قرآن مجيد کو خود رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم نے اپني نگراني ميں مدون کرايا اور اس کے تحفظ کے ليے وہ تدبيريں اختيار کيں جو اس سے پہلے کسي پيغمبر نے نہيں کي تھيں يا کم از کم تاريخ ميں ہميں اس کي نظير نہيں ملتي- مگر حديث کے متعلق يہ صورت پيش نہيں آئ اور اس کي وجہ ممکن ہے رسول للہ صلي اللہ عليہ و سلم کے خصائل مبارکہ کا يہ پہلو بھي ہو کہ آپ ميں تواضع بہت تھي- اپنے آپ کو محض انسان سمجھتے تھے- (انما انا بشر مثلکم) يہ خيال آپ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم پر زيادہ غالب رہتا تھا، بہ نسبت اس خيال کے کہ ميں اللہ کا رسول ہوں- شايد يہ تصور رہا يا کوئي اور، بہرحال رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم نے حديث کي تدوين پر وہ توجہ نہ فرمائ جو قرآن مجيد کے متعلق رہي- اس کي وجہ ايک اور بھي ہے جو بہت اہم ہے اور وہ يہ کہ قرآن کريم ميں (وما ينطق عن الھوي- ان ھوا الاوحي يوحي 4,3:53) کے ذريعے سے يہ واضح کيا گيا کہ جو کچھ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم تم سے بيان کرتے ہيں وہ اپني خواہش سے نہيں کرتے بلکہ وہ اللہ کي وحي کردہ چيز ہوتي ہے- اس طرح ہميں يقين دلايا گيا ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم جو بھي بيان کرتے ہيں وہ خدا کي وحي پر مبني ہوتا ہے- جب وحي آتي آپ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم اس ميں غلطي نہيں کرتے اسے من و عن پہنچاتے ہيں ليکن اگر وحي نہ آئے تو انتظار کرتے ہيں-
کيونکہ وحي پيغمبر کے اختيار ميں نہيں- جب خدا چاہتا ہے وحي کرتا ہے اور جب نہيں تو رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم کے ليے سوائے انتظار کے کوئي چارہ نہيں ہوتا اور وہ اپني طرف سے کچھ کہہ کر من گھڑت طور سے اپني بات کو وحي قرار نہيں دے سکتے- ہميں حديث ميں ايسي کافي مثاليں ملتي ہيں جن سے يہ بات واضح ہو جاتي ہے کہ بعض دنيوي معاملات ميں آپ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم مشورہ بھي فرماتے تھے- مثال کے طور پر ايک حديث ميں ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم نے کچھ احکام ديے- صحابہ نے کہا کہ کيا يہ وحي پر مشتمل ہيں- آپ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم نے جواب ديا کہ اگو وحي پر مشتمل ہوتے تو ميں تم سے مشورہ نہ کرتا- ايک دوسري حديث بہت دلچسپ ہے جو کھجور کے درختوں کے متعلق ہے- آپ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم جب مدينہ تشريف لائے اور وہاں ديکھا کہ نر درختوں کے پھول مادہ پھول کے اندر ڈالے جاتے ہيں گويا اس عمل کي وجہ سے کھجور پيدا ہوتي ہے- آپ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم کي طبيعت ميں جو حيا تھي اس کي بناء پر آپ کو يہ عمل پسند نہيں آيا اور کہا کہ نر اور مادہ کا تعلق پيدا کرنا درختوں ميں مناسب نہيں ہے، بہتر ہے کہ تم يہ نہ کرو- لوگوں نے جب اس حکم پر عمل کيا تو کھجور کي پيداوار اس سال بہت خراب گئ- سب لوگ آئے اور عرض کيا يا رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم ہم نے اس سال بيج ڈالنے (Pollination) کا عمل نہيں کيا جس کي وجہ سے کھجور کي پيدا وار نہيں ہوئ اس پر (ترمذي شريف وغيرہ کي حديثوں کے مطابق) آپ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم کا جواب يہ تھا "انتم اعلم بامورر ادنيا کم" (تم اپنے دنياوي معاملات کو ميرے مقابلے ميں بہتر جانتے ہو) اس مثال سے يہ ظاہر ہے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم جب کوئي چيز وحي کے تحت بيان کريں تو اس کي حيثيت قرآن کے مطابق ہوگي- ليکن کوئي بات اپني طرف سے بيان کريں تو وہ ايک ذہين، ايک فہيم انسان کا بيان ہوگا ليکن خدائ وحي نہيں ہوگي، انساني چيز ہوگي اور انساني چيز ميں خامياں ہو سکتي ہيں- چنانچہ حديثوں ميں اس کا ذکر آتا ہے کہ کبھي کبھي حضور صلي اللہ عليہ و سلم نے بجائے چار رکعت کے تين ہي رکعت کے بعد سلام پھير ليا، يا يہ کہ بجائے دو کے تين رکعتيں پڑھ ليں، سہو ہو گيا تو يہ انساني بھول چوک رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم سے بھي ممکن ہے اور ايسا مصلحت الٰہي کے تحت واقع ہوتا ہے- رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم کو خدا نے اسوہ حسنہ قرار ديا ہے- کوئي رسول اسوہ حسنہ اور کامل نمونہ اس وقت ہو سکتا ہے جب وہ انساني دائرے ميں رہے- يعني وہ ايسا ہي کام کرے جسے اور انسان بھي کر سکتے ہيں- اس کے بر خلاف اگر رسول "فوق البشر" بن جائے تو ہمارے ليے اسوہ حسنہ نہيں رہے گا- اس ليے ايسي مثاليں پيش آتي ہيں کہ فجر کي نماز کا وقت ہے رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم سو رہے ہيں، بيدار نہيں ہوتے جب سورج طلوع ہوتا ہے تو سورج کي کرنوں کي گرمي اور جلن سے بيدار ہوتے ہيں يا جيسا کہ ميں نے بيان کيا، کبھي نماز پڑھنے ميں رکعتوں کي تعداد ميں سہو فرماتے ہيں، يا اسي طرح کي چيزيں پيش آتي ہيں جن کا حکمت الٰہي کے تحت منشاء اور غرض و غايت يہ ہوتي ہے کہ ہميں يقين دلايا جائے کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم بھي انسان ہي ہيں- وہ جو کام کرتے رہے اس کے متعلق کبھي يہ خيال نہ کرنا چاہيے کہ ہم نہيں کر سکتے بلکہ ہم بھي چاہيں تو کر سکتے ہيں جيسا کہ رسول اللہ صلي اللہ عليہ و سلم کرتے ہيں-
source : tebyan