اردو
Friday 22nd of November 2024
0
نفر 0

ماہ رجب کےواقعات

رجب المرجب قمری اور اسلامی مہینوں میں سے وہ مہینہ ہے جس میں بہت ساری واقعات رونما ہوئی ہیں ذیل میں ان میں سے اہم واقعات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ فہرست 1 یکم رجب 2 دو رجب 3 تین رجب 4 چار رجب 5 پانچ رجب 6 چھ رجب 7 سات رجب 8 آٹھ رجب 9 نو رجب
ماہ رجب کےواقعات

رجب المرجب قمری اور اسلامی مہینوں میں سے وہ مہینہ ہے جس میں بہت ساری واقعات رونما ہوئی ہیں ذیل میں ان میں سے اہم واقعات کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
فہرست

    1 یکم رجب
    2 دو رجب
    3 تین رجب
    4 چار رجب
    5 پانچ رجب
    6 چھ رجب
    7 سات رجب
    8 آٹھ رجب
    9 نو رجب
    10 دس رجب
    11 بارہ رجب
    12 تیرہ رجب
    13 چودہ رجب
    14 پندرہ رجب
    15 سولہ رجب
    16 سترہ رجب
    17 اٹھارہ رجب
    18 انیس رجب
    19 بائیس رجب
    20 تئیس رجب
    21 چوبیس رجب
    22 پچیس رجب
    23 چھبیس رجب
    24 ستائیس رجب
    25 اٹھائیس رجب
    26 انتیس رجب
    27 پاورقی حاشیے
    28 مآخذ

یکم رجب

    ولادتِ امام محمد باقر(ع) (57ہجری بمطابق 13 مئی 677 عیسوی)
    امام محمد باقر علیہ السلام جمعہ یکم رجب سنہ 57 ہجری کو مدینہ میں پیدا ہوئے؛[1] گوکہ آپ کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے اور کہا گیا ہے کہ آپ کا یوم ولادت 3 یا 6 صفر المظفر یا 5 یا 22 رجب المرجب ہے۔ آپ کا نام مبارک محمد، کنیت ابو جعفر اور القاب میں باقرالعلوم، الشاكر لله، ہادى، امين شامل ہیں۔ آپ کا ایک لقب "شبیہ" ہے جس کی وجہ رسول اللہ(ص) سے آپ کی شباہت ہے۔[2]
    وفاتِ آیت اللہ آقا حسین خوانساری (سنہ 1099ہجری بمطابق 2 مئی 1688عیسوی)

دو رجب

    امام علی نقی الہادی(ع) کی ولادت (212ہجری بمطابق یکم اکتوبر 827عیسوی)
    امام علی نقی علیہ السلام کی ولادت سنہ 212ہجری میں واقع ہونے کے بارے اتفاق ہے لیکن آپ کی تاریخ ولادت میں اختلاف ہے۔ ولادت کو بعض مورخین نے 15 ذی الحجہ اور بعض نے دوم یا پنجم رجب بتائي ہے۔[3] بعض روایات کے مطابق آپ کا یوم ولادت 15 ذوالحجۃ الحرام سنہ 212 ہجری ہے۔[4]امام علی نقی الہادی علیہ السلام امام محمد تقی الجواد علیہ السلام کے فرزند ارجمند اور امام حسن عسکری علیہ السلام کے والد ہیں۔
    وفاتِ آیت اللہ سید جواد خامنہ ای (رہبر معظم آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای کے والد ماجد) (1407ہجری بمطابق 3 مارچ 1987عیسوی)

