ہرامام کا کام -دين و ملت کي حفاظت و نگہداشت ہے وہي رہنمائے عالم ہوتا ہے ليکن اس رہنمائي کي دو صورتيں ہيں اگر اس کو دنيوي اقتدار بھي حاصل ہے تو کار ہدايت حکومت کے ذريعہ سے انجام پائے گا اور اگر مخالف قوتوں کي مزاحمت سے ايسا تسلط ہوگا تو اس کار منصبي کي تکميل مخفي طريقے پر ہوتي رہے گي جيسي کہ اس زمانہ ميں ہو رہي ہے کہ اصول اسلام و قانون شريعت محض فيوض امام سے باقي ہيں اور جزوي مسائل ميں ہر شخص کے لئے حضرت کے احکام نافذ نہ ہونے سے منصب امامت پر کوئي اثر نہيں پڑ سکتا کيونکہ دنيا والوں نے بدقسمتي سے اپنا يہ نقصان آپ کيا ہے -ان کے مظالم اور کمزورياں ہي اس پردہ غيبت کا باعث ہيں اور يہ سب ان کے کردار کا نتيجہ ہے -
انبيا ہوں يا آئمہ ،جب سب کا تقرر خدا کي طرف سے ہوتا ہے اور يہ دين دنيا دونوں کے بادشاہ ہوتے ہيں کسي کي رعيت نہيں ہوتے اگر کہيں دنيوي رياست و حکومت پر دوسرے لوگ قابض ہوجائيں تو اس سے ان کي نبوت و امامت ميں کوئي فرق نہيں آتا -اسي طرح يہ حضرات حاضر ہوں يا غائب ہوں ہر حالت ميں نبي و امام رہتے ہيں- حضور و عدم حضور يا غيبت و ظہور سے شان نبوت و امامت ميں کوئي تبديلي نہيں ہوتي -انبيا کي بھي غيبتيں ہوئي ہيں نبي تھے اورنبي رہے اسي طرح حضرت حجت عليہ السلام ہر حال ميں امام ہيں اور حضرت کا وجود مبارک تمام عالم خداکے لئے رحمت و نعمت ہے- حضرت حجت عليہ السلام اسي نور رسول اللہ کے حامل ہيں جس سے خطاب الہي ہوا تھا : لولاک لماخلقت الافلاک يعني تم نہ ہوتے توميں آسمانوں کوپيدا نہ کرتا پس عالم کي پيدائش جس پر موقوف ہے اسي پر عالم کي بقا موقوف ہے اگر يہ نہ ہوں تو ساري دنيا ختم ہو جائے اسي لئے تو اس نور کے حامل امام موجود ہيں اور ہر قسم کي نعمتيں عام خلائق کے شامل حال ہيں آسمان سے بارش ہوتي ہے ، زمين سے دانا اگتا ہے ،درختوں پر پھل آتے ہيں ،عقلوں ميں سمجھنے کي قوت ہے ،آنکھوں ميں بصارت ہے ، کانوں ميں سماعت ہے -زبان ميں گويائي ہے اور ان انعامات الہيہ کے ذريعہ روئے زمين پر حجت خدا کا وجود ہے جو رحمة للعالمين کے فرزند ہيں - جن کي برکت سے دنيا با وجود ان بد کرداريوں کے جو سابقہ امتوں پر نزول عذاب کا باعث ہوتي رہي ہيں ،عذابوں سے محفوظ ہيں اور پہلے کے عالم گيرعذاب مسخ و خسف ،غرق و حرق يعني صورتوں کا بدل جانا ،زمين ميں دھنسنا ،پاني ميں ڈوبنا ،آگ ميں جلنا سب کے سب انھيں کے سبب سے رکے ہوئے ہيں-کيونکہ عذاب نازل نہ ہونے کے دوسبب قرآن ميں بيان ہوئے ہيں
يارسول اللہ کي موجودگي ،يا بندوں کا استغفار
وماکان اللہ ليعذبھم وانت فيھم وماکان اللہ معذبھم وھم يستغفرون
يعني اے رسول ،جب تک تم ان ميں موجود ہو خدا ان پرعذاب نہ کرے گا اور نہ ايسي حالت ميں عذاب نازل فرمائے گا کہ لوگ استغفار کرتے رہيں -
پس اب نہ رسول اللہ تشريف فرما ہيں نہ سب بندے معافي کے خواہاں ہيں ،توبہ واستغفار مثل نہ ہونے کے ہے -پھر عذاب کيوں نازل نہيں ہوتا ؟ صرف اس لئے کہ قائم مقام رسول ہمنام رسول موجود ہيں جو فرزند رسول ہيں ،وارث رسول ہيں جن کا فعل ،فعل رسول ہے ، جن کا وجود وجود رسول ہے ،جن کا نور نور رسول ہے اور وہ اسي نور مبارک کے حامل ہيں جو غايت خلقت عالم اور سبب بقائے عالم ہے -يہي مطلب اس فرمان نبوي کا ہے -
النجوم امان لاھل السماء واھل بيتي امان لاھل الارض -يعني ستارے اہل آسمان کے لئے امان کا سبب ہيں اورميرے اہل بيت زمين والوں کے واسطے باعث امن وامان ہيں -
ستارے نہ ہوں توآسمان والوں کے لئے مصيبت ہے اور ميرے اہل بيت ميں سے کوئي نہ ہو تو زمين والوں کے لئے مصيبتيں ہيں - ( جاري ہے )
source : tebyan