دنيا پر موجود انسانوں کو اپنے حقوق و فرائض سے آگاہي حاصل کرني چاہيۓ اور عام طور پر ہر انسان کو اپنے حقوق کا ادراک بھي ہوتا ہے- اور وہ اپنے حقوق کے حصول کيلئے سرگرداں بھي رہتا ہے ايک سليم العقل انسان کو جيسے اپنے حقوق کا تحفظ پسند ہوتا ہے ايسے ہي اس پر جو اوروں کے حقوق ہيں انکي ادائيگي ميں بھي کوشاں رہتا ہے بلکہ کبھي اپنا حق چھوڑ ديتا ہے ليکن اوروں کا حق ضرور ادا کرتا ہے- بندے پر جو حقوق لازم ہيں ان ميں سے سب سے اہم حقوق اللہ تعاليٰ کے ہيں اور اللہ تعاليٰ کے حقوق ميں سے سب سے بڑا حق يہ ہے کہ بندہ اسے وحدہ لاشريک مانے اور صرف اسي کي عبادت کرے-
خاتم النبين حضرت محمد مصطفيٰ (ص) نے اتنے موثر انداز ميں عقيدہ توحيد کي تبليغ کي کہ بہت جلد شرک کي تيرگي دور ہوگئي اور نور توحيد ہر سمت جگمگانے لگا- صحابہ کرام رضي اللہ تعاليٰ عنہم نے اس انداز ميں يہ عقيدہ توحيد سيکھا اور آگے پہنچايا کہ آج صدياں گذر جانے کے باوجود بھي يہ عقيدہ اپني اصلي شکل ميں امت کے سينوں ميں موجود ہے-
دينِ اسلام ميں عقيدۂ توحيد پہلا اور بنيادي رکن ہے- اسلامي نظريۂ حيات اسي تصور کو انسان کے رگ و پے ميں اتارنے اور اس کے قلب و باطن ميں جايگزيں کرنے سے متحقق ہوتا ہے- تصورِ توحيد کي اساس تمام معبودانِ باطلہ کي نفي اور ايک خدائے لم يزل کے اثبات پر ہے- عقيدۂ توحيد پر ہي ملتِ اسلاميہ کے قيام، بقا اور ارتقاء کا انحصار ہے- يہي توحيد امتِ مسلمہ کي قوت اور تمکنت کا سرچشمہ اور اسلامي معاشرے کي روح رواں ہے- يہ توحيد ہي تھي جس نے ملتِ اسلاميہ کو ايک لڑي ميں پرو کر ناقابلِ تسخير قوت بنا ديا تھا- يہي توحيد سلطان و ميرکي قوت و شوکت اور مردِ فقير کي ہيبت و سطوت تھي- اس دورِ زوال ميں ضرورت اس امر کي ہے کہ وہ ملتِ اسلاميہ جو سوزِ دروں سے خالي ہو چکي ہے اس کے دل ميں عقيدئہ توحيد کا صحيح تصور قرآن و سنت کي روشني ميں ازسرِ نو اجاگر کيا جائے- تاکہ مردِ مومن پھر لَا اور اِلَّا کي تيغِ دو دم سے مسلح ہو کر ہر باطل استعماري قوت کا مقابلہ کر سکے- بقول اقبال رحمۃ اللہ عليہ :
تا دو تيغِ لا و الاّ داشتيم
ما سِوَ الله را نشان نگذاشتيم
ترجمہ : ’’نفي واثبات کي تلوار جب تک ہمارے ہاتھ ميں تھي ہم نے ما سو اللہ يعني اللہ کے سوا ہر غير اور باطل کا نام و نشان تک مٹا ديا تھا-‘‘
source : tebyan