اردو
Thursday 14th of November 2024
0
نفر 0

حاکميت قرآن

کتاب انزلناہ اليک لتخرج الناس من الظلمات الي النور باذن ربہم الي صراط العزيز الحميد ( سورہ ابراہيم) يہ کتاب ہے جسے ہم نے آپ کي طرف نازل کيا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو حکم خدا سے تاريکيوں سے نکال کر نور کي طرف لے آئيں اور
حاکميت قرآن

کتاب انزلناہ اليک لتخرج الناس من الظلمات الي النور باذن ربہم الي صراط العزيز الحميد ( سورہ ابراہيم)

يہ کتاب ہے جسے ہم نے آپ کي طرف نازل کيا ہے، تاکہ آپ لوگوں کو حکم خدا سے تاريکيوں سے نکال کر نور کي طرف لے آئيں اور خدائے عزيز و حميد کے راستے پر لگا ديں۔

رسول اللہ صلي اللہ عليہ وآلہ وسلم نے فرمايا:

’’اذا لتبست عليکم الفتن کقطع الليل المظلمۃ فعليکم بالقرآن فانہ شافع مشفع وما حل مصدق من جعلہ امامہ قارہ اليٰ الجنۃ ومن جعلہ فاقہ اليٰ النار .... اليٰ خر الحديث‘‘

جب فتنے اندھيري رات کے تاريک حصوں کي طرح تمھارے لئے الجھنيں پيدا کرديں تو تمھيں قرآن ہي سے وابستہ رہنا چاہئے۔ اس لئے کہ قرآن شفاعت، کرنے والا ہے، اس کي شفاعت مقبول ہے۔ قرآن تصديق شدہ مدبر ہے۔ جس نے اسے اپنے سامنے رکھا قرآن اسے جنت ميں لے جائے گا اور جس نے قرآن کو پس پشت ڈال ديا وہ ايسے شخص کو جہنم ميں پہنچا دے گا۔ وہ بہترين راستے کا رہنما ہے۔

’’وہ ايسي کتاب ہے جس ميں تفصيل و تشريح اور نتيجہ خيزي ہے۔ و حتمي و قطعي فيصلہ کن کتاب ہے، غير سنجیدہ چيز نہيں۔ اس کا ظاہر ہے، اس کا باطن ہے۔ اس کا ظاہر حکم (فيصلہ) ہے اس کا باطن علم ہے، اس کا ظاہر خوش نما اور اس کا باطن بہت ہي عميق ہے۔ اس کے عجائبات بے حساب ہيں اور اس کے غرائب اور ندرتوں پر کہنگي اپنا اثر دکھاتي ۔ اس ميں ہدايت کے چراغ اور حکمتوں کے مينار ہيں۔‘‘

’’نظر دوڑانے والے کو اسے ديکھنا چاہئے اور نگاہ کو اس کي صفات تک رسائي حاصل کرنا ضروري ہے۔ قرآن متلائے ہلاکت کو نجات اور مشکلوں ميں پھنسے ہوئے کو خلاصي دلاتا ہے۔‘‘

حضرت علي عليہ السلام نے فرمايا:

’’ واعلموا ان ہذا القرآن ہو الناصح الذي لا يغش والہادي الذي لايضل...

’’ياد رکھو!يہ قرآن (مجيد) وہ خير خواہ ناصح ہے جو کبھي دھوکا نيہں ديتا۔ وہ رہنما ہے جو کبھي گمراہ نہيں کرتا، وہ سخن گوہے جو کبھي جھوٹ نہيں بولتا۔ جو بھي قرآن کا ہم نشين ہوا وہ ہدايت کو بڑھا کر اور گمراہي کوگھٹا کر جاتا ہے۔‘‘

پيغمبر اسلام۰ نے قرآن مجيد کا جس طرح تعارف فرمايا وہ آج امت اسلاميہ کے لئے خاص طور پر قابل توجہ ہے۔جس قسم کي تہہ در تہہ تاريکياں اور سياہ بادل آج مسلمانوں کي زندگي پرچھائے ہوئے ہيں اس سے پہلے کبھي نہ تھے۔ يہ درست ہے کہ اس صورتحال کي ابتداء اس وقت ہوئي جب اسلامي خلافت کي جگہ، طاغوتي سلطنت نے لے لي۔ قرآن کريم سے رشتہ ايک تکلف اور رسم کي حيثيت سے باقي رہ گيا، وہ مسلمانوں کي زندگي سے باہر ہوگيا۔ ليکن آج بيسويں صدي کے عہد جاہليت ميں سياسي پيچ و خم اور پروپيگنڈے کے ايسے مرحلے ميں داخل کر ديا گيا ہے جو پہلے سے کہيں زيادہ خطرناک اور کہيں زيادہ فکرمند کر دينے والي بات ہے۔

