(15 رجب) بسلسلہ وفات ام المائب عقیلۂ بنی ھاشم ثانی زھرا سلام الہه علیہا، تسلیت و تعزیت عرض ہے.
تاریخ اسلام میں ایک ایسی عظیم المرتبت خاتون کا نام افق فضل و کمال پر جگمگا رہا ہے کہ جس کی شخصیت اعلیٰ ترین اخلاقی فضائل کا کامل نمونہ ہے ۔ایسی خاتون جس نے اپنے نرم و مہربان دل کے ساتھ مصائب کے بارگراں کوتحمل کیا ۔لیکن اس بی بی کا عزم محکم حق و حقیقت کے دفاع کی راہ میں ذرّہ برابر متزلزل نہ ہوا ۔جی ہاں گفتگو ثانی زہرا(س) حضرت زینب کبریٰ سلام اللہ علیہا کے سلسلے میں ہورہی ہے جنہوں نے اپنی گرانقدر حیات طیبہ اسلام اور اس کی حقیقی اقدار کے تحفظ میں گزاردی ۔ خدا کا درود و سلام ہو اس باعظمت خاتون پر جس نے اپنے خطبوں سے اپنے دور میں ناانصافی کی بنیادوں کو ہلاک کررکھ دیا ۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی تاریخ وفات و شہادت کے موقع پرآپ سب کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہوئے دین اسلام کی اس عظیم خاتون کے سلسلے میں یہ مقالہ قارئین کی نذر ہے ۔
ثانی زہرا (س) حضرت زینب کبریٰ (س) کی شخصیت کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جاسکتا ہے ۔یقینی طور پر جس نے پیغمبر اسلام (ص) حضرت علی (ع) اور حضرت فاطمہ زہرا (س) جیسی الہی و آسمانی شخصیات کے دامان فضيلت میں تربیت پائي ہو یقینی طور پر اس کی ذات اعلیٰ ترین اور گرانقدر خصوصیات سے آراستہ ہوگی قطعی طور پر آپ جانتے ہیں کہ حضرت زینب (س) کی حیات طیبہ کی زندگی کا ایک اہم باب کربلا کی جاودانہ تحریک اور قیام عاشورا سے مربوط ہے ۔اموی حکام کے فسق و فجور ، ظلم و ناانصافی اور بدعنوانیوں کے خلاف تحریک کے تمام مراحل میں حضرت زینب (س) اپنے بھائی امام حسین (ع) کے ساتھ ساتھ رہیں ۔اپنے بھائی امام حسین (ع) سے حضرت زینب (س) کی محبت اور قلبی لگاؤ کی مثال تاریخ پیش نہیں کرسکی ۔روایتوں میں ملتا ہے کہ جب تک آپ روزانہ اپنے بھائی کا دیدار نہ کرلتیں انہیں سکون میسر نہیں ہوتا ۔لیکن خداوند وحدہ لاشریک سے حضرت زینب (س) کا عشق الہی ناقابل توصیف ہے ۔ایسا عشق الہی جو آپ کو فرامین الہی پر عمل اور اس کے نفاذ کے لئے سعی و کوشش کی دعوت دیتا اسی لئے حضرت زينب (س) نے رفاہ و آسائش کی زندگی اور راحت دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرلی تھی اور اپنے بچوں کے ہمراہ ظلم و جہالت کے خلاف جد وجہد کی راہ میں در پیش مصائب و آلام کو خندہ پیشانی سے قبول کیا۔اسی لئے جب سرزمین کربلا میں طوفان حوادث و بلا کا مقابلہ کیا تو خدا کے حضور تسلیم و رضا کا اعلیٰ ترین نمونہ پیش کیا ۔حضرت زینب سلام اللہ علیہا اپنے عزیزوں کی قربانیوں اور بچوں کو راہ خدا میں قربان کردینے جیسے انتہائی مشکل حالات میں خداوند عالم کے لطف و رحمت کے سایہ میں پناہ لیں اور یوں خدا کے حضور سجدہ ریز ہوکر اپنے درد و غم کا مداوا کرتیں ۔آپ نماز و نیایش کے ذریعہ دوبارہ ہمت و حوصلہ پائیں اورانوارالہی اس طرح آپ کے قلب مطہر میں جلوہ افروز ہوئے کہ دنیا کے مصائب و آلام ان انوار الہیہ کے مقابلے میں ہوا ہوجاتے ۔امام حسین علیہ السلام اپنی بہن زینب (س) کے اخلاص و بندگی کے اس درجہ قائل تھے کہ جب آپ عصر عاشورا رخصت آخر کے لئے بہن کے پاس تشریف لائے توفرمایا میری بہن زینب (س) نماز شب میں مجھے فراموش نہ کرنا ۔ حضرت زینب سلام اللہ علیہا کی پوری زندگی صبر و شکیبائی کا مرقع ہے ۔حضرت زینب (س) نے کربلا کے میدان میں اپنے بھائي بھتیجوں ، بچوں اور عزیزوں کی شہادت کے بعد صبر کا سہارا لیا البتہ یہ اپنی تسکین کے لئے نہیں بلکہ صبر کا سہارااس لئے لیا کہ اپنے اعلیٰ مقاصد کو عملی جامہ پہنا سکیں ۔ ان کا صبر با مقصد تھا ،چنانچہ تیر وتلوار سے لیس دشمنوں کا ظاہری رعب و دبدبہ خاک میں مل گيا ۔حضرت زینب (س) اس قدر فصیح و بلیغ خطبہ بیان فرماتیں کہ آپ کے ایک ایک جملے لوگوں کے دلوں میں اتر جاتے ۔آپ گھر میں ،مسجد میں اور جہاں بھی ممکن ہوتا لوگوں کے درمیان خطبہ دیتیں تاکہ امام حسین (ع) کا مشن بھلایا نہ جاسکے اور ان کی تحریک ہمیشہ ہمیشہ کے لئے زندہ ہوجائے ۔ اسیری کے بعد جب حضرت زينب (س) دیگر اسیران اہل حرم کے ہمراہ دربار یزید میں لائی گئیں تو آپ نے اپنے بے مثال خطبے سے جس سے شجاعت اور پائمردی کا بھر پور اظہار ہورہا تھا سب کو ششدر کرکے رکھ دیا آپ نے اپنے خطبے میں فرمایا : اے یزيد اگر چہ حادثات زمانہ نےہمیں اس موڑ پرلاکھڑا کیا ہے اور مجھے قیدی بنایا گیا ہے لیکن جان لے میرے نزدیک تیری طاقت کچھ بھی نہیں ہے ۔خدا کی قسم ، خدا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی ہوں اوراس کے سوا ، کسی اور سے گلہ و شکوہ بھی نہیں کروں گی ۔اے یزید مکر و حیلے کے ذریعہ تو ہم لوگوں سے جتنی دشمنی کرسکتا ہے کرلے ۔ ہم اہل بیت پیغمبر (ص) سے دشمنی کے لئے تو جتنی بھی سازشیں کرسکتا ہے کرلے لیکن خدا کی قسم تو ہمارے نام کو لوگوں کے دل و ذہن اورتاریخ سے نہيں مٹاسکتا اورچراغ وحی کو نہیں بجھا سکتا تو ہماری حیات اور ہمارے افتخارات کو نہیں مٹا سکتا اور اسی طرح تو اپنے دامن پر لگے ننگ و عار کے بدنما داغ کو بھی نہیں دھوسکتا ، خدا کی نفرین و لعنت ہوظالموں اور ستمگروں پر حضرت زینب (س) واقعہ کربلا کے بعد زیادہ عرصے حیات نہیں رہیں لیکن اسی مختصر سے عرصے میں کوشش کی کہ لوگوں کے ذہنوں پر پڑے جہالت و گمراہی کے پردے کو ہٹادیں اور انہیں غفلت سے نجات دلادیں اوراسی طرح معاشرے میں اہل بیت پیغمبر (ص) کے محوری کردار کو اجاگر کریں ۔آپ (س) لوگوں کو پیغمبر (ص) کی تعلیمات کے تناظر میں اپنی اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ فرماتیں ۔حضرت زینب (س) نے ایک مضبوط مبلغہ و مدبّرہ کی حیثیت سے اپنی ٹھوس اورسنجیدہ تدبیروں کے ذریعہ امام حسین (ع) کی شہادت کے بعد کے واقعات اورحالات کو اس طرح سے سنبھالا کہ پوری کائنات کے لئے امام حسین (ع) اور ان کے مشن کی حقانیت واضح کردی حضرت زینب (س) اپنے بھائی امام حسین (ع) کی شہادت کے تقریبا" ڈیڑھ سال بعد 15 رجب المرجب 62 ہجری کودرجہ شہادت پر فائز ہوئیں ۔حضرت زینب (س) کی شہادت کی تاریخ کی مناسبت سے آپ کی خدمت میں تعزیت پیش کرتے ہوئے ایک معروف اسلامی مورخ ابن جاحظ کے ایک قول سے اپنے پروگرام کو پائہ اختتام تک پہنچاتے ہیں ابن جاحظ حضرت زينب (س) کے بارے میں کتاب البیان و التبیین میں لکھتے ہیں ۔زینب (س) لطف و مہربانی کے اعتبار سے اپنی مادر گرامی ، اورعلم و تقویٰ کے لحاظ سے اپنے پدر بزرگوار کی تصور تھیں ۔آپ کا بیت الشرف درس و تدریس کا ایک اہم مرکز تھا جو خواتین علم یا فقہ حاصل کرنا چاہتیں وہ حضرت زينب (س) کے حضور زانوئے تلمّذتہ کرتیں ۔
source : http://www.abna.ir/data.asp?lang=6&Id=161994