اردو
Monday 23rd of December 2024
0
نفر 0

سيد جمال الدين کو دور بين نظر تھے

علامہ حيدرآباد آتے ہيں- اس وقت جب کہ انھوں نے تمام ملوکيت سوز قوتيں پيدا کر دي تھي اور شيخ عبدہ وزاخلول شاہ جيسے جانشين پيدا کر چکے تھے- آپ حيدرآباد ميں دو سال رہے- جمہوريت کا وہ شيدائي اور عموميت کا وہ فدائي جو قاچار کو قتل کرنے اور خدايو
 سيد جمال الدين کو دور بين نظر تھے

علامہ حيدرآباد آتے ہيں- اس وقت جب کہ انھوں نے تمام ملوکيت سوز قوتيں پيدا کر دي تھي اور شيخ عبدہ وزاخلول شاہ جيسے جانشين پيدا کر چکے تھے- آپ حيدرآباد ميں دو سال رہے- جمہوريت کا وہ شيدائي اور عموميت کا وہ فدائي جو قاچار کو قتل کرنے اور خدايو اسمعيل کو ختم کرنے کے منصوبے گانٹھ رہا ہو اور جس کو دنيا آج بھي شہنشاہيت و ملوکيت کا دشمن تصور کرتي ہو- حيدرآباد آتا اور دو سال حيدرآباد ميں رہتا ہے اس وقت کيا حيدرآباد اپني موجودہ حالت ميں نہ تھا کيا بلارم والوں کي چھاۆنياں اس وقت انگريزي فوجوں سے خالي تھيں ؟ کيا اس وقت حيدرآباد ميں انگريزي رزيڈنسي قائم نہ ہوئي تھي؟ اور کيا حيدرآباد ميں اس وقت با اقتدار ملوکيت کا کام نہيں کر رہي تھي؟ پھر کيا وجہ ہے کہ شہنشاہيت کا دشمن ملوکيت کا قاتل جمال الدين دو سال حيدرآباد ميں رہتا ہے اور اس ملوکيت کے خلاف ايک لفظ نہيں کہتا- اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ جمہوريت يہاں کي حيثيت اختيار کرے گي اور کس جانب منتقل ہو گي-

سيد جمال الدين دور بين نظر رکھتے تھے اور ان کي عواقب پر نظر تھي قوميت پرستي کي رو ميں نہيں بہہ رہے تھے بلکہ ان کي نگاہيں مستقبل کے پردوں کو چاک کر کے سو برس آگے کي طرف ديکھ رہي تھيں- وہ جانتے تھے کہ ترکي، ايران،افغانستان اور مصر ملوکيت کي تباہي ايک اسلامي جمہوريت کے احياء کا باعث ہو گي- ليکن حيدرآباد ميں جمہوريت اسلام کي بيخ کني اور مسلمانوں کے غلامي کي نتائج پيدا کرے گي-

بڑا ہي افسوس ہے کہ علامہ سے متعلق حيدرآباد ميں کوئي پتہ نہيں چلتا کہ کيا مشاغل تھے البتہ قاضي عبدالغفار صاحب نے اپنے مقالہ ميں بتايا ہے کہ آپ کي سيد علي بلگرامي اور نواب رسول يار جنگ اوليٰ سے ملاقات رہي- جب اعرالي پاشا نے سيد افغاني کي سلگائي ہوئي آگ کے شعلوں کو قصر عابدين کے رواقوں تک پہنچا ديا- تو انگريزوں کو انديشہ ہونے لگا کہ کہيں اس کے شعلے ہندوستان تک نہ پہنچيں- سيد مرحوم کلکتہ ميں نظر بند کر ديئے گئے اور اس وقت تک وہيں رہے جب تک مصر کے حالات انگريزوں کے لئے قابل اطمينان نہ ہو گئے-

ايک روايت يہ بھي ہے کہ ہندوستان سے علامہ امريکہ کے گئے اور وہاں سے واپس آ کر فرانس ميں قيام کيا- پيرس ميں شيخ محمد عبدہ بھي ان سے آ کر مل گئے اور العروۃ الوثقي نامہ رسالہ جاري کيا جو گو زيادہ دنوں تک جاري نہ رہ سکا- ليکن اس نے بلادِ اسلاميہ اور يورپ ميں ايک انقلابي کيفيت پيدا کر دي- آپ کچھ دنوں کے لئے لندن گئے روس کا سفر کيا- يہاں شاہ قاچار سے ملاقات ہو گئي- وہ آپ کو ايران لے آئے اور وزارت کے منصب پر فائز کيا- شاہ قاچار سے آپ خوش نہيں تھے- دونوں کے خيالات ميں زبردست فرق تھا-

