مہدویت کی اہم ترین اصولی بحثوں میں سے ایک بحث زمانہ غیبت میں حضرت مہدی (عج) کے شیعوں کی ذمہ داریاں ہےیہ بحث عملی پہلو رکھتی ہے۔ ان فرائض پر عمل کرنے کی صورت میں اسلامی معاشرہ میں ایک عظیم تحول و تبدل ایجاد کیا جا سکتا ہے ۔لوگوں کی گمراہی اور جاہلیت کی موت سے نجات کا سبب بھی ہو سکتا ہے اسی وجہ سے اس کی اہمیت ہے کہ بعض دانشوروں نے اس سلسلہ میں بحث و تالیفات کا ارادہ و اہتمام کیا اور اس کے متعلق متعدد کتابیں تحریر کیں حتی اہل سنت حضرات اگرچہ ولادت حضرت مہدی(عج) اور اس زمانہ میں ان کے زندہ ہونے پر اعتقاد نہیں رکھتے اور ان کا عقیدہ محض یہ ہے کہ مہدی موعود آخری زمانہ میں اپنے ظہور سے پہلے پیدا ہوں گے بغیر اس کے کہ اُن کےلیے کو ئی غیبت ہو جیساکہ شیعہ امامی معتقد ہیں ،لیکن عین اسی حالت میں ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ اہل سنت کے نزدیک معتبر منابع میں بہت سی حدیثیں موجود ہیں کہ جن میں مسلمانوں کے فرائض و وظائف موجود حضرت مہدی ؑکے ظہورسے قبل بیان ہوئے ہیں لہذا یہ وظائف تمام مسلمانوں کے لئے بیان ہوئے ہیں نہ فقط کسی خاص مذہب کے لیے۔
ذیل میں ہم کچھ اہم وظائف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
سب سے بڑا اور اہم وظیفہ کہ جس کی ذمہ داری تمام مؤمنین پر عائد ہوتی ہے امام زمانہ ؑ کی شناخت اور پہچان ہے کیونکہ جب تک امام ؑ کی حقیقی پہچان نہ ہو تو اس وقت تک دوسرے وظائف کو انجام دینا فضول اور بے کار ہو گا ،اگر ہم دوسرے وظائف کو انجام دیتے ہیں لیکن امام ؑ کی پہچان نہ ہو تو اس کی صورت اسی طرح ہے جس طرح کوئی شخص ہدف کے بغیر تیر پھینکتا ہے اور اگر مر گیا تو جاہلیت کی موت مرے گا جیساکہ حدیث شریف میں آیا ہے (من مات ولم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة( ۱) لھذا ہم سب کو چاہیے کہ سب سے پہلے امام ؑ کی شناخت حاصل کریں تاکہ دوسرے اور وظائف اسی شناخت کی بناء پر بطور احسن انجام پائیں ۔اب جس شخص کو جتنی امام ؑ کی شناخت زیادہ ہو وہ اسی طرح دوسرے وظائف کو بھی اچھی طرح درک اور سمجھ سکتا ہے اور ان پر عمل پیرا ہو سکتا ہے یہاں پر ایک نکتہ واضح کرنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ جن لوگوں کو امام ؑ کی شناخت نہیں ہوتی یا ہوتی بھی ہے تو بہت کم اور وہ اپنے آپ کو امام ؑ کا پیروکار سمجھتے ہیں کبھی کبھی وہ ایسے شیطانی پھندوں میں گرفتار ہوجاتے ہیں کہ جن سے نکلنا بہت دشوار ہو جاتا ہے اور پھر یہ سارے لوگ بھٹک جاتے ہیں جب بھی کوئی شخص جھوٹ بول کر امام زمانہ ہونے کا دعوی کرتا ہے تو ایسے لوگ کہ جن کو امام کی حقیقی شناخت نہیں ہوتی ہے وہ اس جھوٹے آدمی کے پیچھے نکلتے ہیں اور اسکی پیروی کرنے لگتے ہیں اور ہر جگہ پر اس قسم کے واقعات کبھی کبھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔اب اگر کسی شخص کو امام زمانہ ؑ کی حقیقی شناخت ہو تو وہ ایسے جھوٹے آدمی کے پیچھے نہیں جائے گا اور اپنے آپ کو جھوٹے دعوی کرنے والے شیطان صفت آدمیوں سے بچاتا رہے گا۔
