعض صلوات کے لئے نمازِ صبح يا بعد نمازِ مغرب يا شب و روز يا جمعرات کے دن عصر کا وقت يا جمعہ کا دن يا شب جمعہ کا وقت معين فرمايا ہے ۔

١١۔ ذکر کا عدد:

ذکر کے عدد کا انتخاب کرنا، ورد کے اہم احکام ميں سے ہے کہ جن کي طرف توجہ دينا چاہئے يعني اسي تعداد و مقدار پر جو معصومين نے معين فرمائے ہيں‘ عمل کرے۔ جيسا کہ آنحضرت۰ نے صلواۃ کے لئے تين مرتبہ‘ دس مرتبہ اور سو مرتبہ اور ہزار مرتبہ کي مقدار معين فرمائي ہے ۔

فوائد صلوٰ ت

١۔ رسول خدا ۰ فرماتے ہيں: خداوند عالم سو صلوات کے عوض سوحا جتيں پوري کرتا ہے ۔

٢۔ بلند آواز ميں صلوات پڑھنے سے نفاق دور ہوتا ہے ۔

٣۔ صلوات بھيجنا عمل کي پاکيزگي کا باعث ہے ۔

٤۔ جو شخص ايک مرتبہ صلوات بھيجتا ہے خدا وند عالم اس کے لئے رحمت و عافيت کا دروازہ کھول ديتا ہے ۔

٥۔ صلوات بھيجنے سے فقر وتنگدستي دور ہوتي ہے ۔

٦۔ انسان جب کسي چيز کو بھول جائے تو صلوات پڑھنے کي برکت سے وہ چيزياد آجاتي ہے ۔

٧۔ صلوات کي برکت سے ہميشہ دشمن اور شيطان ذليل وخوار ہوتا ہے ۔

٨۔ جو شخص بھي رسول خدا ۰ پر صلوات بھيجتا ہے خدا وند عالم اور فرشتے اس پر صلوات بھيجتے ہيں ۔

٩۔ صلوات بھيجنے سے انسان فرشتوں کے مشابہ ہو جاتا ہے اور جو رحمت فرشتوں کو حاصل ہے اس ميں سے کچھ حصہ اسے بھي نصيب ہوتا ہے ۔

١٠ ۔ انسان صلوات کے ذريعے مقام خُلت (يعني خدا کي دوستي کے مرتبہ) تک پہنچ جاتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابراہيم صلوات کي برکت سے خداوند عالم کے خليل قرار پائے ۔

١١۔ قيامت کے دن حضرت رسول خدا ۰ کے نزديک سب سے زيادہ بہتر اور قريب وہ شخص ہو گا جس نے دنيا ميں آپ پر زيادہ صلوات بھيجي ہوگي ۔

١٢۔ رسول خدا ۰ نے حضرت عليٴ سے فرمايا: جو شخص مجھ پر صلوات بھيجتا ہے مجھ پر اس کي شفاعت واجب ہو جاتي ہے ۔

١٣۔ حضرت امام رضاٴ نے فرمايا: جو شخص اپنے گناہوں کا کفارہ ادا نہيں کر سکتا اسے چاہيے کہ کثرت سے صلوات پڑھے۔ محمد و آل محمد پر صلوات بھيجنے سے گناہ ختم ہوجاتے ہيں۔

١٤۔ اميرالمومنين عليٴ ابن ابي طالبٴ فرماتے ہيں: گناہوں کو محو کرنے کے لئے صلوات بھيجنا گويا پاني کے ذريعہ آگ بجھانے سے زيادہ بہتر ہے ۔

شہد کي مٹھاس

ايک دن حضرت محمد ۰ اور امير المومنين عليٴ کھجور کے درختوں کے بيچ تشريف فرما تھے کہ شہد کي مکھي نے پيغمبر اکرم۰ کا طواف کرنا شروع کر ديا۔ پيغمبر اسلام۰ نے فرمايا: اے علي! کيا آ پ کو معلوم ہے شہد کي يہ مکھي کيا کہہ رہي ہے؟

