: امام حسين (ع) کي زيارت حج اور عمرہ کے مترادف ہے- بہت ساري روايات ميں آيا ہے کہ اگر کسي دن ايسا ہو کہ خانہ خدا حجاج سے خالي ہو جائے تو اس وقت تمام مسلمانوں پر واجب کفائي ہو جاتا ہے کہ بيت اللہ کي زيارت کرنے جائيں- اگر چہ مستطيع نہ بھي ہوں يا حج واجب ادا کر چکے ہوں- مرحوم صدوق رضوان اللہ عليہ نے يہي بات امام حسين (ع) کے روضے کے بارے ميں لکھي ہے- اگر کبھي ايسا ہو امام حسين (ع) کا روضہ زائرين سے خالي ہو جائے تو تمام شيعوں پر واجب کفائي ہو جائے گا کہ امام کي زيارت کرنے جائيں- امام کي زيارت زائرين سے خالي نہيں رہنا چاہيے-( نقل از آيت اللہ مرعشي نجفي)
کيا امام حسين (ع) کي زيارت عرفہ کے دن خانہ خدا کي زيارت کے برابر ہے؟
يا يہ کہا جائے کہ امام کي زيارت کا ثواب خانہ خدا کي زيارت سے زيادہ ہے يا برابر ہے؟- سب سے بڑي دليل اس سلسلے ميں يہ ہے : اس ميں کوئي شک نہيں کہ خانہ خدا جو مکہ مکرمہ ميں واقع ہے اس کي عظمت، حرمت، اور اس کا احترام جناب ابراہيم کي وجہ سے ہے کہ انہوں نے اس کو تعمير کيا ہے- اور يہي ابراہيم جب حکم خدا سے اپنے فرزند اسماعيل کو ذبح کرنے لگتے ہيں آنکھوں پر پٹي باندھ ليتے ہيں ليکن امام حسين (ع) اپني آنکھوں کے سامنے اپنے کئي اسماعيل راہ خدا ميں ٹکڑے ٹکڑے ہوتے ہوئے ديکھتے ہيں ليکن آنکھوں پر پٹي نہيں باندھتے- پس زمين کربلا کہ جو فخر اسماعيل علي اکبر اور علي اصغر اور فخر ابراہيم امام حسين(ع) کو اپني آغوش ميں سلائے ہوئے ہے اس کي زيارت خانہ خدا کي زيارت سے اگر زيادہ ثواب نہيں رکھتي تو کسي قيمت پر کم بھي نہيں رکھتي-
5: امام حسين (ع) اپنے والد بزرگوار مولاے متقيان (ع) کي طرح رات کي تاريکي ميں اپنے دوش پر اناج حمل کرتے تھے اور فقراء کے گھروں ميں پہنچاتے تھے- حتيٰ آپ کي شہادت کے بعد بھي آپ کي پشت پر کچھ ايسے زخم تھے جو نہ تلوار کے زخم تھے اور نہ نيزہ کے بلکہ اناج کي بورياں اٹھانے کي وجہ سے يہ زخم پڑے تھے- لہذا جب امام زين العابدين (ع) سے پوچھا گيا فرماٰيا: يہ زخم فقراء اور مساکين کے گھروں تک غذا پہنچانے کے ہيں- اس حديث کو دوسروں نے بھي اپني کتابوں ميں نقل کيا ہے- جيسے ابن جوزي نے کتاب تذکرۃ الخواص اور ابو نعيم اصفہاني نے حليۃ الاولياء ميں
source : tebyan