تین رجب

    شہادت امام علی نقی الہادی(ع) (254ہجری بمطابق 2 جولائی 868عیسوی)
    اس میں اختلاف نہيں ہے کہ امام علی نقی الہادی علیہ السلام کا سالہ شہادت سنہ 254 ہجری ہے لیکن تاریخ ولادت کی طرح آپ کی تاریخ شہادت میں بھی مؤرخین نے اختلاف کیا ہے۔ بعض نے کہا ہے کہ آپ دوشنبہ (سوموار) 3 رجب کو اور بعض نے کہا ہے کہ 26 جمادی الثانی کو شہید ہوئے ہیں۔ آپ اپنی 34 سالہ عہد امامت میں عباسی حکمرانوں "مأمون و معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز کے ہم عصر تھے۔ معتز کے حکم پر معتمد عباسی نے آپ کو مسموم کرکے شہید کیا [جبکہ امام حسن عسکری(ع) کا قاتل بھی معتمد ہی ہے]۔ معتمد نے معتز کے حکم پر امام ہادی علیہ السلام کو شہید کیا اور امام حسن عسکری علیہ السلام کو معتمد عباسی نے اپنے دور حکومت میں شہید کیا اور یوں شاید معتمد خلافت اسلام کے دعویداروں میں واحد حکمران ہے جس کے کھاتے میں دو ائمہ اہل بیت رسول(ص) کا قتل درج ہوا ہے گوکہ بعض نے کہا ہے کہ [[امام ہادی علیہ السلام کا قاتل متوکل عباسی تھا۔ [5]
    تاہم متوکل کے ہاتھوں امام(ع) کی شہادت کی روایت اس روایت سے ـ جس میں مذکورہ واقعہ امام ہادی(ع) کے معجزات میں شمار ہوتا ہے ـ متصادم ہے: متوکل نے اپنے وزیر سے کہا کہ والیوں کے اجلاس کے دن امام ہادی(ع) کو پائے پیادہ اس کے پاس لایا جائے۔ وزیر نے کہا: اس سے آپ کو نقصان ہوگا لہذا اس کام کو بھول جائیں۔ یا پھر حکم دیں کہ دوسرے والی اور امراء بھی پیدل آپ کی طرف آئیں۔ متوکل مان گیا۔ امام جب دربار میں پہنچے تو موسم گرم ہونے کی وجہ پسینے میں شرابور تھے۔ عباسی دربار کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ "میں نے امام(ع) کو محل کی دہلیز میں بٹھایا اور آپ کا چہرہ مبارک تولئے سے خشک کرکے عرض کیا کہ اپنے چچا زاد بھائی متوکل نے سب کو پیدل آنے کا کہا تھا لہذا اس سے ناراض نہ ہوں۔ امام ہادی علیہ السلام نے اس آیت کی تلاوت فرمائی: "تَمَتَّعُواْ فِي دَارِكُمْ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ ذَلِكَ وَعْدٌ غَيْرُ مَكْذُوبٍ"(ترجمہ:اپنے گھروں میں بس اب تین دن تک مزے اڑالو، یہ وعدہ ہے جو جھوٹا نہیں ہے)۔[6] میں نے اپنے ایک شیعہ دوست کو ماجرا سنایا تو اس نے کہا: اگر امام ہادی(ع) نے یہ بات کہی ہے تو متوکل تین دن یا مرے گا یا قتل ہوگا چنانچہ اپنا سازوسامان دربار سے نکال دو۔ مجھے یقین نہ آیا لیکن دور اندیشی میں کوئی نقصان بھی نہ تھا چنانچہ میں نے میں اپنا سب کچھ اپنے گھر منتقل کیا اور تین دن بعد رات کے وقت مارا گیا اور میرا سرمایہ بچ گیا اور میں امام ہادی(ع) کی خدمت میں پہنچا اور آپ کی ولایت صادقہ کو تسلیم کرکے شیعیان اہل بیت(ع) میں سے ہوگیا۔[7]
    وفات آیت اللہ سید محمدعزالدین حسینی زنجانی (1434ہجری بمطابق 13 مئی 2013عیسوی)

چار رجب

    وفاتِ آیت اللہ سید محسن امین عاملی(1371ہجری بمطابق 30 مارچ 1952عیسوی)
    وفاتِ فقيہ، محدث و حكيم جليل آیت اللہ ملاعلی علیاری کی (1327ہجری بمطابق 22 جولائی 1909عیسوی)
    وفاتِ شیخ الاشراق شہاب الدین سہروردی(587ہجری بمطابق 4 اگست 1191عیسوی)

پانچ رجب

    ابويوسف، يعقوب بن اسحق الدورقي، المعروف ابن سكيت نحوي کی شہادت (244ہجری بمطابق 21 اکتوبر 858عیسوی)
    ابويوسف، يعقوب بن اسحق الدورقي، المعروف ابن سكيت نحوي عربی ادب و لغت کے اکابرین میں سے ہیں جو بقولے سنہ 186 ہجری میں ایران کے جنوبی صوبے خوزستان کی بستی الدورق [[موجودہ شہر شادگان) میں پیدا ہوئے۔ امام محمد تقی الجواد علیہ السلام اور امام علی النقی الہادی علیہ السلام کے محضر سے فیضیاب ہوئے اور سیرت نگاروں کے نزدیک ممدوح ٹہرے۔ ابن سکیت عربی شعر و ادب اور لغت و نحو کے استاد کامل تھے اور النحوی کے لقب سے مشہور تھے۔ ان کی تالیفات میں "تهذيب الألفاظ" اور "اصلاح المنطق" قابل ذکر ہیں۔ آپ کے والد کو سکیت کہا گیا کیونکہ وہ کم گو تھے۔ متوکل عباسی کے بیٹوں المعتز اور المؤید کے استاد تھے۔ ایک دن اہل بیت رسول(ص) کے ہٹ دھرم دشمن متوکل عباسی نے پوچھا: "تمہارے نزدیک میرے یہ دو بیٹے معتز اور مؤید بہتر ہیں یا حسن و حسین فرزندان علی بن ابی طالب؟ ابن سکیت متوکل کے بےجا سوال اور اپنے بیٹوں کا حسنین کریمین(ع) سے قیاس کرنے کی وجہ سے غضبناک ہوئے اور اس طاغی اور سرکش حکمران کے سامنے خاموشی کو جائز نہ سمجھتے ہوئے کہا: "خدا کی قسم! علی بن ابی طالب(ع) کا غلام قنبر تجھ سے اور تیرے ان بیٹوں سے بہتر اور میرے نزدیک پسندیدہ تر ہے"۔متوکل عباسی اپنے بیٹوں کے استاد سے ایسے جواب کی توقع نہ تھی چنانچہ اس نے اپنے ترک نژاد گماشتوں سے کہا کہ ان کی زبان گدی سے کھنچوا لی اور انھوں نے حب اہل بیت(ع) میں جام شہادت نوش کیا۔[8]