ايران بھي مصر کي طرح اس وقت مغربي اقوام کي حرص و آز کا مرکز بنا ہوا تھا- ايک طرف سے روس آذر بائيجان اور خراسان کے علاقے پر آہستہ آہستہ مختلف حيلوں سے قبضہ کر رہا تھا تو دوسري طرف تمباکو کي يوروپي کاشت اور معدنيات کے ٹھيکے انگريزوں کو ديئے جا رہے تھے- علامہ مرحوم کي دوربين نگاہيں اس قديم اسلامي سلطنت کو ديو مغرب کے پنجہ ميں پھنسا ہوا ديکھ رہي تھيں اور برداشت نہيں کر سکتي تھيں- انہوں نے اپني عادت کے مطابق علماء اور عوام کو اس کے خلاف احتجاج کے لئے تيار کرنا شروع کيا- ناصر الدين شاہ قاچار سے تعلقات بگڑے چنانچہ نتيجہ يہ نکلا کہ جمال الدين مرحوم کو پا بہ زنجير کر کے ايران سے بحالت بخار بري طرح نکال ديا- لندن ميں کچھ دنوں قيام کے بعد سلطان عبدالحميد کي دعوت پر آپ قسطنطنيہ پہنچے- يہاں پان اسلامزم کي تحريک شروع کي جو سيد مرحوم کا آخري اور شاندار کارنامہ ہے اور آج بہترين شکل ميں ميثاق سعدآباد کے نام سے موجود ہے- اس کا سہرا  مصطفے ٰ کمال اعليٰ اللہ مقامہ کے سر رہا- يقين ہے کہ علامہ کي روح اپنے اس مقصد کي تکميل کو ديکھ کر خوش ہو رہي ہو گي-

علامہ کے پيش نظر جمہوريت کا احياء شہنشاہيت کا قلع قمع نہيں  بلکہ تسلط اسلاميہ تھا- آپ ملتِ اسلاميہ کو سدھارنے اور آگے بڑھاناچاہتے تھے- ان کے راستے ميں اگر شاہانہ اور ملوکانہ طاقتيں پڑتي تھيں تو وہ ان کو ہٹاتے ہوئے آگے بڑھتے اور ان کي پروانہ کرتے تھے- بعض ان کے سيرت نگار رابطہ اسلامي تحريک سے متعلق يہ خيال رکھتے ہيں کہ علامہ نے سلطان عبدالحميد کي خاطر شروع کي تھي جس کا سر نياز امير شير علي جيسے مستبد بادشاہ خديو اسمعيل جيسے عياش سلطان اور ناصر الدين شاہ قاچار جيسے عظيم المرتبت شہنشاہ کے سامنے نہ جھکا- اور جس کي آنکھيں ہميشہ افرنگي سياست و تدبر کا مردانہ وار مقابلہ کرتي رہيں- اس کي نسبت يہ بدگماني گناہ ہے- حقيقت يہ ہے کہ سيد مرحوم کے تجربے نے يہ ثابت کر ديا کہ اسلامي مملکتيں چاہے جتني آزاد اور قوي ہوں اپني انفرادي حيثيت ميں مغربي سيلابِ تسلط کا کسي طرح مقابلہ نہيں کر سکتيں- اسي تجربے کے بعد وہ آخر اس نتيجے پر پہنچے تھے کہ مشرق ميں ملتِ اسلاميہ کي بقاء اور مغربي سيلاب کا مقابلہ صرف ان اسلامي قوتوں کے باہمي ربط ميں مضمر ہے-

 

ماخوذ از مقامِ جما ل الدين افغاني- مرتب مبارز الدين رفعت،مطبوعہ نفيس اکيڈيمي حيدرآباد- دکن


source : tebyan
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

تربیت کا اثر
امام کے معصوم ھونے کی کیا ضرورت ھے اور امام کا ...
انسانی زندگی پر معاد کے آثار و فوائد
انبیاء الہی کی حمایت اور ان کی پیروی
امام کي شخصيت اور جذبہ
اسلام میں عورت کا حق وراثت
میلاد النبی ؐ اور ہفتہ وحدت کی اہمیت و افادیت
عالمی پیمانے پر اسلامی تبلیغ
لیلۃ الرغائب؛ آرزؤوں کی شب اور دعا و مناجات کی رات
قرآن تمام مشکلوں کا حل

 
user comment