عالم اسلام میں حدیث کا منکر کوئی بھی نہیں،اسلامی شریعت کے مآخذ میں سےقرآن کے بعد دوسرے درجے پر آنے والی چیز حدیث اور سنت رسول اکرم ہےحدیث کے معتبر ہونے پر خود قرآن گواہی دے رہا ہے۔
وَمَا آَتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا الحشر /۷
جو کچھ تمہیں رسول دے دیں وہ لے لو اور جس چیز سے تمہیں منع کرے اس سے رک جاؤ ۔
خد اوند متعال رسول اکرم کو قرآن کےمبین ومفسر کے طور تعارف کرا رہا ہے۔
وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ إِلَيْهِمْ وَلَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ النحل/۴۴
اور ہم نے آپ کی طرف ذکر نازل کیا تاکہ آپ لوگوں کے لیے وہ کچھ بیان کریں جو ان کی طرف نازل کیا گیا ہے شاید یہ لوگ غور فکر کریں۔
مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر یہاں تک تو متفق ہیں لیکن اختلاف اس چیز میں ہے کہ آیا رسول خد کے صحابہ کرام ؓ کے اقوال بھی وہی حیثیت رکھتے ہیں جو حدیث رسول رکھتی ہے تو اہل سنت علماء اور محدثین اقوال صحابہ کو حدیث رسول ہی سمجھتے ہیں۔ لیکن شیعہ کے ہاں حیثیت اسی بات کی ہے کہ جو کسی معصوم سے نقل کی گئی ہو ۔اس لیے تمام آئمہ معصومین کی احادیث شیعوں کے نزدیک معتبر ہیں۔اس لیے حدیث کی تعریف میں کہا گیا ہے ۔ (معصوم کا قول ، فعل او رتقریر (تایید)حدیث کہلاتی ہے۔)
لیکن اہل سنت حضرات تمام معصومین کے قول ، فعل او رتقریر کو حدیث کا درجہ نہیں دیتے ۔اہل سنت اور شیعہ کے علم حدیث کے درمیان اگر موازنہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ اہل سنت نے حدیث کےمیدان میں شیعوں کی نسبت سبقت رکھتے ہیں اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شیعوں کےہاں نص حدیث کا دورانیہ تقریباً تین ساڑھے تین سو ہجری تک جاری رہا۔چونکہ شیعہ کےا ٓئمہ اطہار خود موجود تھے جس کی وجہ سے حدیث کا سلسلہ موجود تھا اس لیے صرف انہوں نے احادیث آئمہ لکھنے پر ہی اکتفاء کیا او رحدیث کے قواعدوضوابط وضع کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی ۔لیکن اہل سنت کا حدیث کا دورانیہ صرف ایک صدی تک محدود ہے تقریباًٍاس دوران صحابہ کرام ؓ کا پہلا طبقہ موجود تھا لیکن اس طبقہ کے ختم ہوتے ہی اہل سنت کے بزرگان کو حدیث کے قواعد بنانے کی ضرورت پیش آئی جس کی وجہ سے علم حدیث کے نام کا ایک مستقل علم وجود میں آیا اور اس علم کی خدمت کے لیے علم رجال جیسے علوم کی بھی بنیاد پڑی ۔اس لیے علم حدیث میں مستقل کتاب سب سے پہلے اہل سنت کے ہاں قاضی ابو علی (۳۶۰ھ)نے (المحدث الفاصل بین الراوی والواعی) لکھی۔ جب کہ شیعوں کے ہاں سید احمد بن موسی بن طاووس نے علم حدیث میں توسیع کی انہوں نے سب سے پہلے اخبار کو چار مشہور اقسام میں تقسیم کیا ۔ان سے قبل علماء شیعہ میں حدیث کی صحیح اور غیر صحیح یا صرف مقبول یا غیر مقبول کی ہی اصطلاح معروف تھی ۔اس سے بڑھ کر زیادہ تقسیم نہیں تھی ۔