آج کل کے دور میں صنعتی دنیا اپنی عروج کو پہنچی ہوئی ہے۔مکر و فریب بھی بہت زیادہ اور مختلف قسم کے ہوتے ہیں۔اس صنعتی دور میں اگرانسان ہر چیز کو اچھی طریقہ سے نہ پرکھے اور دل کی آنکھوں سے اس دنیا میں نہ دیکھے تو وہ فریب اور دھوکا کھا سکتا ہے خصوصا جب مسئلہ غیبت کے بارے میں ہو؛ کیونکہ جب تک انسان غیبت امام زمانؑ کو اچھی طرح سے درک نہیں کر سکتا تو اس وقت تک وہ خطرے سے باہر نہیں ہے۔ کبھی بھی کسی جھوٹے دعوی کرنے والے شخص کے دام میں آسکتا ہے لھذا ہم سب کو چاہیے کہ اس آج کل کے پیچیدہ دور میں امام زمانہ ؑ کی شناخت ا س طرح حاصل کریں کہ دھوکا اور فریب نہ کھا ئیں۔اور گمراہ نہ ہو جائیں احادیث میں بھی اس کا اشارہ ہے کہ لوگوں کو امام کی حقیقی شناخت حاصل کرنی چاہیے بلکہ ایک دعا وارد ہوئی جو نماز کے بعد پڑھی جاتی ہے اس دعا میں خدا وند متعال سے یہی درخواست ہے کہ ہمیں امام زمانہ ؑ کی شناخت اور پہنچان حاصل ہو ،اور وہ دعا یہ ہے کہ ((اللهم عرفنی نفسک فانک ان لم تعرفنی نفسک لم اعرف رسولک اللهم عرفنی رسولک فانک ان لم تعرفنی رسولک لم اعرف حجتک اللهم عرفنی حجتک فانک ان لم تعرفنی حجتک ضللت عن دینی))
مؤمنین کا دوسرا وظیفہ یہ ہے کہ وہ اپنے امام زمانہ ؑ کی لوگوں میں شناخت کروائیں۔امام ؑ کا تعارف اور شناخت کروانا بھی ایک بہت بڑا وظیفہ ہے ،امام کے بارے میں لوگوں کو کیسے آگاہ کیا جائے اور کیسے امام ؑ کی حقیقی شناخت ان تک پہنچ جائے اور کیسے ان حقائق کو بیان کیا جائے؟یہ ایک بڑا مسئلہ ہے ہر کوئی آدمی اس وظیفے کو اچھی طرح انجام نہیں دے سکتا ہے؛ مگر یہ کہ پہلے خود اس کو امام کی پہچان ہو،اب اگر کسی شخص کو امام ؑ کی پہنچان نہیں ہے تو وہ امام ؑ کو کیسے لوگوں میں متعارف کرائے گا!؟ یہ ہو نہیں سکتا کہ خود آدمی کسی چیز سے جاہل ہو اور وہ اسی چیز کے بارے میں لوگوں کو تعلیم دے کیونکہ فاقد الشی معطی الشی نہیں ہوتا۔اور اسی طرح اگر کوئی امام ؑ کے بارے میں کامل معلومات نہ رکھتا ہو تو وہ بھی اس وظیفے کو انجام نہیں دے سکتا ہے کیونکہ اس میں انحراف کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے جیسا کہ عام مقولہ ہے کہ نیم ملا خطرہ ایمان اگر کوئی شخص امام ؑ کے بارے میں کامل معلومات نہ رکھتا ہو اور وہ جا کر دوسروں کو اپنے ناقص معلومات بیان کرےتو بہت سے شبھات لوگوں کے ذہنوں میں اُبرب آتے ہیں جس کی وجہ سے معاشرہ انحراف کا شکار ہو جاتاہے لھذا ہم سب پر واجب ہے کہ اپنے امام زمانہ ؑ کے بارے میں کامل اور متقن معلومات حاصل کریں پھر ان کو لوگوں تک پہنچائیں تاکہ معاشرہ انحراف سے بچ جائے۔اگر ہم لوگ اس وظیفے کو انجام دینے میں کامیاب ہو جاتے ہیں تو معاشرے میں جتنے خرافات اور انحرافات وجود میں آچکے ہیں ان کا ازالہ ہو سکتا ہے اور جو لوگ امام زمانہ ؑ کےنام پر جھوٹی دکانیں کھلولتے ہیں،وہ بھی بند ہو سکتی ہے کیونکہ جب عام لوگ ان کی طرف جانا چھوڑ دیں گے تو وہ خود بخود منہدم ہو جائیں گی اور عام لوگ ان انحرافات سے نکل کر غور وفکر کرنے پر مجبور ہو جائیں گے اور معاشرے میں غور و فکر کرنا زیادہ ہو جائے گا نتیجتا معاشرہ اپنے فکری عروج کو پہنچ پائے گا ۔پھر امام ؑ کے ظہور کا زمینہ ہو جائے گا اور یہ بات بھی واضح ہو کہ جب تک معاشرے میں فکری آمادگی نہ ہو تو امام کا ظہور بھی ممکن نہیں ہے آگے چل کر اس نکتہ کیطرف تفصیلی گفتگو ہو گی۔