چھ رجب

    وفاتِ آیت اللہ شیخ حسین تقوی اشتہاردی(1421ق بمطابق 5 اکتوبر 2000عیسوی)

سات رجب

    وفاتِ آیت اللہ نورالدین عراقی(1341ہجری 23 فروری 1923عیسوی)

آٹھ رجب

    شہادت آیت اللہ سید عبداللہ بہبہانی(1328ق بمطابق 16 جولائی 1910عیسوی)
    ولادت شیخ حر عاملی(1033ہجری بمطابق 26 اپریل 1624عیسوی)
    وفاتِ آیت اللہ عبدالکریم حق شناس (1428ہجری بمطابق 23 جولائی 2007عیسوی)

نو رجب

    ولادت با سعادت حضرت علی اصغر(ع) (60ہجری بمطابق 18 اپریل 680عیسوی)

عبداللہ بن حسین(ع) المعروف عبداللہ بن حسین|علی الأصغر (ع) تیسرے شیعہ امام حضرت امام حسین علیہ السلام کے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام ہے جن کی والدہ رباب بن إمرئُ القیس ہیں۔ علی اصغر یا عبداللہ رضیع (شیرخوار 9 رجب المرجب سنہ 60 ہجری کو (امام حسین(ع) کی مکہ کی طرف عزیمت سے کچھ ہی روز قبل مدینہ میں پیدا ہوئے اور ٹھیک چہ مہینوں کی عمر میں 10 محرم الحرام سنہ 61 ہجری کو حرملہ کے ہاتھوں شہید ہوئے۔ علی اصغر ان چند بزرگوں میں سے ایک ہیں جنہيں باب الحوائج کا لقب عطا ہوا ہے۔ زیارت ناحیہ میں امام مہدی علیہ السلام نے انہیں اس عبارت سے سلام دیا ہے: "أَلسَّلامُ عَلَی الرَّضیـعِ الصَّغیرِ"(ترجمہ: سلام ہو چھوٹے شیرخوار پر)۔[9] لیکن کتب "المزار میں[10] محمد بن مشہدی و اقبال الاعمال سید بن طاؤس میں[11] امام زمانہ سے منسوب زیارت ناحیہ میں یہ عبارت نقل ہوئی ہے: "السلام على عبد الله بن الحسين الطفل الرضيع، المرمي الصريع، المتشحط دما، المصعد دمه في السماء، المذبوح بالسهم في حجر أبيه، لعن الله راميه حرملة بن كاهل الاسدي وذوية۔۔۔"(ترجمہ: سلام ہو حسین(ع) کے بیٹے عبداللہ پر، وہ شیرخوار طفل جو تیر کا نشانہ بنا اور زمین پر گرا اور اپنے خون میں تڑپا اور اس کا خون آسمان کی طرف چلا گیا اور اپنے باپ کی آغوش میں تیر کے ذریعے ذبح ہوا۔ خداوند متعال لعنت کرے اس پر تیر چلانے والے اور اس کو پژمردہ کرنے والے حرملہ بن کاہل اسدی پر۔
دس رجب

    ولادتِ امام محمد تقی الجواد(ع) (195ہجری 12 اپریل 811عیسوی)