چونکہ محمدون ثلاث (محمد بن یعقوب کلینی ، محمد بن حسن طوسی ،محمد بن علی بن حسین صدوق)کے دور تک حدیث کی صحت پر قرائن موجود تھے اس لیے ان کوعلم حدیث کے قواعد وضوابط وضع کرنے کی ضرورت پیش نہ آئی ۔ ہم تک علم کی وراثت کو پہنچانے میں ان علماء نے بہت زحمتیں اٹھائی ہیں۔اس لیے ان علماء کے نام تاریخ میں ہمیشہ روشن وتابندہ رہےہیں ۔شیعہ علماء کے زہد وتقوی کے قصے پورے عالم اسلام میں معروف ہیں ہم یہاں چاہیں گے وہ علماء جنہوں نے علم حدیث کی وسعت وحفاظت اور اس سرمایہ کو ہم تک منتقل کیا اور جو جو زحمتیں اٹھائی ہیں ان کے حالات زندگی مختصر طور پر بیان کریں ۔انہیں شخصیات میں ایک روشن ترین چہرہ سید احمد بن موسی الطاووس کا ہے ۔
سید احمد بن موسی الطاووس :
آپ سید ابن جمال الدین ابو الفضائل احمد بن سعد الدین ابی ابراہیم موسی بن جعفر ن محمد بن احمد بن ابی عبداللہ محمد الطاووس بن اسحاق بن حسن ابن محمد ابن سلیمان بن داود بن الحسن المثنی بن الحسن بن امیر المومنین علی بن ابی طالب ہیں ۔ (1)
آپ کی والدہ شیخ جلیل شیخ ورام بن ابی فراس حلی کی دختر تھیں ،آپ کے والد کی ماں شیخ الطائفہ شیخ طوسی کی دختر تھیں اس اعتبار سے شیخ طوسی ان کے دادہ بنیں گے ۔جیسا کہ ان کے بھائی رضی الدین علی بن موسی نے اپنی کتاب الاقبال میں کہاہے :فرماتے ہیں کہ میں نےشیخ مفید کی کتاب المقنعۃ اپنے والد سے پڑھی جو کہ فقیہ حسین بن بطہ کی روایت سے ہے اور حسین نے اس کتاب کو میرے والد کے ماموں ابو علی حسن بن محمد سے روایت کیا ہے او رانہوں اپنے والد محمد ابن حسن طوسی سے روایت کیا ہے جو کہ میرے والد کے نانا ہیں اور شیخ طوسی نے اس کتاب کو خود شیخ مفید سے لیا ہے۔ (2)
شیخ یوسف بحرانی نے اپنی کتاب لؤلؤۃ البحرین (3) میں کہا ہے کہ سید احمد اور ان کے بھائی رضی الدین دونوں کی والدہ شیخ ورام کی دختر تھیں اور ان دونوں بزرگواروں کی نانی شیخ طوسی کی دختر تھیں حالانکہ یہ بات صحیح نہیں ابن اثیر نے تاریخ الکامل میں شیخ ورام کی وفات ۶۰۵ھ میں لکھی ہے ۔جبکہ شیخ طوسی کی وفات ۴۶۰ھ میں ہوئی پس دونوں کی وفات میں فاصلہ ۱۴۵ سال کا ہوجاتا ہے
۔پس شیخ ورام کا شیخ طوسی کا داماد ہونا ممکن نہیں نظر آتا اگرچہ یہ کیوں نہ کہا جائے کہ شیخ طوسی کی وفات کے بعد ان کی دختر کو ولادت ہوئی ہوگی۔چونکہ دونوں کے بیچ بہت فاصلہ ہے۔ (4)
خاندان آل طاووس:
آل طاووس کا تعارف اسلامی تاریخ کے قاری سے ڈھکا چھپا نہیں ۔آل طاووس ایسا عراقی سید خاندان کہ جس نے امت مسلمہ پر مشکل وقت میں علمی وراثت کو محفوظ کرنے اور اگلی نسلوں تک پہنچانےکا فریضہ سر انجام دیا کہ تاریخ اسلامی نےان کے ان کارناموں سنہری الفاظ میں محفوظ کیا ہے۔جب ہلاکو خان کی تمام عالم اسلام کے تمام شہروں اور بستیوں کو تہنس نہس کردیا تھا توبقیہ شہروں کو بچانے اور علمی مراکز اور کتب خانوں کو بچانے کی خدمت اسی خاندان نے ہی انجام دی ۔تاتاریوں کے حملوں سے قبل عباسی بادشاہت کی آواخر میں اور مغولوں کے شروع کے ادوارمیں اس خاندان رسول نے مختلف فنون علم فقہ ، حدیث ، رجال ، کلام ،انساب ، ادب اور شعر وغیرہ میں علمی قیادت کا بیڑا اپنے کندھوں پر اٹھایا۔