ایک اور اہم وظیفہ جو بندگان خدا کے کاندہوں پر ہے امام ؑ کے ظہور کے لیے آمادہ ہونا ہے تاکہ حکومت جہانی حضرت مھدی ؑ کی تشکیل ہو پائےیہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ جب تک ظہور کے لیے آمادگی حاصل نہ ہو جائے آنحضرت کا ظہور بھی نہیں ہو گا اور حکومت جہانی وجود میں نہیں آئیگی،کیونکہ آمادگی کے بغیر ظہور کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا ہم لوگ جس قدر بھی امیدوار ہوں پھر بھی تاریخ کے اس مرحلے تک نہیں پہنچ پائیں گے جہاں پر ظلم و ستم ،طبقاتی نایم،استعمارگری اور سپر پاور حکومتیں ختم ہو جائیں گی مگر یہ کہ ہم لوگ اپنے آپ کو ظہور کے لئے حقیقی طور پر آمادہ کریں۔اگر ہم لوگ ظہور کے لیے آمادہ ہو جائیں تو پھر ظہور ہو گا، اور عالم استکبار و ظلم و ستم کا خاتمہ بھی ضرور ہو گا۔ ہم لوگ عقیدہ رکھتے ہیں کہ حضرت مھدی ؑ کی حکومت جہانی ہو گی ۔ اس کے لیے ہمیں اسی طرح آمادگی بھی کرنی چاہیے ۔ یہ آمادگی مختلف پہلووں سے ہو سکتی ہے:
فکری اور ثقافتی آمادگی کا معنی یہ ہے کہ لوگوں کی فکر بلند ہو جائے ۔ خود ان کو یہ سمجھ میں آنا چاہیے کہ قوم پرستی ،ملی گرائی ، انسان کی زندگی میں کوئی اہمیت نہیں رکھتی ۔ رنگ و زبان میں اختلاف ہونا انسان کی قدر و قیمت میں کوئی دخالت نہیں رکھتا ۔لوگوں کی فکر اتنی بلند ہونی چاہیے کہ قومی تعصب ،قبیلگی برتری طلبی کو دور پھینکے ان کی فکر ایسی ہو کہ ان کو معلوم ہو جائے کہ بڑی بڑی دیواریں انسانوں کو الگ نہیں کر سکتی ہیں بلکہ سب لوگ امت واحد ہیں لوگوں کی فکر ایسی ہو نی چاہیے کہ جس سے وہ حکومت جہانی کے بارے میں سوچتے ہوں جب ایسی فکر پیدا ہو جائے تو پھر امام ؑ کے ظہور کے بارے میں توقع رکھ سکتے ہیں لیکن اگر قوم پرستی،تعصب قبیلگی،برتری طلبی لوگوں کے ذہنوں سے باہر نہ نکلی تو ظہور کے بارے میں بھی کچھ توقع رکھنا بے جا ہو گا۔
اجتماعی آمادگی سے مراد یہ ہے کہ اس دنیا میں لوگ ظلم و ستم ،نظام شہنشاہی اور ڈیکٹیٹر شپ سے تنگ آ جائیں اور مادی زندگی کی کھٹن بھی احساس کریں حتی یہاں تک کہ ان کو معلوم ہو جانا چاہیے کہ مادی زندگی انسان کی آئندہ کی مشکلات کو حل نہیں کر سکتی اورآج کل کے سیاسی نظام سے مایوس ہونا چاہیے کہ یہ آج کل کا جاگیردارانہ نظام ان کی فلاح کے لیے نہیں بلکہ ان کی مشکلات کو ہی زیادہ کردے گا نہ کم،لوگوں کو یہ ذہن میں رکھنا چاہیے کہ صنعتی دور اور جدید قوانین کے سایہ میں صلح،آسائش طلبی اور امنیت وجود میں نہیں آتی بلکہ دونوں مادی و معنوی زندگی اس صنعتی ظالمانہ اورتبعیضانہ قوانین کی وجہ سے مسمار ہو گی آج کل کے حالات کو دیکھ کر انسان کو مایوس ہو جانا چاہیے اور غور و فکر کرنا چاہیے کہ ایک جہانی انقلاب کی ضرورت ہے جس کے لیے انسان کو آمادہ رہنا چاہیے۔
