شیخ نمر باقر النمر (پیدائش ۱۹۵۹، شہادت ۲ جنوری ۲۰۱۶) ایک شیعہ عالم دین تھے جو سعودی عرب کی شیعہ بستیوں میں کی جا رہی بے انصافی پر اعتراض کرنے کے جرم میں ۲۰۱۲ کو اس ملک کے حکومتی کارندوں کے ہاتھوں گرفتار ہوئے اور ۱۵ اکتوبر ۲۰۱۴ کو سعودی عدالت میں قومی سلامتی کے خلاف اقدام کے جرم میں انہیں ’’ تلوار سے قتل اور مجمع عام میں پھانسی پر لٹکائے جانے کا حکم‘‘ سنایا اور آخر کار ۲ جنوری ۲۰۱۶ کو آیت اللہ شیخ نمر کو سزائے موت دے دی گئی۔ سعودی حکومت کے اس ناجائز اور انسانی اقدام پر علاقائی اور بین الاقوامی سطح پر شدید رد عمل سامنے آیا۔
شیخ نمر کے حوالے سے ریاض کا نقطہ نظر سب سے پہلے اس وقت سامنے آیا جب مئی ۲۰۰۶ میں انہیں قرآن کریم کے موضوع پر منعقدہ ایک بین الاقوامی کانفرنس میں شرکت کی بنا پر پہلی مرتبہ گرفتار کیا گیا، اور پھر دوسری مرتبہ ۲۳ اگست ۲۰۰۸ کو ان الزامات کی بنا پر گرفتار کیا گیا کہ انہوں نے سعودی حکومت سے جنت البقیع کی تعمیر نو کا مطالبہ کیا، شیعہ مذہب کو اس ملک میں رسمیت دینے کی مانگ کی یا حتی سعودی عرب کے اسکولوں میں پڑھائے جانے والے نصاب میں تبدیلی یا اصلاح کا مطالبہ کیا۔ مذکورہ مطالبات کا دھشتگرد ٹولے القاعدہ اور دیگر تشدد پسندانہ گروہوں کے اقدامات سے کیا کوئی تعلق ہے؟
شیخ نمر نے ایران اور شام میں دینی تعلیم حاصل کی اور جب ایران میں تھے تو حوزہ علمیہ قم میں مصروف تعلیم رہے اور اس کے بعد دینی کتابیں جیسے ’’اللمعۃ الدمشقیہ‘‘ ، ’’جامع المدارک‘‘، ’’مستمسک عروۃ الوثقیٰ‘‘ اور شہید باقر الصدر کی کتاب ’’الحلقات‘‘ کی تدریس کرتے رہے۔ کیا ایسے میں ان کے اندر شدت پسندی اور انتہا پسندی کی کوئی علامت تلاش کی جا سکتی ہے؟ یا جو شیخ نمر نے ’’اسلامی مرکز‘‘ کی بنیاد ڈالی یہ حجاز پر حاکم حکومت کی مخالفت کی دلیل ہے یا سعودی عرب میں شیعہ جوانوں کو دینی تعلیم دینا ان کے دھشتگرد ہونے کی علامت ہے؟ کیا سچ میں سعودی عرب میں وہابیت کی تعلیم کے علاوہ کسی دوسرے مذہب کی تعلیم ممنوع ہے؟
اگر چہ سیاسی دنیا میں دھشتگرد اور دھشتگردی کی کوئی مشترکہ تعریف نہیں پائی جاتی لیکن کچھ ایسی عمومی علامتیں ضرور پائی جاتی ہیں جن سے دھشتگرد ٹولیوں کو چاہے وہ کسی بھی آئیڈیالوجی اور طرز تفکر کے مالک ہوں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ دھشتگرد ٹولیوں کی سب سے پہلی علامت تشدد ہے۔ انتہا پسند اقدامات کے ذریعے اپنے مقاصد کو حاصل کرنا، تمام دھشتگرد گروہوں کی مشترکہ خاصیت ہے۔ مطلق العنانیت، دھونس دھاندلی اور تنگ نظری دھشتگردوں کی دوسری علامت ہے۔ اسی طرح دھشتگردوں کا منطقی گفتگواور حکیمانہ وعقلمندانہ اقدامات سے کوئی واسطہ نہیں ہوتا۔ یہ وہ خاصتیں ہیں جو تمام دھشتگردوں میں مطلقا طور پر پائی جاتی ہیں۔ ان خصوصیات کے پیش نظر کیا شیخ نمر کو دھشتگرد کہا جا سکتا ہے؟ کیا القاعدہ کے طرز تفکر اور کردار کی ذرہ سی شباہت شیخ نمر کے کردار اور افکار میں پائی جاتی ہے؟ کیا ایسے بے بنیاد الزامات کہ شیخ نمر تکفیری افکار رکھتے تھے وہ ایک دھشتگرد انسان تھے، وہ ملک میں بدامنی پیدا کرنے کے لیے جوانوں کو مشتعل کرتے تھے کی بنا پر انہیں القاعدہ جیسے دھشتگردوں کی صف میں لاکر کھڑا کرنا اور آل سعود کے خاندان کی سرنگونی کے لیے جد و جہد کے الزام کو ان کے سر پر تھونپ دینا انصاف ہے؟
