بدر کی زبردست لڑائی نے اس علاقہ کے جنگی توازن کو مسلمانوں کے نفع میں بدل دیا۔ اس جنگ کے بعد منافقین اور یہودی مسلمانوں کی اس فتح مبین پر رشک کرنے لگے اس لیے کہ وہ مسلمانوں کی ترقی سے سخت خائف تھے۔ انہوں نے جو معاہدے رسول خدا سے کر رکھے تھے اس کے برخلاف مسلمانوں اور اسلام کو بدگوئی اور دشنام طرازی کا نشانہ بنایا اور مگر مچھ کے آنسو بہاتے ہوئے قریش کو مسلمانوں سے انتقام لینے کے لیے بھڑکانے لگے۔ ان کے شعراء نے اپنے ہجویہ قصیدے میں مسلمان عورتوں کے وصف کو کفار کے لیے بیان کرکے مسلمانوں کے ناموس کی زبردست اہانت کی۔
رسول خدا نے ”مفسدین فی الارض“ (زمین پر فساد پھیلانے والوں) کے لیے قتل کا حکم صادر فرمایا اور وہ لوگ قتل کر دیئے گئے۔
(طبقات ابن سعد ج۲ ص ۲۷،۲۸)
پیغمبر اکرم بخوبی جانتے تھے کہ یہودی، آئندہ انتقامی جنگ میں مدینہ سے باہر کے دشمنوں کے لیے راستہ ہموار کریں گے اور اسلام پر پس پشت سے خنجر کا وار کریں گے۔ اس لیے آپ اس مشکل سے بچنے کے لیے راستہ ڈھونڈتے رہے اور سیاسی و دفاعی طاقت کو زیادہ سے زیادہ مضبوط کرنے کی کوشش فرماتے رہے۔
مدینہ کے یہودیوں میں بنی قینقاع کے یہودیوں نے سب سے بڑھ چڑھ کر پیغمبر کے خلاف پروپیگنڈہ کی سرد جنگ چھیڑ رکھی تھی اور انہوں نے توہین آمیز اور ضرر رساں نعرے بلند کرکے عملی طور پر اپنے عہد و پیمان کو توڑ دیا تھا۔
رسول خدا نے ان پر حجت تمام کرنے کی غرض سے بازار بنی قینقاع کے بڑے مجمع میں اپنی تقریر میں ان کو نصیحت کی اور اس عمومی معاہدے پر کاربند رہنے کی تاکید فرمائی جو طرفین کے درمیان ہوا تھا اور فرمایا کہ ”قریش کی سرگذشت سے عبرت حاصل کرو اس لیے کہ مجھ کو یہ خوف ہے کہ جس سیلاب بلانے قریش کو اپنی لپیٹ میں لے یا تھا اس سے تم بھی محفوظ نہیں رہ سکو گے۔ لیکن پیغمبر کی نصیحتیں یہودیوں کیل یے بے اثر تھیں انہوں نے گستاخانہ انداز میں کہا کہ ”اے محمد آپ نے ہمیں قریش سمجھ رکھا ہے؟ ناتجربہ کاروں سے جنگ میں کامیابی کے بعد آپ مغرور ہو گئے ہیں (معاذ اللہ) خدا کی قسم! اگر ہم جنگ کے لیے اٹھے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم مرد میدان ہیں یا کوئی اور؟
رسول خدا ان تمام گستاخیوں اور جسارتوں کے باوجود اپنے غصہ کو پی گئے اور ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا مسلمانوں نے بھی بردباری سے کام لیا تاکہ وہ دیکھیں کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے؟
ابھی چند دن بھی نہ گزرے تھے کہ فتنہ کی آگ بھڑک اٹھی۔ ایک مسلمان عورت بنی قینقاع کے بازار میں گئی، کچھ زیورات خریدنے کی غرض سے ایک سنار کی دکان کے سامنے بیٹھ گئی، یہودیوں نے چاہا کہ اس کا چہرہ کھول دیں، لیکن عورت نے انکار کیا، ایک یہودی نے اس عورت کی لاعلمی میں اس کے کپڑے کے کنارہ کو ”آہستہ سے “ اس کی پشت پر باندھ دیا، جب وہ عورت کھڑی ہوئی تو اس کا جسم عریاں ہوگیا تمام یہودی ہنسنے لگے، عورت نے فریاد شروع کی اور مسلمانوں کو مدد کے لیے پکارا ایک مسلمان نے اس یہودی کو جس نے یہ حرکت کی تھی قتل کر ڈالا، یہودیوں نے بھی حملہ کرکے اس مسلمان کو قتل کر ڈالا۔
مسلمان خون کا انتقام لینے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور بات بڑھ گئی بنی قینقاع کے یہودیوں نے دکانیں بند کردیں اور اپنے قلعوں میں چھپ گئے۔
رسول خدا نے ”ابولبابہ“ کو اپنی جگہ معین فرمایا، اور انہوں نے لشکر اسلام کے ہمراہ ۱۵ شوال بروز شنبہ سنہ ۲ ہجری (بدر کے ۸ دن بعد) بنی قینقاع کے قلعہ کا محاصرہ کیا۔ یہ محاصرہ پندرہ روز تک جاری رہا۔ یہاں تک کہ یہودیوں نے تنگ آکر اپنے آپ کو مسلمانوں کے حوالہ کر دیا۔ رسول خدا نے منافقین کے لیڈر ”عبداللہ بن ابی“ کے بڑے اصرار اور سماجت کی وجہ سے ان کے قتل سے درگذر کیا اور ان کو شام کے مقام ”اذراعات“ میں شہر بدر کر دیا، ان کے اموال کو مسلمانوں کے لیے مالِ غنیمت قرار دیا اور خمس نکالنے کے بعد مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیا۔
(حوالہ سابق ج۲ ص ۲۷)
source : tebyan