یہ خاندان شرافت ونجابت میں فقید المثال کیوں نہ ہوکہ یہ شجرہ طیبہ علویہ کی ایک لڑی جو ہےاس خاندان کاحسب و نسب امام سبز قباء حسن مجتبی تک پہنچتا ہے۔داود بن حسن مثنی جو کہ امام صادق کے رضاعی بھائی تھے حضرت ام داود نے آپ کو جناب داود کا دودھ پلایا تھا(5) جناب ام داود امام زین العابدین کی دختر محترمہ ہیں امام صادق نے ان کو دعاء تعلیم دی تھے جب داود بن حسن مثنی کو منصور دانقی نے زندان میں ڈال دیا تھا تو انہوں یہی دعاء پڑھی تھی تو زندان سے رہائی حاصل ہوئی تھے ۔یہ دعاء دعاء وزیارات کی کتابوں میں عمل ام داود یا دعاء ام داود کے نام سے مذکور ہے۔
اس خاندان نے علم ترقی کے مدارج طے کیے اور ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں فخر وعزت کی علامت بن گیا۔تمام علمی اور ادبی محفلوں میں اسی خاندان کا ذکر ہوا کرتاتھا۔یہ خاندان ذہانت، حافظہ ، شرافت ونجابت، زہد وتقوی علم وفضل اور ادب وشعرمیں اپنی مثال آپ تھا۔سید احمد بن موسی معروف ابن طاووس بھی اسی خاندان کے چشم وچراغ ہیں ۔ان کے بھائی علی بن موسی بھی سید ابن طاووس کے نام سے معروف تھے معروف کتاب اقبال الاعمال، فلاح السائل وغیرہ کے مصنف ہیں ۔
احمد بن موسی معروف بابن طاووس مختلف علماء کی نظرمیں ؛ آپ کے شاگرد ارجمند حسن بن داود (صاحب رجال بن داود) نے آپ کے حالات میں تحریر کیا ہے۔ (6)
احمد بن موسی بن جعفر بن محمد بن احمد بن محمد بن احمد بن محمد بن محمد طاووس علوی حسنی سیدنا ،طاہر، امام معظم ،فقیہ اہل بیت ، جمال الدین ابو الفضائل ۶۷۳ ھ میں فوت ہوئے مصنف اور مجتہد تھے ،آپ اپنی وقت کے علماء وفضلاء میں سب سے زیادہ متقی تھے ۔میں نےان سے البشری اور الملاذ اور دیگر کتابیں پڑھیں ۔آپ عالم ربانی تھے ۔مجھے تعلیم دی اورمجھ سے بہت اچھا سلوک کیا ہے۔
سید بن طاووس کی عظمت کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ آپ نے علامہ حلی جیسے شاگرد تربیت کیے ، آپ کے شاگرد آپ کی توصیف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں :علامہ نے بنی زہرہ کو اجازہء روایت دیتے ہوئےہراس چیز کی اجازت دی جو ان کو ان کے شیوخ نےاجازت دی تھی ،کہتے ہیں :
اسی اجازہ میں سے ہے وہ سب کچھ جو دونوں بزرگ سیدوں سید رضی الدین اور جمال الدین احمد جو کہ دونوں موسی ابن طاووس کے بیٹے ہیں ،نے تصنیف کیا ہے اور جو کچھ انہوں نےروایت کیا ، پڑھا،اورجو کچھ انہوں نے مجھے روایت کرنے کی اجازت دی تھی اس سب کی اجازت دیتاہوں یہ دونوں سید زاہد ، عابداور متقی تھے ۔ (7)
حر عاملی نے ان کے نسب شریف کو بیان کرنے کے بعد کہا: كان عالما فاضلا صالحا زاهدا عابدا ورعا فقيها محدثا مدققا ثقة ثقة شاعرا جليل القدر عظيم الشأن، من مشائخ العلامة وابن داود. (8)
آپ عالم ، فاضل ، صالح ، زاہد ، عابد ، متقی، فقیہ ، محدث ، باریک بین، ثقہ ثقہ،شاعر،،جلیل القدر،عظیم مقام کے حامل تھے ۔آپ علامہ حلی اور ابن داود کے مشائخ میں سے تھے ۔
