اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

امام جعفر صادق علیہ السلام کی یونیورسٹی

امام ؑ کی یونیورسٹی عباسی دور میں سب سے نمایاں جامعہ تھی جو علمی زندگی کے امور انجام دے رہی تھی آپ ؑ نے مختلف علوم کے اقسام شائع کئے جن کو لوگ اس وقت تک نہیں جانتے تھے ،اس یونیورسٹی نے بہترین مفکر ،منتخب
امام جعفر صادق علیہ السلام کی یونیورسٹی

امام ؑ کی یونیورسٹی عباسی دور میں سب سے نمایاں جامعہ تھی جو علمی زندگی کے امور انجام دے رہی تھی آپ ؑ نے مختلف علوم کے اقسام شائع کئے جن کو لوگ اس وقت تک نہیں جانتے تھے ،اس یونیورسٹی نے بہترین مفکر ،منتخب فلسفی اور نامورعلماء پیش کئے۔ بعض محققین کا کہنا ہے :(اس مقام پر اس حقیقت کا بیان کرنا واجب ہے کہ ترقی پر گامزن ہونے کیلئے اسلامی ثقافت اور عربی فکر اسی یونیورسٹی کی مرہون منت ہیں اور اس کے عمید و سردار امام جعفر صادق ؑ نے علمی تجدد اور قیمتی میراث چھوڑی ہے )۔ عارف ثامر کا کہنا ہے : (علمی میدان پر امام صادق علیہ السلام کے سلسلہ میں گفتگو کرنا واجب ہوگیا کہ مدرسۂ فکر کے پہلے بانی آپ ؑ ہیں ،فلسفۂ باطنی کی تعلیم کا پہلا مرکز قائم کرنے والے آپ ؑ ہی ہیں نیزعلم کیمیاء کے موجد بھی آپ ہی ہیں جس کے سلسلہ میں جابر بن حیان صوفی طرسوسی نے گفتگو کی ہے ، آپ ؑ ہی نے عقل اسلامی کو اس کے محدود دائرہ سے نکال کرخوشگوار اور کھلی فضاعطا فرما ئی جس کے ہر پہلو میں صحیح و سالم فکری اور علمی آزادی پائی جا تی ہے جومنطق اور حقیقت پر مبنی ہے ) ۔ہم نے اس یونیورسٹی کے متعلق حیات الامام الصادق ؑ میں مفصل طور پر گفتگو کی ہے اوراب ہم ذیل میں اس کی بعض بحثوں کی طرف اجمالا اشارہ کرتے ہیں :
یونیورسٹی کا مرکز
جس یونیورسٹی کی امام صادق ؑ نے بنیاد ڈالی اس کا بڑا مرکز یثرب میں تھا اور جامع نبوی عظیم میں آپ ؑ اپنے محاضرات و دروس دیا کرتے تھے اور بعض اوقات آپ ؑ کے بیت الشرف کے صحن میں بھی یہ دروس برقرار ہوتے تھے ۔علمی وفود عالم اسلام کے مختلف مقامات کے بزرگان فضیلت جلدی جلدی اس درسگاہ سے کسب فیض کے لئے حاضر ہونے لگے ۔سید عبد العزیز الاھل کا کہنا ہے :(کوفہ ،بصرہ ،واسط ،حجازاورہر قبائل بنی اسد،غنی ،مخارق ، طیّ ،سلیم غطفان ،غفار، ازد ،خزاعہ ،خشعم ،مخزوم ،بنی ضبّہ ،قریش کے لوگ مخصوصا حارث بن عبدالمطلب ،بنی حسن بن علی، اپنے بچوں کو اس درسگاہ میں تعلیم دین حاصل کرنے کیلئے بھیجنے لگے ، ان کے علاوہ عرب اور فارس کے کچھ آزاد قبیلے خاص طور سے شہر قم کے علماء نے بھی اپنے بچوں کو امام صادق کی درسگاہ میں تحصیل علم کیلئے روانہ کیا)۔ اقالیم اسلامیہ نے مشترک طورپراپنے بچوں کو امام کے علوم سے استفادہ اور نسل نبوت سے احکام شریعت حاصل کرنے کے لئے امام ؑ کی خدمت میں روانہ کیا ۔
طلبہ کی تعداد
