امام حسين عليہ السلام کي عظيم ہستي اور لازوال تحريک کے بارے ميں انسان جتنا بھي سوچتا ہے، غور و فکر اور تحقيق و مطالعہ کا ميدان اتنا ہي وسيع و عريض نظر آتا ہے- اس عظيم و تعجب خيز واقعے کے بارے ميں اب بھي بہت سي باتيں ہيں کہ جن پر ہميں غوروفکر اور اس پر بات کرني چاہئے- اگر باريک بيني سے اس واقعے پر نظر ڈاليں تو شايد يہ کہا جاسکے کہ انسان امام حسين عليہ السلام کي چند مہينوں پر محيط تحريک سے ہزاروں درس حاصل کرسکتا ہے کہ جس کي شروعات مدينے سے مکہ کي سمت سفر سے ہوئي اور اختتام کربلا ميں جام شہادت نوش کرنے پر ہوا-
اگر ہم امام حسين عليہ السلام کے کاموں کو باريک بيني سے ديکھيں تو اس سے سينکڑوں باب اور سينکڑوں عنوان نکل سکتے ہيں، جن ميں سے ہر باب اور ہر عنوان ايک قوم ، ايک تاريخ اور ايک ملک کے لئے، نظام چلانے اور خدا کي قربت کے حصول کا باعث بن سکتا ہے-
يہي وجہ ہے کہ حسين ابن علي عليہما السلام مقدس ہستيوں کے درميان سورج کي طرح چمک رہے ہيں- امام حسين عليہ السلام کي تحريک ميں ايک اہم و اصلي سوال يہ ہے کہ امام حسين (ع) نے قيام کيوں کيا؟ معاملہ کيا ہے؟ کچھ لوگ يہ کہنا پسند کرتے ہيں کہ امام (ع) يزيد کي فاسد و بدعنوان حکومت کو گرا کر خود ايک حکومت بنانے کا ارادہ رکھتے تھے- يہ امام حسين عليہ السلام کے قيام کا ہدف تھا- يہ بات، آدھي صحيح ہے- اگر اس بات کا مطلب يہ ہے کہ آپ نے حکومت کي تشکيل کے لئے قيام کيا تو جو حکومت کي تشکيل کي غرض سے آگے بڑھتا ہے، وہ وہيں تک جاتا ہے، جہاں وہ يہ سمجھتا ہے کہ کام ہو جانے والا ہے- جيسے ہي اسے احساس ہوتا ہے کہ اس کام کي انجام دہي کا امکان نہيں ہے تو وہ اس سے پھر جاتا ہے-
دوسري طرف کہا جاتا ہے کہ نہيں، حکومت کيا ہے، امام کو علم تھا کہ وہ حکومت کي تشکيل ميں کامياب نہيں ہوں گے، بلکہ وہ تو قتل اور شہيد ہونے کے لئے آئے تھے! يہ بات کہ امام (ع) نے شہيد ہونے کے لئے قيام کيا، کوئي نئي بات نہيں ہے- انہوں نے سوچا کہ اب رک کر کچھ نہيں کيا جا سکتا تو چلو شہيد ہو کر ہي کچھ کر ديا جائے! يہ بات بھي ہماري اسلامي کتب و روايات ميں نہيں ہے کہ جاۆ خود کو موت کے منہ ميں ڈال دو- ہمارے يہاں ايسا کچھ نہيں ہے- مقدس شريعت ميں ہم جس قسم کي شہادت سے آشنا ہيں اور جس کي نشاندہي قرآن مجيد اور روايتوں ميں کي گئي ہے، اس کا معني يہ ہے کہ انسان کسي واجب يا اہم مقصد کے لئے نکلے اور اس راہ ميں موت کے لئے بھي تيار رہے- يہ وہي صحيح اسلامي شہادت ہے، ليکن يہ صورت کہ آدمي نکل پڑے تاکہ مارا جائے اور شاعرانہ لفظوں ميں اس کا خون رنگ لائے اور اس کے چھيٹے قاتل کے دامن پر پڑيں تو يہ ايسي باتيں نہيں ہيں، جن کا تعلق اس عظيم واقعہ سے ہے- اس ميں بھي کچھ حقائق ہيں، ليکن امام حسين عليہ السلام کا مقصد يہ نہيں ہے-