تمام مؤرخین کا اتفاق ہے کہ امام محمد تقی الجواد علیہ السلام سنہ 195ہجری کو مدینۃ النبی، یثرب|مدینہ طیّبہ میں پیدا ہوئے ہیں لیکن یوم ولادت پر اختلاف ہے۔ محدث کلینی اپنی کتاب الکافی میں، شیخ مفید الارشاد میں شہید ثانی الدروس میں اور متعدد دیگر اکابرین کا کہنا ہے کہ امام جواد علیہ السلام رمضان المبارک سنہ 195 میں پیدا ہوئے ہیں لیکن انھوں نے آپ کا روز ولادت متعین نہیں کیا ہے؛ تاہم بعض کا کہنا ہے کہ آپ 19 رمضان سنہ 195 کی شب کو متولد ہوئے ہیں اور بعض دیگر کے مطابق آپ 15 رمضان کو پیدا ہوئے ہیں۔ شیخ طوسی مصباح المتہجد میں لکھتے ہیں کہ امام جواد علیہ السلام 10 رجب کے دن کو پیدا ہوئے ہیں۔[12]

پیدائش کی کیفیت

امام رضا کی بہن حکیمہ بنت امام موسی کاظم(ع) سے مروی ہے کہ جب امام علی رضا علیہ السلام کی زوجہ معظمہ خیزران کے ہاں بچے کی پیدائش کا وقت آن پہنچا ہے آپ بھی تیاری کریں؛ چنانچہ میں جناب خیزران اور دائی کے ہمراہ کمرے میں داخل ہوئی۔ درد زہ شروع ہوتے ہی چراغ بجھ گیا۔ میں فکرمند ہوئی تاہم کچھ لمحوں بعد امام جواد علیہ السلام نے چودھویں کے چاند کی مانند طلوع کیا جبکہ ایک پتلے کپڑے نے آپ کا جسم ڈھانپا ہوا تھا، ایسا نور آپ کے جسم اطہر سے ساطع ہورہا تھا کہ پورا کمرہ روشن ہوگیا۔ میں نے نومولود کو اٹھا کر اپنے دامن پر رکھا اور وہ پتلا سا کپڑا اس کے جسم سے الگ کیا۔ اسی وقت دروازہ کھل گیا اور امام علی رضا علیہ السلام داخل ہوئے طفل کو مجھ سے لے گہوارے میں لٹایا اور مجھ سے فرمایا: اے حکیمہ! گہوارے کا خیال رکھیں۔ تین دن گذرنے کے بعد حضرت جواد علیہ السلام نے اپنی مبارک آنکھیں آسمانی کی طرف کھول دیں۔ پھر دائیں اور بائیں نظر دوڑا دی اور فرمایا: "أشهَدُ ان لا اله الا اله وأشهد أنّ محمداً رسول الله"۔ (ترجمہ: گواہی دیتا ہوں کہ کوئی معبود نہيں ہے اللہ کے سوا اور محمد(ص) اللہ کے بھیجے ہوئے پیغمبر ہیں۔ میں ہراساں ہوکر امام رضا(ع) کی خدمت میں پہنچی اور عرض کیا: میں نے اس طفل کی طرف سے اس طرح کے حیرت انگیز عمل کا مشاہدہ کیا! امام(ع) نے فرمایا: آپ نے کون سی حیرت انگیز چیز دیکھی ہے؟ میں نے جو کچھ میں نے سنا تھا آپ(ع) کو کہہ سنایا۔ امام(ع) نے فرمایا آپ جو حیرت انگيز چیزیں اس طفل کی طرف سے دیکھیں گی وہ اس سے کہیں زیادہ ہے جو آپ نے سنا۔[13]
بارہ رجب

