پانچ ذی الحجہ سنہ ۳ ہجری ق، مطابق ۱۵ خرداد سنہ ۳ ہجری ش، بدر کی لڑائی کی ذلت آمیز شکست کے بعد ابوسفیان نے یہ نذر کی کہ جب تک میں محمد سے جنگ نہیں کرلیتا اور بدر کا انتقام نہیں لے لیتا اس وقت تک عورتوں کے پاس نہیں جاؤں گا۔ لہٰذا اس نے قبیلہ، قریش کے دو سو، سواروں کو جمع کرکے مدینہ کی جانب کوچ کیا۔
چونکہ دو سو، سواروں کے ساتھ مدینہ پر حملہ کرنے کی جرأت نہیں تھی اس لیے شہر سے دور اس نے لشکر روکا اور تاریکی شب سے فائدہ اٹھا کر ”سلام بن مشکم“ کے پاس پہنچا جو کہ بنی نضیر کا ایک بڑا آدمی تھا۔ اس نے ابو سفیان کو مسلمانوں کے دفاعی مقامات کی کمزوری سے آگاہ کیا۔
ابو سفیان اپنے لشکر گاہ کی طرف پلٹ آیا اور وہ اپنے کچھ سپاہیوں کے ساتھ حملہ کرتے ہوئے مدینہ کی طرف بڑھا اور ”عریض“ نامی جگہ کو لوٹ لیا، دو گھروں، چار درختوں اور کھیتوں میں آگ لگا دی اور نخلستان میں کام کرنے والے مسلمانوں کو قتل کر دیا۔
جب دشمنوں کے تجاوز کی خبر پیغمبر کو پہنچی تو آپ نے بغیر تاخیر کے ”ابولبابہ“ کو اپنی جانشینی میں مدینہ میں چھوڑا اور مہاجرین و انصارف میں سے دو سو آدمیوں کا لشکر لے کر دشمن کے تعاقب میں نکل پڑے رسول خدا نے ”قرقرة الکدر“ تک دشمن کا پیچھا کیا لیکن دشمن فرار ہو چکا تھا اور بھاگتے ہوئے ”سویق“ کے تھیلے کو گراں باری سے بچنے کے لیے راستہ ہی میں پھینک گیا تھا۔ اس وجہ سے یہ غزوہ، غزوہ سویق کے نام سے مشہور ہوا۔(مغازی ج۱ ص ۱۸۱)
source : tebyan