رسول اللہ (ص) فرماتے ہيں: ميرے بعد خلفاء کا دور ہوگا اور خلفاء کے بعد امراء، امرا کے بعد بادشاہ اور بادشاہوں کے بعد بےرحم اور لوگوں کو ناحق قتل کرنے والے، جو لوگوں کو قہر اور غلبے کے ذريعے اپني اطاعت پر مجبور کريں گے، وہ سرکش اور سنگدل ہيں اور ان سب کے بعد ايک مرد ہوگا جو ميرے خاندان سے ہے جو زمين پر عدل و انصاف سے بھر دے گا- (1)
وضاحت: خلفاء اور امرا کا دور گذر چکا اور بادشاہوں کا دور عرب ممالک ميں عوامي تحريکوں کے نتيجے ميں ختم ہورہا ہے، جس کے بعد طوائف الملوکي کا دور ہوسکتا ہے جس کے دوران تنگ نظر حکام معمولي سي بات پر لوگوں کے گلے کاٹيں گے اور ہم نے ان کي مثاليں تکفيري دہشت گردوں کے زير اثر علاقوں ميں فراواں ديکھي ہيں-
رسول اللہ (ص) نے فرمايا: تمہيں سات فتنوں سے خبردار کرتا ہوں:
1- فتنہ جو مدينہ ميں رونما ہوگا؛ (وصال نبي (ص) کے بعد اٹھنے والے فتنے جو گذر چکے ہيں)-
2- فتنہ جو مکہ ميں رونما ہوگا؛ (عبداللہ بن زبير کا فتنہ اور آل سعود کے فتنے)؛
3- فتنہ جو يمن سے سے ظاہر ہوگا (جو ظاہر ہوچکے ہيں اور ظاہر ہورہے ہيں)-
4- فتنہ جو شام سے اٹھے گا؛ (بنواميہ کا فتنہ جو ظاہر ہوچکا ہے)-
5- فتنہ جو مشرق سے ظاہر ہوگا؛ (ايران اور عراق کي جنگ يا پھر اور کوئي فتنہ!)-
6- مغرب سے رونما ہونے والا فتنہ؛ (فلسطين، عراق، افغانستان وغيرہ ميں مغرب کي مداخلت يا ماضي ميں گذرنے والا پر مسلط مغربي ممالک کے نوآبادياتي نظام کا غلبہ)-
7- شام کے وسط سے اٹھنے والا فتنہ؛ (وہ جو اسي وقت جاري ہے اور وہ جو سفياني کا فتنہ ہے اور يہ بھي ممکن ہے کہ موجودہ فتنہ سفياني فتنے کي تمہيد ہو!)- (2)
مذکورہ بالا فتنوں ميں سے بعض تو گذر چکے ہيں اور بعض آنے والے ہيں يا شايد بعض دوبارہ ظہور پذير ہوں- ساتواں فتنہ جو شام سے ظاہر ہوگا، سفياني کا فتنہ قرار ديا گيا ہے گوکہ شام ميں اسي وقت ( سنہ 2011 و 12 و 13 ميں) بھي جاري ہے جس ميں تکفيري گروہوں کے ہاتھوں اب تک ہزاروں افراد کا قتل عام ہوچکا ہے- يہ امکان بھي ظاہر کيا گيا ہے کہ شام کي يہ صورت حال سفياني کي بغاوت کي تمہيد ہو جو رسول اللہ (ص) کے ارشاد کے مطابق چھ مہينوں ميں پانچ شہروں پر قبضہ کرے گا اور 9 مہينے حکومت کرے گا اور امام زمانہ (ع) کے ايک صحابي کے ہاتھوں ہلاک ہوگا-
حوالے جات:
1- روزگار رهائي ص 1081 . بشارة الاسلام ص 288 . نوارالابصار ص 171. تحفة المهدّيه ص 157.
2- نوائب الدهور ص 107. الزام الناصب ص 76. يوم الخلاص ج2 ص 900. الملاحم و الفتن ص 16.
source : tebyan