لوگوں کے افکار و عقائد میں نفوذ کرنے کے لیے مساعد حالات کی ضرورت ہوتی ہے اور افکار کے نفوذ اور تخریب کاری کے لیے شکست اور مصیبتوں میں مبتلا ہونے والے زمانہ جیسا مناسب اور کوئی زمانہ نہیں ہے موقع کی تلاش میں رہنے والے دشمن نے اس اصل پر تکیہ کرتے ہوئے شکست کے آخری لمحات کو اپنے عقائد کی نشر و اشاعت کے لیے غنیمت سمجھا اور اسلام مخالف نعروں کے ذریعہ سادہ لوح افراد کو دھوکہ دینے اور انہیں متاثر کرنے کی کوشش کی۔ اس لیے کہ یہ ایسا موقع ہے جب غلط پروپیگنڈہ نہایت آسانی کے ساتھ شکست خوردہ قوم کے دلوں میں اثر کرسکتا ہے۔
ابوسفیان اور عکرمہ بن ابی جہل نے ”اعل ھبل“ ھبل سرفراز رہے کا نعرہ بلند کیا۔ یعنی ہمارے بتوں نے ہم کو کامیاب کیا۔
رسول خدا نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ تم کہو ”اللہ اعلیٰ واجل“ خدا برتر اور بزرگ ہے۔ مشرکین کے نعرے بدل گئے ابوسفیان نے چلانا شروع کیا ”نحن لنا العزی ولاعزی لکم“ ہمارے پاس عزیٰ نامی بت ہے۔ لیکن تمہارے پاس نہیں ہے۔ رسول خدا نے فرمایا کہ تم بھی بلند آوا سے کہو ”اللہ مولانا و لامولیٰ لکم“ اللہ ہمامرا مولا ہے اور تمہارا کوئی مولا نہیں ہے۔
مشرکین کا نعرہ دوبارہ بدل گیا ابوسفیان نے نعرہ بلند کیا کہ: یہ دن روز بدر کا بدل ہے“ مسلمانوں نے پیغمبر کے حکم سے کہا کہ یہ دونوں دن آپس میں برابر نہیں ہیں۔ ہمارے مقتولین بہشت میں اور تمہارے مقتولین جہنم میں ہیں۔ ابوسفیان نے کہا کہ: ہمارا اور تمہارا آئندہ سال مقام بدر میں وعدہ رہا ۔
(بحارالانوارج۲۰ ص۲۴)
کہاں جا رہے ہو؟
جنگ کی آگ بجھ گئی، دونوں لشکر ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔ مشرکین کے لشکر نے کوچ کا ارادہ کیا پیغمبر سوچنے لگے، دیکھیں یہ لوگ کہاں جاتے ہیں؟ آیا یہ لوگ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مدینہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں یا مکہ کا راستہ اختیار کرتے ہیں؟ موضوع واضح ہونے کے لیے رسول خدا نے علی علیہ السلام سے فرمایا کہ:
حضرت عی دور سے دشمن کی تاک میں تے اور دیکھ رہے تے کہ وہ اونٹوں پر سوار ہوگئے۔ اور اپنے دیار کی طرف پلٹ جانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
(بحارالانوار ج۲۰ ص۹۷)
source : tebyan