    معاویہ بن ابی سفیان کا انتقال (60ہجری بمطابق 21 اپریل 680عیسوی)
    امیرالمومنین امام علی علیہ السلام کی کوفہ آمد (36ہجری بمطابق 7 جنوری 657عیسوی)
    جنگ جمل کے بعد علی علیہ السلام فاتحانہ انداز سے بصرہ میں داخل ہوا اور عائشہ اور طلحہ و زبیر کے شکست خوردہ اسیروں اور زخمیوں کو معاف کیا۔ اہلیان بصرہ نے اپنے بعض افراد کی طرف سے باغیوں کی حمایت کے حوالے سے ندامت اور شرمندگی ظاہر کرتے ہوئے ایک بار امیرالمؤمنین(ع) کے ہاتھ پر بیعت کی۔ آپ چند روز بصرہ میں ٹہرے اور زخمیوں کا مداوا کیا اور بیت المال کو لوگوں کے درمیان تقسیم کیا اور عبداللہ بن عباس کو بصرہ کے والی کے طور پر متعین کرکے خود کوفہ کی طرف روانہ ہوئے۔[14] آپ 12 رجب المرجب سنہ 36 ہجری کو کوفہ پہنچے۔ کوفہ والوں نے شایان شان طریقے سے آپ کا استقبال کیا اور درخواست کی کہ کوفہ کے سرکاری محل دارالامارہ میں اتریں۔ مگر آپ نے سرکاری محل کے بجائے کھلی فضا میں اترنے کو ترجیح دی اور پھر کوفہ کی مسجد اعظم پہنچے اور دو رکعت نماز بجالانے کے بعد شہر کے باشندوں کو ایک خطبہ دیا؛ اور حمد باری تعالی اور محمد(ص) و آل محمد پر درود سلام کے بعد فرمایا:
    "فالحمد لله الذي نصر وليه، وخذل عدوه، وأعز الصادق المحق، وأذل الكاذب المبطل. عليكم - يا أهل هذا المصر - بتقوى الله وطاعة من أطاع الله من أهل بيت نبيكم، الذين هم أولى بطاعتكم من المنتحلين المدعين القائلين: إلينا إلينا، يتفضلون بفضلنا، ويجاحدونا أمرنا، وينازعونا حقنا ويدفعونا عنه، وقد ذاقوا وبال ما اجترحوا، فسوف يلقون غيا. وقد قعد عن نصرتي منكم رجال، وانا عليهم عاتب زار فاهجروهم وأسمعوهم ما يكرهون حتى يعتبونا ونرى منهم ما نحب"۔
    ترجمہ: تمام تعریقیں اللہ کے لئے جس نے اپنے دوستوں کو نصرت عطا کی اور اپنے دشمنوں کو مقہور و شرمندہ کیا۔ خدا شکر ہے جس نے سچے حقدار کو عزت دی اور جھوٹے اور عہد شکن کو خوار و ذلیل کیا، اے اس شہر کے باسیو! تمہیں تقوائے الہی کی تلقین کرتا ہوں اور یہ کہ پیروی کرو اپنے پیغمبر(ص) کے خاندان سے ایسے شخص کی جو خدا کا مطیع و فرمانبردار ہے، وہ خاندان اہل بیت) جو تمام باطل گو دعویداروں سے زيادہ، اطاعت و فرمانبرداری کے لائق ہیں، ان دعویداروں سے جو فرمانروائی کو اپنے تک محدود کرتے ہیں اور اس کا جھوٹا دعوی کرتے ہیں اور لوگوں کو اپنی طرف بلاتے ہیں اور کہتے ہیں "ہماری طرف آؤ، ہماری طرف آؤ، اور ہماری برتی اور فضیلت کے ذریعے اپنے لئے فضیلت کے قائل ہوجاتے ہیں (یعنی ہمارے لئے مختص فضائل کے ذریعے اپنے لئے ہمارے اوپر برتری اور فضیلت کے قائل ہوجاتے ہیں) اور ساتھ ہی ہماری حکومت اور ہماری ولایت اور امامت کا انکار کرتے ہیں اور ہمارے حقوق کو پامال کرتے ہیں اور ہمیں اپنے حق کے استعمال سے منع کرتے ہیں۔ بےشک انھوں نے بدسلوکی اور بدکراری کا کڑوا پانی چکھ لیا اور بہت جلد اس سے بھی زیادہ برے انجام کا (دوزخ اور آخرت میں) سامنا کریں گے، بےشک تم سے بھی بعض لوگوں نے ہماری مدد و حمایت سے ہاتھ کھینچ لیا اور یوں ہمارے دشمنون کو تقویت پہنچائی؛ میں ان کے کردار پر غضبناک ہوں اور ان سے خوشنود نہيں ہوں؛ چنانچہ ان سے دوری کرو اور جو کچھ انہیں پسند نہيں انہیں سنا دو تا کہ ہمیں خوشنود کریں اور وہ وہی کچھ کر دکھائیں جن کی ہمیں ان سے توقع ہے۔[15]
    امیرالمؤمنین علیہ السلام نے کوفہ آتے ہی اس شہر کو عالم اس دن کی اسلامی مملکت کا دارالخلافہ قرار دیا۔
    وفاتِ آیت اللہ شیخ جعفر کاشف الغطاء (1228ہجری 11 جولائی 1813عیسوی)
    وفاتِ آیت اللہ شیخ مرتضی چہرگانی انزابی(1381ہجری قمری بمطابق 20 دسمبر 1961عیسوی)