سید احمد ایک بہترین شاعر:
آپ کے شاگرد،صاحب رجال بن داود کہتے ہیں ۔ وكان شاعرا مصقعا بليغا منشيا مجيدا کہ آپ فصیح وبلیغ،تخلیقی اور بہترین شاعرتھے ۔
ابن طاووس اور حدیث: علامہ ،محقق سید محسن الامین کہتے ہیں :
آپ مجتہد اور وسیع علم کے مالک تھے ۔علم رجال ، ادب ، اصول فقہ اور فقہ کے امام تھے ۔آپ اپنے زمانے کے علماء وفضلاء میں سےمتقی ترین ، قوی ترین، ثابت قدم اور عظیم مقام کے حامل افراد میں سے تھے ۔آپ شیعہ امامیہ میں سب سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے اخبار کو چار مشہور اقسام میں تقسیم کیا : صحیح ، موثوق، حسن او رضعیف۔ان کے شاگرد علامہ حلی نے بھی انہیں کی اقتداء کی اور ان کے بعد میں آنے والے حتی کہ آج تک کے علماء نے بھی انہیں کی ہی پیروی کی ۔ ان کے بعد مجلسی علماء کے زمانے میں ان اقسام میں اور اضافہ ہوا ان علماء نےحدیث کی معروف مندرجہ ذیل اقسام بیان کیں :مرسل،مضمر،معضل ، مسلسل ،مضطرب ،مدلس،مقطوع ،موقوف،مقبول شاذ اورمعلق وغیرہ۔ (9)
آیت اللہ سیدحسن الصدر اپنی کتاب(تأسیس الشیعۃ لعلوم الاسلام) :
للسید ابی الفضائل اثنین وثمانین کتابا فی فنون العلم وھو اول من اخترع تنویع الاخبار الی اقسامھا الاربعۃ
الشھورۃ فی الطبقۃ الوسطی ، اخذ عن الشیخ نجیب الدین بن نما ، والسید الجلیل فخار ابن معد الموسوی
وغیرھما من الاجلۃ ۔ (10)
علم کے مختلف شعبوں میں سید ابو الفضائل کی ۸۲ کے قریب کتب ہیں آپ وہ پہلی شخصیت ہیں جنہوں نے سب سے پہلے شیعوں میں درمیانی طبقہ میں مشہور اخبار کی چار اقسام کو دریافت کیا ۔آپ کے شیوخ میں شیخ نجیب الدین بن نما او رسید فخار ابن معد موسوی اور علاوہ اور بھی شخصیات ہیں۔
اولاد:
مورخین وعلماء نے آپ کے ایک ہی فرزند کا ذکر کیا جن کا نام عبدالکریم جو کہ جلیل القدر، عالم اور اپنے زمانے کی نادرشخصیت تھے ۔
شیوخ اور اساتذہ:
آپ نے اپنے وقت کی بزرگ شخصیات سےا ستفادہ کیا جن میں بعض کے نام مندرجہ ذیل ہیں ۔
شیخ نجیب الدین بن بنا
سید فخار بن معد موسوی (11)
شیخ یحیی بن محمد بن یحیی السوراوی
سید احمد بن یوسف بن احمد العریضی العلوی الحسینی۔
شیخ سعید الدین ابو علی الحسین بن خشرم الطائی۔
شاگرد:
آپ کےشاگردوں میں سے سب زیادہ نمایاں چہرے مندرجہ ذیل ہیں ۔
حسن بن یوسف(علامہ حلی)
شیخ تقی الدین حسن بن داود الحلی صاحب کتاب الرجال۔
تصنیفات:
حسن بن داود نے انکی ۸۲ تصانیف کا ذکر کیا ہے لیکن سب کا ذکر نہیں کیا جن کا نام ذکر کیا ہے ان میں سے بھی صرف چند کتب ہم تک پہنچ پائی ہیں۔آپ کی چند تصانیف کے نام مندرجہ ذیل ہیں ۔
۱)بشری المحققین ؛فقہ میں (چھہ۶ جلدیں )
۲)ملاذ علماء الامامیہ ؛ فقہ میں (چار ۴ جلدیں)
۳)کتاب الکرم ؛ ایک جلد
۴)السھم السریع فی تحلیل المدانیۃ او المنایعۃ مع القرض ؛ ایک جلد
۵)الفوائد العدۃ فی اصول الفقہ ؛ ایک جلد
۶)الروح فی النقض علی ابن ابی الحدید
۷)شواھد القرآن
۸) حل الاشکال فی معرفۃ الرجال
