بے شک قرآن میں مذہب، فلسفہ اور سائنس تینوں طرح کے علوم کا بیان ہے لیکن ان کا مقصد انسان کی ہدایت اور رہنمائی ہے ۔ دُنیا نے مذہب فلسفے اور سائنس کو اگرچہ الگ الگ خانوں میں اور وہ بھی ایک دوسرے کے متضاد بلکہ متحارب خانوں میں بانٹ رکھا ہے لیکن قرآن وحدت الٰہ وحدت تخلیق اور وحدت صداقت کی طرح وحدت علم کا بھی مؤید ہے۔ جلد یا بدیر جدید سائنس اور مادہ زدہ فلسفے پر بھی یہ بار روز روشن کی طرح واضح ہونے والی ہے کہ مادہ کے پیچھے ایک اور دُنیا ہے جس کا تعلق براہ راست عالم امرسے ہے اور یہ مادی کائنات ایک ہی اﷲ کی تدبیر امرکا نتیجہ ہے۔ قرآن کا تصور علم نہایت وسیع ،بسیط اور محیط ہے۔
وہ ہم کو دوذرائع علم کی خبر دیتا ہے ۔ وحی اور تجربہ۔ اور دونوں کے درمیان لازمی دوستی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ وہ ہمیں یہ دعوت دیتا ہے کہ فطرت کا مشاہدہ ہم یہ سوچتے ہوئے کریں کہ اس میں وحی کی گئی سچائیاں مثلاً توحید اور آخرت، ہدایت کی نشانیاں ہیں۔
مثلاً اے رسول کہہ دیجئے کہ ذرا دیکھو تو سہی کہ آسمانوں اور زمینوں میں خدا کی کیا کچھ نشانیاں ہیں !مگر سچ تویہ ہے کہ جو لوگ ایمان نہیں قبول کرتے ان کو ہماری نشانیاں اور ڈرانے والی چیزیں کچھ مفید نہیں۔ یا کہہ دیجیے کہ ذرا روے زمین پر چل پھرکر دیکھو تو سہی کہ خدا نے کس طرح پہلے پہل مخلوق کو پیدا کیا پھر اسی طرح وہی خدا قیامت کے دن پھر آخری بار پیدا کرے گا۔
قرآن میں کل چھ ہزار دوسو پچیس آیات ہیں ان میں سے سات سوپچاس آیتیں ایسی ہیں جن میں عقل سے کام لینے اور انفس اور آفاق میں غوروفکر کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔
نو سو آیات سے زائد مآخذِآب، زندگی کی ابتداء اور سائنس اور انجینئرنگ سے متعلق ہیں۔
چودہ سو آیات اقتصادیات پر بحث کرتی ہیں ۔ جب کہ دیگر احکام وقوانین سے متعلق آیات تقریباً ایک سوپچاس ہیں اس کے باوجود قرآن کا اصل موضوع ہدایت ہی ہے تاکہ انسان اخروی سعادت حاصل کرسکے ۔ اس لئے وہ سائنس ٹکنالوجی اقتصادیات فلکیات، طبیعات اور تاریخ کے مظاہر،اُصول اور واقعات بیان کرنے کے باوجود ہدایت کے مقصد کو سب پرحاوی رکھتا ہے۔ مگر اس میں کوئی ایک بات بھی ایسی نہیں آنے پائی جوکم تر معلومات کی طرف اشارہ کرتی۔ ظاہر ہے کہ قرآن اس کا کلام ہے جو اس وقت بھی جانتا تھا، جب کوئی نہیں جانتا تھا اور ان چیزوں کوبھی جانتا تھا جن سے اب تک لوگ ناواقف ہیں۔
source : tebyan