جو امام معصوم خالق يکتا کے حضور اس طرح لرزہ بر اندام ہو کر حاضر ہوتے ہيں وہ خدا کو چار سو مرتبہ کيونکر ناراض کرسکتے ہيں اور طلاق کا عمل اتني مرتبہ کيونکر انجام دے سکتا ہے جو حلال اعمال ميں سب سے مغضوب ترين عمل ہے؟
2- اگر بفرض محال يہ روايات درست ہوں تو يہ شاديوں اور طلاقوں سے متعلق روايات اس زمانے ميں سے تعلق رکھتي ہيں جب اميرالمؤمنين عليہ السلام کوفہ ميں تھے اور مسلمانوں کي ظاہري خلافت بھي آپ (ع) کے اختيار ميں تھي اور اگر ہم جنگ جمل (ميں ناکثين يا عہدشکنوں کے فتنے و بغاوت)، جنگ صفين ميں قاسطين (حق سے روگرداني کرنے والے گمراہوں کي بغاوت اور فتنے، اور جنگ نہروان ميں مارقين (يعني دين سے خارج ہونے والوں) کي بغاوت اور فتنے کے ايام کو اميرالمؤمنين (ع) کي مدت حکومت سے کم کرديں تو کچھ ہي مہينے باقي رہ جاتے ہيں اور اگر ان فتنوں کے مقدمات و مؤخرات کو بھي شمار کريں تو دوسري اور تيسري شادي کے بارے ميں سوچنے کا وقت بھي نہيں ملتا اور چنانچہ يہ دعوي عقلي لحاظ سے بھي مکمل طور پر باطل ہے- اگر ہم ہر شادي سے طلاق تک کي مدت کو ملحوظ رکھيں اور اس بات کو بھي مد نظر رکھيں کہ حجاز پر مسلط سعودي وہابي بادشاہوں کي روايت کے برعکس (جو سو تک شادياں ايک ہي آن ميں کرنا جائز سمجھتے ہيں اور اتني ہي بيويوں کو ايک ہي آن ميں اپني حرمسراؤ ں ميں رکھتے ہيں اور توحيد و دينداري کے مدعي وہابي مفتي شريعت وہابيہ کے مطابق انہيں ايسا کرنے کے حوالے سے مجاز سمجھتے ہيں)، شريعت محمديہ (ص) کے مطابق ايک ہي وقت چار سے زائد زوجات رکھنے کي اجازت رسول اللہ (ص) کے سوا کسي کو بھي نہيں ہے تو ايسي صورت ميں ہر نئي شادي کے لئے ايک زوجہ کو طلاق ديني پڑے گي تو يہ ساري شرائط مد نظر رکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ يہ الزامات نہايت مضحکہ خيز ہيں اور ان الزامات سے ان کے باني يعني منصور دوانيقي اور اس کے منشيوں اور مستوفيوں کي کم علمي ظاہر ہوتي ہے-
3- کيا اميرالمؤمنين عليہ السلام کي نہي نہي عن المنکر تھي يا نہي عن الحلال تھي؟ دونوں صورتوں ميں غلط ہے کيوں؟ اس لئے کہ: اميرالمؤمنين اور امام حسن عليہماالسلام آيت تطہير کي گواہي کے مطابق معصوم تھے اور دونوں کو ہر گونہ رجس سے پاک کرديا گيا تھا چنانچہ ان ميں سے کوئي بھي ايسا فعل کرنہيں سکتا جس سے انہيں نہي کيا جاسکے اور نہي عن الحلال بھي تو بنيادي طور پر غلط ہے اور امام معصوم نہي عن الحلال جيسے فعل قبيح کے مرتکب نہيں ہوسکتے-
4- کيا اميرالمؤمنين عليہ السلام کي نہي مقدمے پر مبني تھي يا پھر مقدمے کے بغير تھي؟ يعني يہ کہ کيا آپ (ع) نے ابتداء ميں آپ نے اپنے فرزند سے فرمايا تھا کہ ان کے ان افعال سے ناراض ہيں يا نہيں بلکہ براہ راست معاشرے ميں جاکر اپنے بيٹے کي شکايت عوام تک پہنچائي ہے؟ اگر تمہيد و مقدمے کے بشير ہو تو يا عمل تو بنيادي طور پر اميرالمؤمنين (ع) سے بعيد اور آپ (ع) کي روش کے منافي ہے اور محال ہے کہ آپ (ع) کسي تمہيد کے بغير اپنے فرزند ارجمند اور وہ بھي امام حسن (ع) جيسے بيٹے کي آبرو نيلام کرديں- اور اگر تمہيد پر مبني تھي تو امام حسن سے تو کيا ايک عام سے باايمان انسان سے بھي بعيد ہے کہ وہ اميرالمؤمنين (ع) جيسے والد اور امام کو اتنا تنگ کرے اور اتنا پريشان کرے کہ وہ دلتنگ اور پريشان رہا کريں-
source : tebyan