بعض لوگوں کی سوچ یہ ہے کہ تکامل اور دنیا میں صلح وعدالت اس وقت بر قرار ہو گی جب جدید ٹکنارلوجی کا زوال امکان پذیر ہو حالانکہ مسئلہ اس کے بر عکس ہے یعنی جدید ٹکنالوجی عالمی عادلانہ حکومت کے تضاد میں نہیں ہے اور اس کے ساتھ کوئی ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ عالمی عادلانہ نظام تک پہنچنے کے لیے جدید ٹکنالوجی ناگزیر ہے اور اس ٹکنالوجی کے بغیر ایسے بہت بڑے ہدف کو حاصل کرنا محال ہے کیونکہ عالمی نظام کو کنڑول کرنے کے لیے ایسے جدید وسائل کی ضرورت ہے جو آج کل کے وسائل سے بالا تر ہو اور جن کے ذریعہ سے پوری دنیا کی ایک قلیل وقت میں سیر کی جا سکے، اور دنیا کے تمام حادثات سے بہت جلدی با خبر ہو جائے۔ عالمی حکومت میں ایک طرف سے لیکر اس کے دوسرے طرف پیغام لے جانا عام وسائل سے میسر نہ ہو گا بلکہ ایسے وسائل ہونے چاہیے کہ جن کے ذریعہ سے منٹوں بلکہ سیکنڈوں میں پیغام پہنچایا جائے۔
اگر قدیم طرح کی زندگی ظہور کے لیے در کار ہے تو پھر عالمی حکومت میں پیغامات کا تبادلہ کیسے ہو سکتا ہے (در حالیکہ معجزہ در کار نہیں ہے) پھر کیسے عالمی حکومت کی تشکیل ہو گی اور کیسے عدالت پوری دنیا میں بر قرار ہو گی جب جدید ٹکنالوجی کا انکار کرے، اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید ٹکنالوجی کے ذریعہ ہی عالمی عادلانہ حکومت اور صلح جہانی بر قرار ہو سکتی ہے لھذا ہم سب لوگوں کا وظیفہ ہے کہ جدید ٹکنالوجی کو وجود میں لایا جائے اور اس پر کامل عبور حاصل ہونا چاہیے تا کہ کامل طور پر ظہور کے لیے آمادگی ہو سکے۔ وہ لوگ جو جدید ٹکناےلوجی کو ظہور کے لیے ضروری نہیں سمجھتے گویا وہ عالمی عادلانہ حکومت کا مفہوم ہی نہیں سمجھتے بلکہ اس کو ایک چھوٹی سے جغرافیائی حکومت کے ساتھ ذہن میں لا کر موازنہ کرتے ہیں لھذا جب تک اس قسم کی آمادگی پوری دنیا میں وجود میں نہ آئے ظہور بھی نہ ہو گا کیونکہ ایسی آمادگی کے بغیر جوعالمی عادلانہ حکومت و صلح جہانی کے لیے اشد ضروری ہو کیسے امام کا ظہور ہو گا!؟
اور وظیفہ جو مؤمنین پر عائد ہوتا ہے انتظار فرج ہے ۔کچھ لوگ لفظ انتا؟ر سے غلط معنی لیتے ہیں اور انتظار کو ایک ایسی حالت تصور کرتے ہیں کہ جس میں انسان بیٹھ کر یہ سوچتا ہے کہ فلانی مثلا کب آئے گا در حالیکہ انتظار کسی حالت کا نام نہیں ہے بلکہ انتظار ایک عمل ہے کہ حدیث شریف میں ایسے ہی معنی میں استعمال ہو اہے (( افضل الاعمال انتظار الفرج)) ؛ یعنی افضل ترین اعمال انتظار فرج ہے البتہ انتظار کا ہمیشہ ایک مقدمہ ہو تا ہے اگر وہ مقدمہ فراہم ہو تو لفظ انتظار صدق کرتا ہے اور اگر یہ مقدمہ فراہم نہ ہو تو لفظ انتظار صدق نہیں کرتا ،فرض کریں ایک کسان جب ایک خاص وقت میں زمین میں بیج بوتا ہے اور اس کے بعد اس کی آبیاری بھی اپنے وقت پر کرتا ہے خلاصتا سب وہ کام اس کی کاشت کے لیے انجام دیتا ہے جو اس کے لئے لازمی ہو پھر اس کے