سب سے بڑا ذريعہ اور موثر ترين حيلہ جس سے اسلام کو ايک گوشے ميں دھکيلا جا سکتا تھا يہي تھا کہ مسلمان عوام کے دل و دماغ سے قرآن کو نکال ديا جائے۔ اسلامي ممالک ميں استعماري طاقتوں کے تہي اس کام کو نقطہ مرکزي بنا ليا گيا اور بيروني اقتدار طلب لوگوں کا ايک اہم کام بن گيا، اور اس کے لئے طرح طرح کے طور طريقے اختيار کئے گئے۔قرآن کريم، جسے خود اسي کتاب مقدس ميں نور، ہدايت حق کو باطل سے جدا کرنے والا، زندگي، ميزان، شفا اور ذکر جيسے نام ديئے گئے ہيں اسي وقت ان خصوصيات کا مظہر ہو سکے گا جب پہلے مرحلے ميں مرکز فکر و فہم اوردوسرے مرحلے ميں محور عمل قرار پائے۔

ابتدائے اسلام ميں، اسلامي حکومت کے دور ميں قرآن ہي حرف آخر اور فيصلہ کن حکم تھا۔ حد يہ ہے کہ خود کلام پيغمبر اکرم کو اسي کي بنياد پر پرکھا جاتا تھا۔ معاشرے ميں علمائے قرآن صحيح قدرومنزلت کے حامل تھے۔ حضور نے لوگوں کو سمجھايا تھا۔

’’اشرف امتي اصحاب الليل وحملۃ القرآن‘‘

ميري امت کے معزز لوگ شب بيداري اور حاملين قرآن ہيں۔

حمل قرآن کريم کو سيکھنا، اسے سمجھنا اس پر عمل کرنا ہے۔ ان دنوں يہ صفت معاشرے ميں ايک فضيلت سمجھي جاتي تھي۔ زندگي کي ہر مشکل ميں قرآن کي طرف رجوع کيا جاتا تھا۔ ہر بات کو ماننے نہ ماننے، ہر دعوے کو پرکھنے اور ہرروش کو قبول کرنے نہ کرنے کا معيار قرآن کريم تھا۔ وہ لوگ حق و باطل کو قرآن کے ذريعے پہچانتے تھے۔ اس کے بعد زندگي کے ميدان ميں اس کے نمونے ديکھتے اور معين کرتے تھے۔

جب سے اسلامي معاشروں پر مسلط ہونے والي قوتيں اسلامي اقدار سے محروم اور دور ہونے لگيں اسي وقت سے انھوں نے قرآن کو جو حق و باطل ميں تميز کا پيمانہ ہے، اپنے لئے رکاوٹ سمجھنا شروع کرديا۔ پھر اس مہم کا غاز ہوا کہ کالم الٰہي کو زندگي کے ميدان سے نکال ديا جائے۔

اس کا نتيجہ يہ ہوا کہ دين معاشرتي زندگي سے جدا اور دنيا و آخرت سے الگ ہوگئي اور حقيقي دينداروں اور دنيا طلب قدرت مندوں ميں ٹھن گئي۔ زندگي کے ميدانوں اور مسلمانوں کے معاشرے سے اسلام کو انتظامي منصب سے ہٹا ديا گيا، اسلام کا تعلق صرف عبادت گاہوں، مسجدوں اور گوشہ ہائے دل سے سمجھ ليا گيا۔ يوں حيات اجتماعي اور دين کے درميان ايک طويل جدائي رونمائي ہوئي۔


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

مصائب امام حسن مجتبی علیہ السلام
اسلام سے قبل جزیرہ نما عرب کی دینی حالت
قرآن اتحاد مسلمين کي ترغيب ديتا ہے
زندگی نامہ حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا
تلاوت قرآن کے آداب اور اس کا ثواب
فلسطین ارض تشیع
حسینی انقلاب
صحیفہ سجادیہ کی روشنی میں انسان کا قرآنی ...
آخرت میں ثواب اور عذاب
فاطمہ زہرا(س) حضرت علی(ع) کے گھر میں

 
user comment