تیرہ رجب

    ولادتِ امیرالمؤمنین علی(ع) (23 سال قبل از ہجرت بمطابق 11 اکتوبر 599عیسوی یا 22 سال قبل از ہجرت بمطابق یکم اکتوبر 600عیسوی)۔(10 یا 9 سال قبل از بعثت)۔
    امیر المؤمنین امام علی علیہ السلام بروز جمعہ 13 رجب المرجب سنہ 30 بعد از عام الفیل کو شہر مکہ میں واقع خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے چونکہ روایات کے مطابق حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ عام الفیل میں ہی پیدا ہوئے ہیں اور وصال کے وقت آپ کی عمر مبارک 63 برس تھی، اور مؤرخین نے لکھا ہے کہ آپ(ص) کا سال ولادت سنہ 569 یا 570 عیسوی ہے اور یہ کہ امام علی علیہ السلام عام الفیل کے تیس برس بعد پیدا ہوئے ہیں چنانچہ کہا جاسکتا ہے امیرالمؤمنین(ع) سنہ 599 یا 600 عیسوی میں پیدا ہوئے ہیں۔ مسجد الحرام اور خانہ کعبہ میں آپ کی ولادت کا واقعہ شیعہ اور سنی کے ہاں تسلیم شدہ امر ہے۔
    اہل سنت کے ہاں لائق مدح و تعریف عالم حاکم نیشابوری نے لکھا ہے: متواتر روایات سے ثابت ہے کہ فاطمہ بنت اسد بن ہاشم(س) نے علی بن ابی طالب(ع) کو کعبہ کے اندر جنم دیا ہے۔ ۔[16]
    بہ کعبہ ولادت
    شیخ مفید کی روایت:
    "وُلِدَ بمكةَ في البيت الحرام يومَ الجمعةِ الثالث عشر من رجب سنة ثلاثين مِن عامِ الفيل، وَلَم يُولَد قَبلَهُ وَلا بَعدَهُ مولودٌ في بيت الله تعالى سواهُ إكراماً من الله تعالى لَهُ بُذلكَ وإجلالاً لِمَحَلِّهِ فِي التَعظيمِ"۔
    ترجمہ: حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام جمعہ 13 رجب المرجب 30 سال بعد از عام الفیل مکہ معظمہ میں واقع خانہ کعبہ میں پیدا ہوئے۔ نہ آپ سے قبل نہ ہی آپ کے بعد کوئی کعبہ میں متولد نہيں ہوا تھا۔ خانہ کعبہ میں علی علیہ السلام کی ولادت وہ عظیم شرف و فضیلت ہے جو اللہ تعالی نے آپ کے مقام و مرتبے کی تکریم کی خاطر آپ سے مختص کی ہے۔[17]
    حاكم نيشابوري (وفات 405هـ) کی روایت:
    "فقد تواترت الأخبار أن فاطمة بنت أسد ولدت أمير المؤمنين علي بن أبي طالب كرم الله وجهه في جوف الكعبة"۔
    ترجمہ: اس سلسلے مین احادیث و روایات متواتر ہیں کہ فاطمہ بنت اسد نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب کرم اللہ وجہہ کعبہ کے اندر جنم دیا ہے۔[18]
    شاہ ولي اللہ دہلوي (متوفی 1176هـ) کی رائے:
    و از مناقب وي رضي الله عنه كه در حين ولادت او ظاهر شد يكي آن است كه در جوف كعبه معظمه تولد يافت"۔
    ترجمہ: اور آپ رضی اللہ عنہ کے مناقب میں سے ایک منقبت ـ جو آپ کی پیدائش کے وقت ظاہر ہوئی ـ یہ کہ آپ کعبۂ معظمہ میں پیدا ہوئے۔[19]
    خاندان آپ عبد مناف ابوطالب بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف کے فرزند ہیں اور آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد بنت ہاشم بن عبد مناف ہیں اور اس لحاظ سے آپ بنو ہاشم کے پہلے فرد ہیں والد اور والدہ ـ دونوں ـ کی جانب سے ہاشمی ہیں۔
    ولادت آیت اللہ عبدالکریم موسوی اردبیلی (1344ہجری قمری بمطابق 27 جنوری 1926 عیسوی)
    وفاتِ آیت اللہ شیخ فضل اللہ نوری (1327ہجری قمری بمطابق 31 جولائی 1909 عیسوی)

چودہ رجب

    امام حسن عسکری علیہ السلام کے قاتل عباسی بادشاہ معتمد عباسی کا انتقال (ع)(279ہجری بمطابق 14 اکتوبر 892عیسوی)

پندرہ رجب

    امام حسین(ع) کی زیارت کا یومِ خاص (روز زیارتی امام حسین علیہ السلام)۔
    وفاتِ سیدہ زینب کبری(س) (62ہجری بمطابق 2 اپریل 682عیسوی)
    مسجد الاقصی سے مسجد الحرام کی طرف قبلہ کی تبدیلی (2ہجری 15 جنوری 624عیسوی)
    حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کا شعب ابی طالب سے باہر آنا (10بعثت بمطابق 26 فروری 620عیسوی)
    شہادتِ امام جعفر صادق علیہ السلام (148ہجری بمطابق 10 ستمبر 765عیسوی)
    وفاتِ آیت اللہ علی مشکینی (1428 ہجری بمطابق 30 جولائی 2007 عیسوی)
    ولادتِ آیت اللہ سید ابوالقاسم خوئی (1317ہجری بمطابق 19 نومبر 1899عیسوی)