امام ؑ کی یونیورسٹی کے طالب علموں کی تعداد چار ہزار تھی ،یہ بہت بڑی تعداد تھی جس کی اس دور کے علمی مدرسوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی ،حافظ ابو عباس بن عقدہ ہمدانی کوفی نے امام جعفر صادق ؑ سے حدیث نقل کرنے والے راویوں کے نام کے متعلق ایک کتاب تالیف کی ہے جس میں چار ہزار طلاب کے نام تحریر کئے ہیں ۔ڈاکٹر محمود خالدی کا کہنا ہے :( ’’امام جعفر صادق ؑ ‘‘کے مؤثق راویوں کی تعداد چار ہزار تھی ہم اس بڑی تعداد سے بالکل بھی متعجب نہیں ہیں بلکہ اگر اس کے برعکس واقع ہو اور نقل کیا جائے تو تعجب کا امکان ہے )۔ محقق نے معتبر میں کہا ہے : (امام جعفر صادق ؑ ‘کے زمانہ میں ایسے علوم شائع ہوئے جن سے عقلیں مبہوت ہو کر رہ گئیں ،امام جعفر صادق ؑ سے تقریبا چار ہزار راویوں نے روایت کی ہے )۔ سید محمد صادق نشأت کا کہنا ہے : امام جعفر صادق ؑ کا بیت الشرف یزدان کی یونیورسٹی کے مثل تھا جو ہمیشہ علم حدیث ،تفسیر ،حکمت اور کلام کے بڑے بڑے علماء سے چھلکتا رہتا تھا ، اکثر اوقات آپ ؑ کے درس میں دو ہزار طلبا حاضر ہوتے تھے اور بعض اوقات چار ہزار مشہور علماء حاضر ہوتے تھے ۔ آپ ؑ کے شاگردوں نے آپ ؑ کی وہ تمام احادیث اور دوروس تحریر کئے جو بعد میں شیعہ یا جعفری مذہب کے علمی خزانہ کے مانند کتابوں کی شکل میں آگئے ‘‘۔ہم نے ’’حیاۃ الامام الصادق ؑ ‘‘میں آپ ؑ کے تین ہزار چھ سو باسٹھ راویوں کاتذکرہ کیا ہے ۔
یونیورسٹی کے شعبے
وہ اکثر علماء جو آپ ؑ کی درسگاہ سے فارغ التحصیل ہو کر اپنے وطن واپس پلٹے انھوں نے اپنے اپنے وطن میں علمی اور دینی مدرسے قائم کئے ۔اور آپ ؑ کے جامعہ کی سب سے بڑی شاخ کی بنیاد کوفہ میں ڈالی گئی جو جامعہ کوفہ کے نام سے مشہور ہوا ۔حسن بن علی وشّاء کا کہنا ہے :(میں اس ’’یعنی مسجد کو فہ ‘‘مسجد میں پہنچا تو مجھ سے نو سو شیخ ’’علماء ‘‘ نے کہا کہ :مجھ سے جعفر بن محمد نے حدیث بیان کی ہے )۔ کوفہ میں وسیع پیمانہ پرعلمی تحریک کا آغاز ہوا ،جیسے اس کے علاوہ دوسرے مقامات پر وسیع پیمانہ پرعلمی نہضت قائم ہوئی تھی ۔سید میر علی ہندی کہتے ہیں : ’’اس دور میں علم منتشر کرنے میں کوئی پریشانی نہیں تھی یعنی فکر ایک دم آزاد تھی اور اس نے عقل کو اس کے محور سے جدا کرنے میں مساعدت کی ،اور عالم اسلام میں عام طور پر ہرجگہ فلسفی بحثیں ہونے لگیں،اس بات کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا کہ اس بلند و بالا تحریک کا آغاز علی بن ابی طالب ؑ کے فرزند امام جعفر جن کو صادق کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے ،نے کیا آپ ؑ نے افق تفکیر کو خوش آمدید کہا ،آپ ؑ بہت گہری فکر کے مالک تھے ، اپنے زمانہ کے تمام علوم سے آشنا تھے ،حقیقت میں آپ ؑ ہی وہ شخصیت تھے جنھوں نے سب سے پہلے اسلام میں مشہور فلسفی مدرسوں کی بنیاد ڈالی ،حقیقت میں جن لوگوں نے بعد میں مختلف جگہوں پرمدرسہ کی بنیاد ڈالی وہ خود امام کے دروس میں حاضر ہوتے تھے ۔آپ ؑ کے درس میں دور دراز کے علاقوں سے بھی لوگ فلسفہ کے دروس پڑھنے کیلئے حاضر ہوتے تھے )۔
 بہر حال کوفہ میں بعض علمی خاندان کو امام ؑ کی شاگردی کا شرف حاصل ہوا ، اور بہت سے خاندان جیسے آل حیان تغلبی ، آل اعین ،بنی عطیّہ ،بیت بنی درّاج وغیرہ اور دوسرے علمی خاندانوں نے علم فقہ اورحدیث میں تخصّص کیا۔