بعد اس انتظار میں رہتا ہے کہ کب اس کی فصل پک جائے تا کہ کاٹ کر اس سے استفادہ کرے یہاں پر اس کسان کا انتطار کرنا بجا ہے اس کے بر عکس اگر کوئی شخص مقدمہ کو انجام نہیں دیتا اور انتطار کرتا ہے تو یہ انتظار بے جا ہو گا در واقع یہ انتظار نہیں بلکہ ایک فریب کاری ہے یا خود کو فریب میں ڈالتا ہے، یا دوسروں کو فریب دیتا ہے لھذا ہم اس شخص کو منتظر کہیں گے جو اس انتظار کا مقدمہ اچھی طرح انجام دے چکا ہو اورپھر لفظ انتظار بھی اس وقت صدق کرتا ہے لیکن اگر کوئی شخص مقدمے کے بغیر انتظار کرتا ہے تو یہ در واقع انتطار نہیں بلکہ فریب کاری ہے لہذا ہم سب کا یہ فریضہ ہے کہ پہلے انتظار کے اسباب کو آمادہ کریں پھر یہ انتظار بجا ہو گا انسان کو چاہیے کہ اپنے آپ کو پورے طریقےسے ظہور کے لیے آمادہ کرے اورجب آمادہ ہو جائےتو پھر انتظار معنی رکھتا ہے ۔ انتظار اس وقت افضل الاعمال میں سے شمار ہوگا جب یہ اسباب اچھی طرح سے آمادہ ہوں ورنہ افضل الاعمال شمار نہیں ہو گا۔
ہر مؤمن کا وظیفہ ہے کہ وہ امام زمانہ ؑ کی تعجیل کے لیے دعا کرے ۔حقیقی مؤمن وہ ہے جو ہر صبح وشام ہر نماز کے بعد تعجیل امام ؑ کے لیے دعا کرے۔ البتہ دعاء ؛ سے مراد یہ نہیں کہ فقط زبان سے الفاظ بیان کرے؛ بلکہ زبان کےساتھ ساتھ دل و جان سے تعجیل ظہور امام زمانہ ؑ کے لیے دعا کرے۔
امام کے ماننے والوں کا ایک وظیفہ یہ بھی ہے کہ امام زمانہ ؑ کی سلامتی کےلیے دعا کریں کہ وہ حضرت تمام ایسی مصیبتوں اور بلاوں سے محفوظ رہیں کہ جو ان کے لئے خطرہ کا باعث ہوں اور بہتر ہے کہ ایسی دعا پڑھے جو احادیث کی کتابوں میں وارد ہوئی ہو مثلا اللھم کن لولیک الحجۃ بن الحسن۔
ایک اور وظیفہ جو ہم پر عائد ہوتاہے کہ امام زمانہ ؑ کے حقوق کو بطور احسن ادا کرنا ہے اور اس میں کسی قسم کی سستی یا کوتاہی نہیں کرنی چاہیے مثال کے طور پر خمس کا ادا کرنا جو حقوق مالی میں سے ہے ہر وہ شخص جس پر خمس واجب ہو جاتا ہے اسے چاہیے اسکی ادائیگی میں کوتاہی نہ کرے اور یہ ایک ایسا حق ہے جو فروع دین میں سے شمار ہوتا ہے ۔
ایک اور اہم ترین وظیفہ جو مؤمنوں پر عائد ہوتا ہے عصر غیبت میں امام (عج) کے نائب کی اطاعت اورپیروی کرنا ہے ۔ عصر غیبت میں یہ عہدہ ایسے مجتہد فقیہ کے پاس ہوتا ہے جو خواہشات نفسانی سے پاک ہو ،اخلاق اور عمل میں نمونہ ہو کیونکہ ایک ایسا فاسد العقیدہ فرد جو بد اخلاق اور بد کردار ہو امام کا نائب نہیں بن سکتا ہے۔
مؤمن شخص کو چاہیے کہ ہر مصیبت اور گرفتاری میں اپنے امام زمانہ ؑ کو وسیلہ قرار دے تا خداوند متعال اسکی گرفتاری اور مصیبتوں کو دور کرے اگرچہ تمام ائمہ ؑ سے توسل کرنا صحیح ہے لیکن قاعدہ کے مطابق جو کام انجام دیا جائے یا کوئی مشکل حل ہو جائے امام زمانہ ؑکی زیر نگرانی میں ہو گا۔
اس کے علاوہ امام زمانہ ؑ کی زیارت پڑھنا اور ان کے فضائل کو ذکر کرنا ،اظہار حزن کرنا، اظہار محبت ،ادب و احترام کا خاص خیال کرنا وغیرہ ہماری ذمہ داریوں میں سے ہے جو ہمیں اچھی طرح سے انجام دینی چاہیے۔
source : alhassanain