سولہ رجب

    امیرالمؤمنین(ع) کی ولادت کے 3 دن بعد سیدہ فاطمہ بنت اسد(س) کا کعبہ سے باہر آنا (23 سال قبل از ہجرت بمطابق 14 اکتوبر 599عیسوی یا 22 سال قبل از ہجرت بمطابق 4 اکتوبر 600عیسوی)۔(10 یا 9 سال قبل از بعثت)۔

سترہ رجب

    ماُمون کا انتقال (218ہجری بمطابق 12 اگست 833عیسوی)

اٹھارہ رجب

    رسول اللہ(ص) کے فرزند ابراہیم بن محمد(ص) کی (10ہجری 23 اکتوبر 631عیسوی)
    یزیدی خلافت کا پہلا دن (60ہجری)
    ولادتِ آیت اللہ ملامحمد اشرفی مازندرانی (1220ہجری بمطابق 12 اکتوبر 1805عیسوی)

انیس رجب

    وفاتِ آیت اللہ شیخ مجتبی حاج آخوند(1422ہجری بمطابق 7 اکتوبر 2001عیسوی)۔
    وفاتِ آیت اللہ شیخ محمد خالصی زادہ(1383ہجری بمطابق 6 دسمبر 1963عیسوی)

بائیس رجب

    جنگ خیبر میں ابوبکر بن ابی قحافہ کا میدان جنگ سے فرار ہوجانا (7ہجری 28 نومبر 628عیسوی)
    حاکم نیشابوری: حدیث 4338|42: سلمہ بن عمرو بن اکوع کی روایت "بعث رسول الله (صلى الله عليه وآله) ابا بكر رضى الله عنه إلى بعض حصون خيبر فقاتل وجهد ولم يكن فتح"۔ * هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه *
    (ترجمہ: رسول اللہ(ص) نے ابوبکر کو خیبر کے بعض قلعے فتح کرنے کی غرض سے روانہ کیا، پس وہ لڑے اور کوشش کی مگر قلعے کو فتح نہ کرسکے!)۔ ٭ حدیث صحیح الاسناد ہے مگر صحیحین نے اسے اپنے ہاں نقل کرنا مناسب نہيں سمجھا ہے)!!
    حدیث 4338أ/42أ _ ابو لیلی کی روایت: عن ابى ليلى عن علي انه قال يا ابا ليلى اما كنت معنا بخيبر قال بلى والله كنت معكم قال فان رسول الله صلى الله عليه وآله بعث ابا بكر إلى خيبر فسار بالناس وانهزم حتى رجع * هذا حديث صحيح الاسناد ولم يخرجاه* (ترجمہ: علی(ع) نے مجھ سے مخاطب ہوکر کہا: اے ابو لیلی! کیا تم خیبر میں ہمارے ساتھ نہ تھے؟ میں نے کہا: کیوں نہیں! اور علی(ع) نے کہا: رسول اللہ(ص) نے ابوبکر کو خیبر فتح کرنے کے لئے روانہ کیا اور وہ لوگوں کو لے کر گئے اور شکست کھاگئے حتی کہ پلٹ کر واپس آئے)۔ ٭ حدیث صحیح الاسناد ہے مگر صحیحین نے اسے اپنے ہاں نقل کرنا مناسب نہيں سمجھا ہے!!
    حدیث 4339|43: عبداللہ بن بریدہ کی روایت: "(حد)ثنا عبد الله بن بريدة عن ابيه رضى الله عنهما ۔۔۔ وان ابا بكر رضى الله عنه اخذ رأية رسول الله صلى الله عليه وآله ثم نهض فقتل قتالا شديدا ثم رجع"۔ هذا حديث صحيح الاسناد . لم يخرجاه *
    (ترجمہ: عبد اللہ بن بریدہ نے اپنے والد سے روایت کی ہے: ۔۔۔ اور ابوبکر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کا پرچم سنبھالا اور شدت کے ساتھ لڑے اور پھر واپس پلٹ کر آئے)۔ ٭یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ۔ مگر صحیحین نے اسے اپنے ہاں نقل کرنا مناسب نہيں سمجھا ہے!!۔[20]
    وفاتِ آیت اللہ سید محمدحسین فضل اللہ (1431 ہجری بمطابق 4 جولائی 2010 عیسوی)۔
    وفاتِ آیت اللہ سید جلال الدین طاہری اصفہانی (1434ہجری قمری بمطابق یکم جون 2013 عیسوی)

تئیس رجب

    مدائن میں امام حسن مجتبی علیہ السلام پر حملہ (41ہجری بمطابق 25 نومبر 661عیسوی)
    امام موسی کاظم علیہ السلام کا ہارون کے حکم پر مسموم ہوجانا (183ہجری بمطابق 3 ستمبر 799ہجری)
    جنگ خیبر میں عمر بن خطاب کا میدان جنگ سے فرار ہوجانا (7ہجری بمطابق 29 نومبر 628عیسوی)
    وفاتِ آیت اللہ سید حسین کوہ کمرہ ای (1299ہجری قمری بمطابق 10 جون 1882عیمسوی)۔

