اردو
Tuesday 5th of November 2024
0
نفر 0

امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور

امام محمد باقر علیہ السلام کا دور بھی ختم ہوا اور ١١٤ ھ سے امام جعفر صادق ٴ کی امامت شروع ہوئی اور ١٤٨ ھ تک جاری رہی۔ امام صادق ٴ نے اس مدت میں دو مرحلے طے کئے۔ ایک مرحلہ ١١٤ھ تا ١٣٥ھ تک یعنی بنی عباس کے غلبہ یا منصور دوانیقی کی خلافت تک۔ اس دور کو آسودگی اور سکون کا دور کہا جاسکتا ہے اور اسی کے بارے میں معروف ہے کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے درمیان نزاع و چپقلش کی وجہ سے آئمہ علیہم السلام کو شیعی تعلیمات کی تبلیغ کا موقع میسر آیا۔ اور یہ اسی دور سے مخصوص ہے، امام محمد باقر علیہم السلام کے دور میں
امام جعفر صادق علیہ السلام کا دور

امام محمد باقر علیہ السلام کا دور بھی ختم ہوا اور ١١٤ ھ سے امام جعفر صادق ٴ کی امامت شروع ہوئی اور ١٤٨ ھ تک جاری رہی۔ امام صادق ٴ نے اس مدت میں دو مرحلے طے کئے۔ ایک مرحلہ ١١٤ھ تا ١٣٥ھ تک یعنی بنی عباس کے غلبہ یا منصور دوانیقی کی خلافت تک۔ اس دور کو آسودگی اور سکون کا دور کہا جاسکتا ہے اور اسی کے بارے میں معروف ہے کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے درمیان نزاع و چپقلش کی وجہ سے آئمہ علیہم السلام کو شیعی تعلیمات کی تبلیغ کا موقع میسر آیا۔ اور یہ اسی دور سے مخصوص ہے، امام محمد باقر علیہم السلام کے دور میں یہ صورت نہیں تھی بلکہ وہ بنی امیہ کی طاقت و قدرت کا زمانہ تھا اور ہشام بن عبدالملک کی حکومت تھی جس کے بارے میں لوگ کہتے ہیں کہ وکان ھشام رجلھم چنانچہ شاہان بنی امیہ میں عبدالملک بن مروان کے بعد ہشام بن عبدالملک طاقتور شخصیت کا مالک تھا جو امام محمد باقر ٴ کے عہد تخت حکومت پر براجمان تھا۔ لہذا امام محمد باقر علیہ السلام کے زمانے میں کسی کا کسی کے ساتھ کوئی ایسا اختلاف و تنازعہ بظاہر رونما نہیں ہوا کہ اس موقع سے امام ٴ استفادہ کرسکتے۔ تمام داخلی جنگیں اور سیاسی اختلافات امام جعفر صادق علیہ السلام کے دور سے مخصوص ہیں اور وہ بھی اس ابتدائی دور سے مخصوص ہیں جب بنی عباس کی دعوت بھی پوری اسلامی دنیا میں اوج پر نظر آتی ہے۔ فی الحال یہاں ان باتوں کی تشریح کا موقع نہیں ہے۔
جس وقت امام صادق علیہ السلام مسند امامت پر متمکن ہوتے ہیں پوری اسلامی دنیا افریقہ ، خراسان، فارس، ماورائ النہر الغرض مختلف اسلامی علاقوں میں باہمی جنگوں اور محاذ آرائی کا بازار گرم تھا۔ بنی امیہ کی حکومت کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس موقع سے فائدہ اٹھایا اور اپنی تبلیغ کے لئے وہی تین نقطے محور و مرکز قرار دئیے جن کی جانب ہم سید سجاد کی زندگی کے بارے میں گفتگو کے دوران اشارہ کرچکے ہیں۔
یعنی معارف اسلامی ، مسئلہ امامت ، نیز اس کا اہل بیت علیہم السلام سے مخصوص ہونا۔
امام صادق ٴ کی حیات کے پہلے مرحلے میں خاص طور پر اس مذکورہ تیسرے عنصر کا مشاہدہ صاف طور پر کیا جاسکتا ہے۔ اس کا ایک نمونہ عمرو بن ابی المقدوم کی یہ روایت ہے کہتے ہیں: ’’ رایت ابا عبداللہ (ع) یوم عرفۃ بالموقف وھو ینادی باعليٰ صوتہ ‘‘ حضرت عرفات میں لوگوں کے درمیان کھڑے ہو کر عظیم اجتماع میں با آواز بلند خطاب فرماتے ہیں اور ایک ہی جملہ کبھی اس طرف رخ کرکے اور کبھی اس طرف رخ کرکے ہر چہار طرف تین تین مرتبہ تکرار فرماتے ہیں اور وہ جملہ یہ تھا :
’ ایها الناس ! ان رسول الله(ص) کان هو الامام ، ثم کان علی ابن ابی طالب ، ثم الحسن ، ثم الحسین ، ثم علی ابن الحسین ، ثم محمد بن علی ، ثم هه فینادی۔ ثلاث مرات لمن بین یدیه ولمن خلفه و عن یمینه و عن یساره اثنا عشرة صورتا ۔‘‘
’’ اے لوگو! یقینا رسول اللہ ۰امام تھے ، پھر آپ کے بعد علی ابن ابی طالب ، پھر حسن، پھر حسین ، پھر علی ابن الحسین ، پھر محمد ابن علی اور اس کے بعد ’’ ھہ ‘‘ (یعنی میں)۔۔۔ مجموعا بارہ مرتبہ آپ نے ان جملوں کی تکرار فرمائی۔
راوی کہتا ہے : میں نے سوال کیا اس (ھہ) سے کیا مراد ہے؟ کہتے ہیں : بنی فلاں کی لغت میں ، یعنی میں۔ اس سے کنایہ خود حضرت ٴ کی طرف ہے یعنی محمد بن علی علیہ السلام کے بعد میں امام ہوں۔‘‘
اس کلمہ میں لفظ امام کا استعمال قابل توجہ ہے اور یہ اس حقیقت کی طرف نشاندہی کرتا ہے کہ امام ٴ اس طرح عوام کے ذہن کو امامت کی حقیقت سے روشناس کرتے ہوئے یہ بتانا چاہتے ہیں کہ آیا وہ لوگ جو بر سر اقتدار ہیں امامت کے سزاوار ہیں یا نہیں؟