امام جعفر صادق ؑ نے کوفہ میں دو سال سے زیادہ قیام کیا ،آپ ؑ نے بنی عبد القیس کے یہاں قیام کیا،جہاں پر آپ ؑ سے احکام دین کے متعلق فتوے معلوم کرنے والے شیعوں کاہجوم لگا رہتا تھا، محمدبن معروف ہلالی نے امام جعفر صادق ؑ کے پاس ہجوم کے متعلق یوں بیان کیا ہے کہ : میں مقام حیرہ پر جعفر بن محمد کی خدمت میں حاضر ہوا تو وہاں پر لوگوں کا ازدھام تھا ،چوتھے دن میں نے ان کو اپنے قریب ہوتے دیکھا ، لوگ ان سے دور ہوتے گئے، امام اپنے جد امیر المو منین ؑ کی قبر کی طرف گئے تو میں بھی ان کے نقش قدم پر قدم رکھتا ہوا اُن کے ساتھ ہو لیا اور ان کا کلام سنا ۔علمی طریقے حضرت امام جعفر صادق ؑ کے دروس ہر قسم کے علوم و معارف اور ثقافتی ضرب المثل کو شامل ہیں آپ ؑ نے مندرجہ ذیل موضوعات میں دروس دئے :علم فقہ ۔
علم حدیث ۔
علوم قرآن ۔
علم طب ۔
کیمیا ء۔
فیزیک۔
علم نبات ان کے علاوہ آپ ؑ نے دوسرے ایسے علوم کی تعلیم بھی دی جن کا آنے والے معاشرہ اور صناعت میں اثر تھا ۔ان تمام علوم میں نمایاں طور پر امام ؑ نے جس علم کا بہت زیادہ اہتمام کیا وہ علم فقہ اسلامی ہے جس میں آپ ؑ نے عبادات ، معاملات ،عقود اور ایقاعات کی تشریح فرما ئی،اور وہ احادیث شریفہ جن کی طرف امامیہ فقہاء احکام شرعی کے استنباط کے لئے رجوع کر تے ہیں ۔
علوم کی تدوین
امام جعفر صادق علیہ السلام نے اپنے اصحاب کو اپنے تمام دروس و محاضرات کو تدوین کرنے کی شدت کے ساتھ تاکید فرمائی کہ کہیں یہ دروس ضائع و برباد نہ ہو جا ئیں ۔چنانچہ ابو بصیر سے مروی ہے کہ میں ابوعبداللہ جعفر صادق ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ ؑ نے فرمایا :’’تمھیں لکھنے سے کو ن منع کرتا ہے ؟ بیشک تم اس وقت تک حفظ نہیں کر پاؤگے جب تک نہ لکھ لو ،میرے پاس سے بصرہ والوں کا ایک ایساگروہ گیاہے جو جس چیز کے بارے میں سوال کرتا تھا اس کو لکھتا تھا ‘‘۔امام جعفر صادق ؑ نے علوم تدوین کر نے کا اتنا زیادہ اہتمام کیا کہ اپنے شاگرد جابر بن حیان سے کہا کہ ایسا کاغذ تیار کرو جس کو آگ نہ جلا سکے ،جابر نے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے وہ کاغذ تیار کیا تو امام ؑ نے اس کاغذ پراپنے دست مبارک سے لکھ کر اسے آگ میں ڈالا تو آگ اس کو نہ جلاسکی، البتہ راویوں نے اس کتاب کے نام کاتذکرہ نہیں کیا اور نہ ہی اس میں تحریر کئے گئے علم کا نام بتایا ہے۔امام ؑ کے شاگرد علماء نے آپ کی آواز پر بڑی جلدی کے ساتھ لبیک کہی اور جابر بن حیان نے علم کیمیاء کے متعلق آپ ؑ کے بیان کردہ مطالب کو مدوّن کیاجن کی تعداد پانچسو رسالہ تک پہنچ گئی یہ رسائل علم کیمیاء کیلئے بہت ہی بہترین سر چشمہ ہیں اور ان سے علماء نے بہت زیادہ فائدہ اٹھایاہے۔امام ؑ کے کچھ نابغہ شاگردوں کا ایک گروہ تھا جنھوں نے مختلف قسم کے علوم میں مختلف کتابیں تالیف کی ہیں ۔محقق کبیر آقا بزرگ (خدا ان کے درجات بلند فرمائے )رقمطراز ہیں کہ امام ؑ کے شاگردوں میں سے دوسو شاگرد مصنف تھے


source : abna24
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

وحی کی حقیقت اور اہمیت
امام خمینی معاصر تاریخ کا مردِ مجاہد
خدا کا غضب کن کے لیۓ
علم کا مقام
انساني اخلاق کي درستي ميں قرآن کا کردار
اہل سنّت بھائیوں کے منابع سے پیغمبر اعظم ﷺکی ...
مياں بيوي کے نازک تعلقات
امام ہادی علیہ السلام اور اعتقادی انحرافات کے ...
راویان حدیث
دماغ کي حيرت انگيز خلقت

 
user comment