جي ہاں ! شيخ مفيد اس صفت کے مالک تھے کہ لوگوں کے اعتماد کو اپنے اعمال و اخلاق سے متاثر کرليں ، يہاں تک کہ دوست و دشمن سبھي آپ کي تعريف و تحسين کرتے تھے ، يہ فضيلت آپ کو معصومين عليہم السلام کي اقتدا سے حاصل ہوئي تھي -
امير المۆمنين حضرت علي عليہ السلام ارشاد فرماتے ہيں :
” و اللہ ما کذبت کذبۃ “ (11) قسم بخدا ميں نے ايک جھوٹ بھي نہيں بولا ہے - اور يہ دعويٰ تاريخ کي گواہي سے ثابت ہے ، کيونکہ کبھي کسي جگہ کوئي جھوٹ حضرت علي عليہ السلام سے نہيں سنا گيا ، حتيٰ اس موقع پر بھي کہ ايک چھوٹے سے جھوٹ کے ذريعہ تيرہ سال پہلے ہي روئے زمين کي سب سے بڑي حکومت پر حکمراني کرتے ، کيونکہ عمر نے اپنے بعد خليفہ کي تعيين کے لئے چھ افراد کي شوريٰ ( کميٹي ) بنائي تھي ، عثمان اور امير المۆمنين حضرت علي عليہ السلام بھي ان کے درميان تھے ، اور اس نے وصيت کي کہ ميرے بعد ان چھ افراد کے درميان سے ايک خليفہ ہو ، اور اگر دو شخص برابر ووٹ حاصل کريں تو خليفہ وہ شخص ہوگا جس کو عبد الرحمان بن عوف ووٹ دے ، سب کے ووٹ دينے کے بعد عبد الرحمان باقي رہا ، کہ ان ميں سے جس کو بھي راي اور ووٹ ديتا وہ خليفہ ہوجاتا - عبد الرحمان بن عوف نے امير المومنين عليہ السلام سے عرض کيا:
” ابايعک عليٰ کتاب اللہ و سنۃ رسولہ و سيرۃ الشيخين “ ميں تم سے بيعت کروں گا کتاب خدا و سنت رسول (ص) اور شيخين ( ابوبکر و عمر ) کي سيرت پر - حضرت امير المومنين علي عليہ السلام نے فرما يا :
” کتاب اللہ و سنۃ رسولہ “ کتاب خدا اور سنت رسول (ص) قبول ہے ، ليکن سيرت شيخين قبول نہيں کرتا ، کيونکہ ميں خود مجتہد ہوں اور اپني رائے پر عمل کروں گا -
پھر عبد الرحمان بن عوف نے يہي بات عثمان سے کہي ، اور اس نے سيرت شيخين کو قبول کرليا اور خليفہ بن بيٹھا ، البتہ بعد ميں اس نے کسي ايک پر بھي عمل نہ کيا اور مسلمانوں کے ہاتھوں ماراگيا -
امير المومنين حضرت علي عليہ السلام اس حد تک تيار نہ ہوئے کہ ايک لفظ بھي اپنے عقيدہ کے برخلاف اور جھوٹ زبان پر لائيں اور اسي کام نے حضرت (ع) کو تيرہ سال پھر خلافت سے دور کرديا ، بہت سے لوگوں نے حضرت (ع) سے عرض کيا کہ ٹھيک ہے کہ آپ سيرت شيخين کو قبول نہ کرتے اور اس پر عمل نہ کرتے ليکن اس وقت قبول کرلينا چاہئے تھا - ليکن علي عليہ السلام وہ شخص نہيں ہيں کہ اتنا سا بھي حقيقت سے فاصلہ اختيار کريں -
حضرت امام زمانہ (عج) کي اميد شيعوں سے
بہت سے شيعہ يہ سوچتے ہيں کہ امام زمانہ (عج) کي خدمت ميں کيسے پہنچا جاسکتا ہے اور کيسے حضرت سے ملاقات کي جاسکتي ہے ، حضرت امام زمانہ (عج) سے ملاقات ايک خاص مسئلہ ہے اور اس سے متعلق کتابوں ميں ان افراد کے واقعات ذکر ہوئے ہيں جنہوں نے حضرت سے ملاقات کي ہے ، حضرت امام زمانہ (عج) سے ملاقات کرنے والوں ميں عالم و عوام ، بوڑھے اور جوان ، مرد و عورت سبھي دکھائي ديتے ہيں ، ليکن آيا امام زمانہ (عج) نے شيعوں سے يہ چاہا ہے کہ غيبت کے زمانہ ميں يہ کوشش کريں ؟ يا نہيں ، بلکہ وظيفہ کوئي دوسري چيز ہے ؟ اور آيا ہم اس سے زيادہ اہم وظيفہ نہيں رکھتے؟
جيسا کہ ذکر کيا گيا کہ حضرت امام زمانہ (عج) سے تقرب کاسب سے زيادہ اہم وسيلہ خود اپنے وظيفہ انجام دينا ہے ، وہي چيز کہ جس کے لئے خداوند تعاليٰ نے حضرت کو امامت کو مرتبہ عطا فرمايا ہے ، وہي چيز کہ جس کے لئے حضرت رسول خدا (ص) تشريف لائے ہيں -
source : tebyan