۹)دیوان شعر،اس کے علاوہ کتابیں بھی ذکر کی گئی ہیں جیسا کہ اعیان الشیعۃ میں محسن الامین نے اور کتب بھی ذکر کیں ہیں ۔
وفات وتدفین :
آپ کی وفات ۶۷۳ ھ میں حلہ میں ہوئی جیسا کہ آپ کے شاگرد حسن بن داود نے ذکر کیا ہے۔اور آپ دفن بھی حلہ ہی میں ہوئے۔ (12) آپ کی قبر کچھ سال پہلے ہی کشف ہوئی ہے(13) کہ بعض صالحین نے خواب میں دیکھا ہے۔اسی جگہ پر ابھی سفید گنبد بنا ہواہے۔شہر کے مغربی طرف باب کربلاء کے قریب سڑک کے کنارے پہ ہے۔اس باب کو اہل حلہ باب الحسین کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔لوگ سید کی قبر کی زیارت کے لیے خصوصاً رجب کے مہینے میں ہر ہفتہ کے دن جاتے ہیں۔وہ محلہ جہاں ابھی قبر مبارک کشف ہوئی ہے اس کو آج سے تین صدی قبل محلہ ابوالفضائل نے نام سے پکارا جاتا تھا۔
منابع ومصادر:
۱)القرآن
۲)لؤلؤۃ البحرین ؛شیخ یوسف بن احمد بحرانی،دار الاضواء ، بیروت، لبنان ، چھاپ؛۱۹۸۶م
۳)روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات؛ سید محمد باقر الخوانسار ی الاصفھانی، موسسۃ دار النشر لنفائس المخطوطات الاسلامیۃ ، اصفھان ، چھاپ ، ۱۳۸۲ھ۔
۴)الراغب فی تشجیر عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب ؛ احمد بن علی المعروف بابن عنبہ؛ تشجیر وتعلیق:ابو سعیدۃ الموسوی ، احیاء الکتب الاسلامیۃایران ،قم ، چھاپ،۱۴۲۷۔
۵)بناء المقالۃ الفاطمیۃ فی نقض المقالۃ العثمانیۃ ؛السید احمد بن موسی بن طاووس،
۶)اعیان الشیعۃ ؛ سید محسن الامین ،مطبعۃ الانصاف ، ۱۹۶۱م ،بیروت، لبنان۔
۷)اقبال الاعمال ؛سید رضی الدین ابو القاسم علی بن موسی بن طاووس ؛مؤسسۃ الاعلمی للمطبوعات ،چھاپ ۱۹۹۶م بیروت ، لبنان۔
۸) تاسیس الشیعۃ لعلوم الاسلام ، آیت ال۔۔۔ سید حسن الصدر؛ مؤسسۃ النعمان للطباعۃ والنشر والتوزیع؛چاپ،۱۹۹۱م،بیروت لبنان ۔
------
(1) ۔ احمد بن علی ، معروف ب ابن عنبہ ؛الراغب فی تشجیرعمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب ، تشجیر:ابوسعیدۃ الموسوی؛ص۱۷۸۔۱۷۹۔
(2) ۔ اقبال الاعمال؛ سید علی بن موسی ابن طاووس، باب فی دعاء اول یوم من شھر رمضان،ص۳۶۱۔
(3) ۔ ۔یوسف البحرانی، لؤلؤۃ البحرین فی الاجازات وتراجم رجال الحدیث،ص۲۳۷۔
(4) ۔www.yasoob.com
(5) ۔ اقبال الاعمال؛ سید علی بن موسی ابن طاووس،باب فی الدعاء یوم النصف من رجب ص۱۶۱۔
(6) ۔ نقل از اعیان الشیعۃ؛ج۱۰،ص۱۸۰؛چھاپ، بیروت،۱۹۶۱م۔
(7) ۔ یوسف البحرانی ، لؤلؤۃ البحرین فی الاجازات وتراجم رجل الحدیث ، ص۲۳۹۔
(8) ۔ أمل الآمل، شیخ حر عاملی،
(9) ،محسن الامین ، اعیان الشیعۃ؛ ج۱۰ ص۱۸۱چھاپ ، بیروت،۱۹۶۱م۔
(10) ۔تاسیس الشیعۃ لعلوم الاسلام ، سید حسن الصدر ، فصل رابع ، فی التاریخ والسیر ص۲۷۰
(11) ۔ عمدۃ الطالب ، سید محمد باقر الخوانساری،ج۱، باب الھمزۃ ،ص۱۵۱۔
(12) ۔ سید محمد باقرالخونساری الاصفھانی،روضات الجنات فی احوال العلماء والسادات؛ج۱، باب الھمزۃ۔
(13) ۔ لؤلؤۃ البحرین ؛ یوسف البحرانی ، ص۲۴۲۔
source : alhassanain