علوم قرآن کو دو حصّوں ميں تقسيم کياجاتا ہے:
اولاً- وہ علوم جو قرآن سے ماخوذ ہيں اور جنہيں آياتِ قرآن ميں تحقيق اور جستجوسے حاصل کيا جاتا ہے انہيں ”علوم في القرآن" کہتے ہيں-
ثانياً- وہ علوم جنہيں فہم القرآن کے لئے مقدمہ کے طور پر سيکھا جاتا ہے انہيں علوم لِلْقُرآن کہتے ہيں-
علوم في القرآن :
قاضي ابو بکر بن عربي نے ”قانون التَاويل” ميں قرآن سے ماخوذ علوم کو تين حصوں ميں تقسيم کيا ہے
(1) توحيد
(2) تذ کير
(3) احکام
اس کتاب ميں مخلوقات سے آگاہي- اسماء صفات اور خالق سے آشنائي کو علم توحيد قرار ديا گيا ہے- بہشت کا وعدہ اور دوزخ کي وعيد کو علم تزکيراور تمام مباح امور، يعني شرعي احکام اور اُن کے نفع و نقصانات کے بيان کو علم احکام محسوب کيا گيا ہے- کتاب ميں علم توحيد کے لئے اس آيت کو بطور مثال پيش کيا گيا ہے ” وَاِلٰہُکم اِلٰہ وَّاحِد’‘" اس ميں توحيدِذات افعال اور صفات پوشيدہ ہيںعلم تИير کے لئے ” وَ ذَ کّرِ’ فَانِّ الذِّکريٰ تنفع المومنين” کي مثال دي گئي ہے اور تيسرے علم لئے ”وَاَنٍ اَحْکُمْ بينھم”کو شاہد کے طور پر لايا گيا ہے- مصنف کہتے ہيں کہ فاتحتہ الکتاب کو اسي لئے ”امّ الکتاب" کہا جاتاہے کہ اس ميں تينوں اقسام توحيد،تذ کير، اور احکام کا ذ کر موجود ہے-
مثلاًسورہ کي ابتدا سے لے کر يوم الّدين تک توحيد ہے” اِيّاکَ نَعبدُ وَاياکَ نَسْتَعِين” عبوديت اور احکام ميں اطاعت سے متعلق ہے-
” اِھدِناَالصِّراطَ المُستَقيِم"سے ليکر آخر تک ميں تذ کير کا ذ کر ہے-
اَبُوالْحَکَمْ اِبْنِ برّجان ” ارشاد” ميں تحرير کرتے ہيں سارا قرآن تين علوم پر مشتمل ہے اسماء اللہ اور اس کي صفات کا علم، نبّوت اور اس کے استدلال و براھين کا علم، علم تکليف (شرعي احکامات)
محمد بن جرير طبري کہتے ہيں:
قرآن تين علوم پر مشتمل ہے توحيد،اخبار اور ديانات اسي لئے پيغمبر خدا نے فرمايا ہے ” قُل ھُواَاللہُ اَحَدْ" قرآن کے برابر ہے چونکہ يہ سورت سراسر توحيد ہے-
source : tebyan