دوسرا نمونہ یہ ہے:
’’قال قدم رجل من اهل الکوفة الی خراسان فدعا الناس اليٰ ولایة جعفر بن محمد ۔‘‘
’’ ایک شخص مدینہ سے خراسان پہنچتا ہے اور لوگوں کو جعفر ابن محمد کی ولایت (یعنی حکومت)کی طرف دعوت دیتا ہے۔‘‘
آپ دیکھئے ایران میں اسلامی انقلاب کی تحریک کے دوران وہ وقت کب آیا جب ہم کھل کر جمہوری اسلامی یا حکومت اسلامی کی بات کرسکیں؟ ہم لوگ اس پوری تحریک اور جدوجہد کے دوران برسوں تک زیادہ حکومت کے سلسلہ میں اسلامی نظریات کی گفتگو کر پاتے تھے۔ یعنی بہت ہوا تو یہ کہہ دیا کہ حکومت کے بارے میں اسلام نے کیا اصول و ضوابط پیش کئے ہیں اور حاکم کو کن شرائط کا حامل ہونا چاہئیے۔ بس اس سے زیادہ ہم اور کچھ نہیں کہہ سکتے تھے۔ حکومت اسلامی کی تشکیل کی دعوت دینے یا کسی خاص شخص کا حاکم کے طور پر نام لینے کی نوبت نہیں آسکی تھی۔ ١٩٧٨ ئ یا زیادہ سے زیادہ ١٩٧٧ئ میں اور وہ بھی خاص محفلوں میں ہمارے لئے ممکن ہوسکا تھا کہ اپنی جدوجہد کو حکومت اسلامی کے لئے جدوجہد کے طور پر ظاہر کرسکیں اور وقت بھی کسی کا اس کے حاکم کے طور پر معین اظہار نہیں کرسکے تھے۔
ان حقائق کی روشنی میں آپ ملاحظہ فرمائیں کہ اس دور میں لوگ اٹھتے ہیں اور مملکت اسلامی کے دور دراز علاقوں میں جا جا کر امام صادق علیہ السلام کی حکومت کی طرف عوام کو دعوت دیتے ہیں، اس کے کیا معنی ہیں؟
کیا اس کا مطلب یہ نہیں ہے، کہ اب وہ وقت قریب پہنچا جاتا ہے جس کاوعدہ کیا گیا تھا ؟ یہ وہی ١٤٠ھ کا سال ہے۔ یہ وہی چیز ہے جو آئمہ علیہم السلام کی مسلسل جدوجہد کا فطری تقاضا ہے اور اس دور میں حکومت اسلامی کی تشکیل کی نوید دیتی ہے۔
لوگوں کو امام جعفر صادق ٴ کی ولایت و حکومت کی طرف دعوت دی جاتی ہے۔ آج ہم ولایت کا مفہوم اچھی طرح سمجھتے ہیں، گزشتہ دور میں ولایت کے معنی محبت بتائے جاتے تھے۔ لوگوں کو امام صادق ٴ کی ولایت یعنی محبت کی طرف دعوت دینا؟ محبت کے لئے دعوت نہیں ہوتی، محبت کوئی ایسی چیز تو ہے نہیں جس کی معاشرے کو دعوت دی جائے ۔ علاوہ ازایں اگر ولایت کا مفہوم محبت لیا جائے تو اس حدیث کے بعد کے فقرے بے معنی ہوجاتے ہیں، ملاحظہ فرمائیے۔ ’’ ففرقۃ اطاعت واجابت۔‘‘ ایک گروہ نے اطاعت کی اور قبول کیا۔ ’’ و فرقۃ جحدت وانکرت‘‘ اور ایک گروہ نے انکار کیا اور قبول نہ کیا (اسلامی دنیا میں محبت اہل بیت ٴ سے کون لوگ انکار کرتے ہیں ؟!!!)و فرقۃ ورعت ووفقیت ‘‘ اور ایک گروہ نے ورع اختیا رکرتے ہوئے خاموشی اختیار کرلی۔ تورع اور توقف کا بھی کسی طرح محبت کے ساتھ کوئی ربط سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ اس بات کا قرینہ ہیں کہ ولایت سے مقصود کچھ اور ہے، ظاہر ہے وہ حکومت ہی ہوسکتی ہے۔ حدیث کے آخری فقرے کچھ اس طرح ہیں:’’ فخرجت من کل فرقۃ رجل فدخلوا عليٰ ابی عبداللہ ‘‘ ہر طرف سے لوگ امام ٴ کی خدمت میں آتے ہیں اور گفتگو کرتے ہیں۔ حضرت ٴ ان میں سے خاموشی اختیار کرنے والے ایک شخص سے فرماتے ہیں: تم نے اس سلسلہ میں جو توقف و تورع اختیار کیا تو اس وقت یہ تورع کیوں نہ اپنایا جب فلاں نہر کے کنارے فلاں روز فلاں مخالف اسلام عمل انجام دے رہے تھے؟! یہ ارشاد بخوبی اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ وہ شخص جس نے خراسان میں امام ٴ کی ولایت کی طرف دعوت کا فریضہ انجام دیا تھا اس نے امام ٴ کی رضامندی سے یہ کام انجام دیا تھا بلکہ ممکن ہے کہ خود امام علیہ السلام نے ہی اس کو اس بات پر مامور کیا ہو۔
یہ چیز امام صادق علیہ السلام کی زندگی کے پہلے مرحلہ سے تعلق رکھتی تھی اور آپ ٴ کی زندگی میں ایسی علامات ملتی ہیں کہ غالباً اس طرح کی تمام چیزیں اسی پہلے دور سے مربوط ہیں۔ یہاں تک کہ منصور عباسی کی خلافت کا دور شروع ہوجاتا ہے۔ منصور کے برسر اقتدار آتے ہی مشکلات کا دور شروع ہوجاتا ہے اور امام ٴ کے لئے بھی قریب قریب وہی حالات پیدا ہو جاتے ہیں جن سے امام محمد باقر علیہ السلام کی زندگی دوچار تھی۔ گھٹن چھا جاتی ہے اور طرح طرح کے دباو آپ ٴ پر پڑنے لگتے ہیں۔ حضرت ٴ کو بارہا حیرہ ، واسطہ ، رمیلہ نیز دوسری جگہوں پر طلب کیا جاتا ہے یا جلاوطن کیا جاتا ہے۔ کئی مرتبہ خلیفہ آپ ٴ کو خطاب کرتا ہے اور سختی کا نشانہ بناتا ہے۔ ایک مرتبہ تو خلیفہ یہاں تک کہہ دیتا ہے کہ : قتلنہ
(خدا مجھے زندہ نہ رکھے اگر میں آپ کو قتل نہ کردوں) ایک مرتبہ حاکم مدینہ کو حکم دیتا ہے کہ: ان احرق عليٰ دارہ ( حضرت۰ کے سمیت آپ کے گھر کو آگ لگا دو) ۔ حضرت ٴ جلتی ہوئی آگ عبور کرتے ہیں اور بڑے ہی توکل اور اعتماد کے ساتھ قدم بڑھاتے ہوئے ایک عجیب منظر پیش کرتے ہیں اور فرماتے ہیں: انا ابن اعراق الثريٰ انا ابن محمد المصطفيٰ (ص) ( ہم زندہ و پائندہ امام کے فرزند ہیں، محمد مصطفی کے فرزند ہیں)۔
اس چیز نے دشمنوں کو اور بھی ذلیل و خوار کیا۔۔۔۔