شیخ نمر کی کون سی بات اور کون سا بیان کتاب اور سنت کے مخالف ہے؟ کیا شیخ نمر کے مقام کو گرا کر القاعدہ کی صف میں لا کر کھڑا کر دینا اور دھشتگردوں کی فہرست میں ان کا نام شامل کرلینا ان کے قرآن و سنت کے مخالف ہونے پر محکم دلیل ہے؟ کیا ریاض کی نگاہ میں شیخ نمر کا اپنے شہری حقوق کا مطالبہ، آمرانہ بادشاہی ڈھانچے کی مخالفت اور انسانی حقوق کی مانگ، ملک کے اندر بدامنی پھیلانے کے لیے جوانوں کو مشتعل کرنے کے مترادف ہے؟
اس درمیان اگر چہ شیخ نمر نے سعودی عرب میں بسنے والے شیعوں کی ترجمانی کرتے ہوئے ان کے پامال شدہ حقوق کی بازیابی کے لیے صدائے احتجاج بلند کی اور بار بار شیعوں کو ناجائز حملوں کا نشانہ بنائے جانے کی وجہ سے سعودی حکومت پر اعتراض کیا اور بسااوقات اپنی تقریروں میں الشرقیہ، الاحساء اور القطیف کی شیعہ بستیوں میں پھوٹ ڈالنے والے حکومتی پروپیگنڈوں کو ناکام بنایا حکومت کی جانب سے ان بستیوں میں برتے جانے امتیازی سلوک پر آل سعود کو ملزم ٹھہرایا، (مشرقی شیعہ سعودی حکومت کی نگاہ میں دوسرے درجے کے شہری ہیں اور ہر طرح کے شہری حقوق سے محروم ہیں) لیکن سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی بناوٹ پر تنقید کرنا دھشتگردی کے مترادف ہے؟ اگر ایسا ہے تو پھر اسلامی ممالک میں مذہبی اقلیتیوں اور شہریوں کے حقوق کی جگہ کہاں ہے؟ ریاض کی یہ کوشش ہے کہ وہ فضلہ خور ذرائع ابلاغ کو اپنے حق میں استعمال کرے اور سیاسی میدان میں یہ دعوے کا ثبوت پیش کرے کہ شیخ نمر کے طرفدار ہمیشہ مسلح رہے ہیں، ان پر دھشتگردانہ اقدامات کا الزام لگائے اور یہ ثابت کرے کہ وہ بھی دیگر دھشتگردوں کی طرح ایک خطرناک انسان تھے اور ان کے لیے سزائے موت کا حکم عدالت کا بہترین فیصلہ تھا۔ لیکن حقیقت اس کے برخلاف ہے شیخ نمر بالکل تشدد اور فرقہ واریت کے حامی نہیں تھے۔ شیخ نمر کی نگاہ میں فرقہ واریت، مذہبی اختلافات اور شیعوں اور سنیوں میں بٹوارا ایک غلط کام تھا جبکہ آل سعود مذہبی، قومی اور قبائلی تفرقہ کی بنیاد پر حجاز میں حکومت کرنا چاہتی ہے!۔
شیخ نمر اپنی رفتار و گفتار سے سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک میں انتخابات کے حامی تھے اور یہ چیز شہری حقوق اور بین الاقوامی معیارات کی نگاہ میں نہ صرف ملکی سالمیت کو ٹھیس نہیں پہنچاتی بلکہ آمرانہ مملکتوں میں انسانی حقوق کا دفاع کرتی ہے۔
شیخ نمر پر لگائے گئے الزامات میں یوں آیا ہے: ۴ مارچ ۲۰۱۵ کو عدالت نے اپنے فیصلے میں تجدید نظر کرتے ہوئے شیخ نمر کو‘‘ اسلحہ اٹھانے، قبائلی اختلافات کو ہوا دینے اور ولی امر کی اطاعت نہ کرنے ‘‘ کے جرم میں سزائے موت کا حکم سنایا ہے۔ عدالت کے فیصلے سے معلوم ہوتا ہے کہ ریاض نے شیخ نمر پر قبائلی اور مذہبی اختلافات اور شیعہ سنی تفرقہ پیدا کرنے کا الزام لگایا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ شیخ نمر حکومت کی سرنگونی کے لیے جد و جہد کر رہے تھے جو ولی امر کی اطاعت کی مخالفت ہے اس بنا پر انہیں سزائے موت دینا شرعی اور الہی حکم ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا شیخ نمر کی موت عالم اسلام میں پائے جانے والے اختلافات کو مٹانے کی راہ میں مثمر ثمر ثابت ہوئی؟ کیا جب سعودی حکومت نے شیخ نمر کو تختہ دار پر لٹکایا تو اس وقت حجاز یا بالخصوص اس ملک کا شیعہ نشین مشرقی علاقہ شیعہ سنی بدامنی میں غرق تھا؟ کیا موجودہ دھشتگرد ٹولے جیسے داعش وغیرہ شیعوں کے تعلیمی مراکز میں تربیت پاتے ہیں اور شیخ نمر جیسی شخصیات کی تعلیمات سے متاثر ہوتے ہیں؟ کیا سزائے موت کے اس اقدام کے بعد عالم اسلام کے شیعہ و سنی علمائے دین کا رد عمل، اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ خود آل سعود عالم اسلام میں فرقہ واریت کی آگ بھڑکا رہی ہے۔ کیا مغربی ممالک، انسانی حقوق کی تنظیموں اور دنیا بھر کے روشن فکر اور صلح پسند لوگوں کے ذریعے سعودی حکومت کے اس قدام کی مذمت کیا جانا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ شیخ نمر ایک دھشتگرد انسان نہیں تھے؟ کیا عالم اسلام میں شیخ نمر کو پھانسی دئیے جانے کے نتائج منفی ظاہر نہیں ہوئے؟
ریاض نے ملکی، علاقائی اور بین الاقوامی حالات کا جائزہ لینے کے بعد موجودہ حالات کو شیخ نمر کی پھانسی کے لیے بہترین موقع قرار دیا۔ ریاض نے ان مفروضات کا جائزہ لیتے ہوئے شیخ نمر کو تختہ پر لٹکایا کہ مثلا وہ اس اقدام سے خود کو ایران کے مد مقابل ایک طاقتور ملک کے طور پر نمایاں کر سکتا ہے، سعودی عرب پر لگائے جانے والے دھشتگرد ٹولیوں کی حمایت کے الزام کو اس طرح سے پاک کر سکتا ہے، ایران پر شیعی فرقہ واریت پھیلانے کا الزام لگا سکتا ہے، ایران کو علاقے کے امن و استحکام کے لئے خطرہ ثبات کر سکتا ہے، ایران سے سفارتی رابطہ ختم کر سکتا ہے یہ الزام لگا کر کہ ایران دھشتگردی کا حامی ہے اور ایران کے خلاف عربی ممالک کو اکھٹا کرنے کا ڈھونگ رچا سکتا ہے، خود کو دھشتگردی سے لڑنے والوں کا بڑا ٹھیکیدار پیش کر سکتا ہے۔ لیکن آل سعود کے ان تمام مفروضات کا نتیجہ ایک دم برعکس سامنے آیا۔ ملک میں اختلافات نے شدت اختیار کر لی، علاقے میں سعودی عرب کی بچی کھچی ساکھ ختم ہو گئی، بین الاقوامی سطح پر ذلت کا ہار گلے ڈالنا پڑا اور ایران کو شکست دینے کے بجائے خود شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ آپ انصاف سے بتائیں کہ دنیا میں کون ہے ایسا جو سعودی عرب کو داعش کا حامی نہیں سمجھتا؟ دنیا میں کون ہے ایسا جو علاقے میں جنگ کا اصلی عامل آل سعود کو نہیں سمجھتا؟ دنیا میں کون ہے ایسا جو شام و عراق اور پھر یمن میں ہزاروں بے گناہ بچوں، عورتوں اور نوجوانوں کا قاتل سعودی حکومت کو نہیں سمجھتا؟ مسلمانوں کے قبلہ اول کے دشمن صیہونی ریاست کا قریبی دوست آل سعود نہیں تو کون ہے؟ فلسطین اور غزہ میں نابود ہونے والی زندگیوں کا باعث سعودی حکومت نہیں تو کون ہے؟ پوری دنیا میں الہی دین اسلام اور آسمانی کتاب قرآن کی بدنامی کا باعث سعودی حکومت نہیں تو کون ہے؟ آئیں عالم اسلام کے روشن فکر افراد! آئیں دنیا کے انصاف پسند انسان! آئیں اور بیٹھ کر یہ فیصلہ کریں کہ دھشتگرد کون ہے شیخ نمر دھشتگرد تھے یا خود آل سعود دھشتگرد ہے؟
source : abna24