حضرت عليٴ نے عرض کيا: آپ بہتر جانتے ہيں۔

پيغمبر اکرم۰ نے فرمايا: اس شہد کي مکھي نے آج ہماري دعوت کي ہے‘ وہ کہہ رہي ہے کہ ميں نے کچھ شہد فلاں جگہ رکھ ديا ہے۔ حضرت عليٴ کو بھيج ديجيے تاکہ وہاں سے لے آئيں۔

امير المومنينٴ اٹھے اور شہد لے آئے۔ رسول خدا ۰ نے فرمايا: اے شہد کي مکھي تمہاري غذا (پھول کا رس) تلخ ہوتي ہے پھر کس طرح وہ ميٹھے شہد ميں بدل جاتي ہے ؟

شہدکي مکھي نے کہا: یارسول اللہ! اس شہد ميں مٹھاس آپ اور آپ کي آل کے مقدس ذکر سے ہے کيونکہ ہم شہد کي مکھياں جب بھي شکوفہ سے رس چوستي ہيں تو اس وقت ہم پر الہا م ہوتا ہے کہ آپ پر تين مرتبہ درود بھيجيں تو ہم ’’اللہم صل علي محمد و آل محمد‘‘ کہتے ہيں۔ چنانچہ آپ پر صلوات بھيجنے کي برکت سے ہمارا شہد ميٹھا ہو جاتا ہے۔

آگ بے اثر

ايک د ن ايک شخص بازار سے مچھلي خريد کر گھر لايا اور اپني بيوي کو دي تاکہ کھانا تيار کرے۔ خاتون نے آگ روشن کي اور مچھلي کو آگ پر بھوننے کے لئے رکھ ديا۔ اس نے کافي دير تک انتظار کيا ليکن مچھلي نہيں پکي اور آگ نے مچھلي پر کوئي اثر نہيں کيا۔ دونوں نے بہت تعجب کيا کہ آخر اس مچھلي پر آگ کا اثر کيوں نہيں ہورہا۔

دونوں رسول خدا ۰ کي خدمت اقدس ميں حاضر ہوئے اور پورا ماجرا بيان کيا۔ اللہ کے رسول۰ نے مچھلي سے فرمايا: ’’آگ تجھ پر کيوں اثر نہيں کر رہي ہے؟‘‘

اذن خدا سے مچھلي بولنے لگي اور کہا: يارسول اللہ! آپ کے ذکر مبارک کي بدولت يہ آگ مجھ پر اثر نہيں کرے گي ۔ ميں فلاں دريا ميں رہتي تھي، ميں ايک دن اس ميں تير رہي تھي کہ ايک بہت بڑي کشتي ميرے قريب سے گذري۔ اس کشتي کے ايک مسافر نے آپ پر اور آپ کے اہلبيتٴ پر صلوات بھيجي۔ ميں نے يہ آواز سني تو ميں بہت خوش ہوئي اور ميں بھي ’’اللہم صل علي محمد و آل محمد‘‘ کہنے لگي۔ اس وقت مجھے يہ آواز سنائي دي: ’’اے مچھلي تيرا بدن آگ پر حرام ہوگيا ہے‘‘ ۔ اسي وجہ سے آگ مجھ پر اثر نہيں کر رہي ہے۔

تاليف: علي قزويني ترجمہ: سيد محمد سليم علوي.المرسله :سیده صدف رضوی مالیگاون

 


source : http://www.rizvia.net
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

امام زين العابدين عليه السلام کي حيات طيبہ
قرآن اور جوان
شبیہ پیغمبر، علی اکبر(ع) کی شہادت کا واقعہ
آنحضور (ص) کی بعثت
تشکیلِ پاکستان میں شیعیانِ علیٴ کا کردار
فضائلِ صلوات
حضرت زینب (س) عالمہ غیر معلمہ ہیں
حضرت زهراء سلام الله علیها کی شخصیت کے کونسے ...
ادیان الٰہی میں قربانی کا تصور اور شخصیت امام ...
تاریخ سادات

 
user comment