امام جعفر صادق علیہ السلام اور منصور کے تعلقات اکثر نہایت کشیدہ رہے۔ منصور بارہا امام کو دھمکیاں دیتا تھا۔ اگرچہ اس طرح کی روایات بھی ملتی ہیں جن میں ہے کہ امام ٴ نے منصور کے سامنے اپنی ذلت اور عاجزی کا اظہار کیا (معاذ اللہ)۔ یقینی طور پر ان میں سے ایک روایت بھی درست اور قابل اعتماد نہیں ہے۔ میں نے ان روایات کا جائزہ لیا اور تحقیق کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہوں کہ ان کی کوئی اصل اور حقیقت نہیں ہے۔ ان کا سلسلہ زیادہ تر ’’ ربیع حاجب‘‘ تک پہنچتا ہے جس کا فاسق ہونا قطعی اور یقینی ہے اور وہ منصور کے قریبی لوگوں میں سے ہے۔ تعجب ہوتا ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ربیع شیعہ یا دوستدار اہل بیت ٴ تھا۔ ربیع کہاں اور شیعہ ہونا کہاں؟ ربیع ابن یونس کا مطیع و فرماں بردار اور حکم کا غلام تھا اور ان افراد میں سے تھا جو بچپن ہی سے بنی عباس کے نوکروں میں شامل ہوجاتے تھے۔ یہ رفتہ رفتہ منصور کا حاجب ہوگیا تھا اور بے پناہ خدمتوں کے عوض بالآخرہ منصب وزارت پر فائزہ ہوگیا تھا۔
جس وقت منصور مر اہے، اگر ربیع نہ ہوتا تو خلافت منصور کے خاندان سے باہر چلی گئی ہوتی اور شاید اس کے چچاو ں کا خلافت پر قبضہ ہوجاتا۔ یہ ربیع ہی تھا جو مرتے وقت تنہا منصور کے سرہانے موجود تھا اور اس کے نے منصور کے بیٹے مہدی کے حق میں جعلی وصیت نامہ تیار کیا اور مہدی کو تخت خلافت پر بٹھادیا۔ فضل ابن ربیع جو بعد میں ہارون اور امین کے دربار میں وزارت پر فائز ہوا اسی کا بیٹا تھا۔ یہ خاندان ان خاندانوں میں سے ہے جو بنی عباس کی نمک خواری اور وفاداری میں کافی مشہور ہیں اور ان کے دلوں میں اہل بیت علیہم السلام کے لئے کسی طرح کی ارادت و محبت نہیں پائی جاتی اور ربیع نے جو کچھ امام صادق علیہ السلام کے سلسلہ میں کہا ہے وہ سراسر جھوٹ ہے اور جعلی ہے اور ان تمام کوششوں کے پس پشت اس کا مقصد صرف اتنا تھا کہ اس دور کے اسلامی معاشرے کو یہ باور کرایا جائے کہ حضرت ٴ جیسی شخصیت بھی منصور کے سامنے عاجزی اور تذلیل کا اظہار کرچکی ہے۔ تاکہ دوسرے لوگ اپنی حیثیت کے بارے میں خود ہی فیصلہ کرلیں۔بہر حال منصور اور اامام صادق علیہ السلام کے تعلقات انتہائی کشیدہ تھے جو ١٤٨ھ میں امام ٴ کی شہادت پر منتہی ہوتے ہیں۔


source : alhassanain
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

حكومت نہج البلاغہ كی روشنی میں
اسلام اور سیاست
آخری پیغام
قرآن کریم میں گفتگو کے طریقے
بدطینت لوگوں سے دوستی مت رکھو
مقاصدِ شریعت
شب يلدا کي تاريخ
کربلا ۔۔۔وقت کے ساتھ ساتھ
اسلام کی طرف امریکیوں کے رجحان میں غیر معمول ...
جشن مولود کعبہ؛ رہبر معظم: اخلاص و معنویت کو ...

 
user comment