مختصر يہ کہ نہ ہم يہ کہہ سکتے ہيں کہ امام حسين عليہ السلام نے تشکيل حکومت کے لئے قيام کيا تھا اور ان کا مقصد حکومت کي تشکيل تھا اور نہ ہي يہ کہہ سکتے ہيں کہ امام نے شہيد ہونے کے لئے قيام کيا تھا بلکہ بات کچھ اور ہے- جن لوگوں کا يہ کہنا ہے کہ مقصد حکومت تھا يا شہادت؛ تو ان لوگوں نے مقصد اور نتيجہ کو خلط ملط کر ديا ہے- مقصد يہ سب نہيں تھا- امام حسين عليہ السلام کا مقصد کچھ اور تھا، ليکن اس تک رسائي کے لئے ايک ايسے کام کي ضرورت تھي، جس کا شہادت يا حکومت ميں سے کوئي ايک نتيجہ سامنے آتا- البتہ آپ دونوں کے لئے تيار تھے-
ان ميں سے کوئي بھي مقصد نہيں تھا بلکہ دو نتائج تھے، مقصد کچھ اور تھا- اگر ہم اسے بيان کرنا چاہيں تو ہميں اس طرح سے کہنا چاہئے کہ آپ کا مقصد تھا ديني واجبات ميں سے ايک عظيم واجب پر عمل کرنا- اسي مقصد کو آپ نے اپني وصيت ميں بيان کيا ہے کہ ميں امر بالمعروف اور نہي عن المنکر کرنا چاہتا ہوں- ايک اور مقام پر آپ نے فرمايا کہ کيا تم نہيں ديکھ رہے ہو کہ حق پر عمل نہيں کيا رہا اور باطل سے روکا نہيں جا رہا-
اس واجب پر عمل درآمد کا اس وقت فطري طور پر ان دو ميں سے کوئي ايک نتيجہ ہوتا يا اس کا نتيجہ يہ ہوتا کہ امام حسين عليہ السلام اقتدار و حکومت تک پہنچ جاتے- امام حسين عليہ السلام اس کے ليے تيار تھے- اگر آپ کو اقتدار حاصل بھي ہو جاتا تو آپ اسے مضبوطي سے تھام ليتے اور پيغمبر اسلام صلي اللہ عليہ و آلہ وسلم اور امير المومنين علي (ع) کي طرح معاشرے کي رہنمائي کرتے، ليکن يہ بھي ہوسکتا تھا کہ اس واجب پر عمل درآمد سے حکومت حاصل نہ ہوتي بلکہ شہادت ملتي، اس کے لئے بھي امام حسين عليہ السلام تيار تھے-
امام حسين عليہ السلام نے عملي لحاظ سے ايک بہت بڑا سبق ديا ہے اور درحقيقت اسلام کو اپنے اور ديگر تمام زمانوں ميں محفوظ کر ديا- اب جہاں بھي اس قسم کي بدعنواني ہوگي، امام حسين وہاں زندہ ہيں اور اپني روش اور عمل سے کہہ رہے ہيں کہ آپ کو کيا کرنا ہے- اسي لئے امام حسين اور کربلا کي ياد کو زندہ رکھا جانا چاہئے، کيونکہ کربلا کي ياد ہمارے سامنے امر بالمعروف و نہي عن المنکر کے درس کا عملي نمونہ پيش کرتي ہے-
پوري تاريخ ميں اسلامي ممالک ميں اس قسم کے حالات کئي بار پيش آئے- آج بھي شايد عالم اسلام ميں ايسے بہت سے علاقے ہيں، جہاں ايسے حالات ہيں کہ جن ميں مسلمانوں کو امر بالمعروف و نہي عن المنکر کے فريضے پر عمل کرنا چاہئے، اگر وہ يہ کام کرليں تو اس کا مطلب يہ ہوگا کہ انہوں نے اپنا فرض پورا کر ديا اور اسلام کو وسعت دي اور اس کي بقا کو يقيني بنا ديا- جو قوم فکري اور نظرياتي قيد ميں ہو، جس قوم کے رہنماء بدعنوان ہوں، جس قوم پر دين کے دشمن حکومت کر رہے ہوں اور اس کے مستقبل اور فيصلوں کے ذمہ دار ہوں، تو اسے امام حسين عليہ السلام کو اپنا آئيڈيل بنانا چاہيے، کيونکہ نواسہ رسول، جگرگوشہ بتول نے بتا ديا ہے کہ ان حالات ميں کيا فريضہ ادا کرنا چاہئے- (ختم شد)
source : tebyan