چوبیس رجب

    فتحِ خیبر بدست امیرالمومنین(ع)(7ہجری بمطابق 30 نومبر 628عیسوی)
    جعفر طیار(ع) کی حبشہ سے واپسی (7ہجری بمطابق 30 نومبر 628 عیسوی)
    وفاتِ آیت اللہ سید محمدمہدی بحرالعلوم(1212ہجری بمطابق 12 جنوری 1798عیسوی)

پچیس رجب

    شہادتِ امام موسی کاظم علیہ السلام (183ہجری بمطابق 5 ستمبر 799عیسوی)
    وفاتِ آیت اللہ شیخ عباس علی اسلامی (1406ہجری بمطابق 5 اپریل 1986عیسوی)
    وفاتِ آیت اللہ ملامحمدجواد صافی گلپایگانی(1378ہجری بمطابق 4 فروری 1959عیسوی)
    شہادتِ آیت اللہ شیخ مہدی شاہ آبادی (1404ہجری بمطابق 26 اپریل 1984عیسوی)

چھبیس رجب

    وفاتِ حضرت ابوطالب(ع) (10 بعد از بعثت بمطابق یکم اپریل 618 یا 21 مارچ 619عیسوی)
    وفاتِ آیت اللہ محمدباقر فِشارَکی (1314ہجری بمطابق 31 دسمبر 1896عیسوی)
    وفاتِ علامہ محمد تقی جعفری (1419ہجری بمطابق 16 نومبر 1998 عیسوی)

ستائیس رجب

    حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ کی بعثتِ (40 سال بعد از عام الفیل بمطابق 9 جولائی 609 عیسوی یا 28 جون 610عیسوی)

اٹھائیس رجب

    امام حسین علیہ السلام کی مدینہ سے مکہ روانگی (60ہجری بمطابق 7 مئی 680ہجری)
    تاریخ اسلام کی پہلی نماز 27 رجب کو بعثت نبی(ع) کے بعد 28 رجب کو آپ نے نماز ادا کی اور امیرالمؤمنین علی(ع) اس نماز میں شریک ہوئے۔ (چالیس سال بعد از عام الفیل بمطابق 10 جولائی 609 یا 29 جون 610عیسوی)
    وفاتِ آیت اللہ سید محمدکاظم یزدی(صاحب عروة الوثقی) (1337ہجری بمطابق 29 اپریل 1919 عیسوی)

انتیس رجب

    حنفی فقہی مکتب کے امام ابو حنیفہ کی وفات بغداد (150ہجری بمطابق 3 ستمبر 767عیسوی)
    شافعی مذہب کے امام ابو عبداللہ محمد بن ادریس شافعی کی وفات مصر (204ہجری بمطابق 23 جنوری 820عیسوی)
    وفاتِ آیت اللہ سید محمدہادی میلانی(1395ہجری بمطابق 7 اگست 1975عیسوی)

|}
پاورقی حاشیے
سانچہ:Align-right

مصباح كفعمى، ج 2 ص 599 . زاد المعاد، ص 20. مصباح المتهجد شيخ طوسى: ص 737. فيض العلام: ص 294. مناقب ابن شهر آشوب: ج 4 ص 227. اعلام الورى: ج 1 ص 498 . مسار الشيعة: ص 33. قلائد النحور: ج رجب، ص 4 . بحار الانوار: ج 46 ص 212۔
مناقب آل ابی طالب، ابن شهر آشوب: ج 4 ص 227
طبرسی ، اعلام الوری ، الطبعة الثالثه ، دارالکتب الاسلامیه ، ص 355 ؛ شیخ مفید ، الارشاد ، قم ، مکتبه بصیرتی ، ص 327 ۔
شیخ عباس قمی، وقایع الایام، ص 282۔
بحار الانوار، ج 50، ص 206۔ منتخب التواریخ، ص 705۔ منتهی الامال، ج2، ص 258۔
سورہ ہود (11) آیت 65۔ ترجمہ: علی نقی نقوی (نقن)۔
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 50، ص 147، شماره 32۔
الطبرسی، إعلام الورى بأعلام الهدى ج1، ص546. تاریخ ابو الفداء ج2 ص 14۔معجم الرجال الحدیث 20؛ اعیان الشیعه،‌ ج 10،‌ ص 306۔
معالی السبطین، ج 1، ص 423۔
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 45، ص 66۔
اولین دانشگاه و آخرین پیامبر، شهید پاک نژاد، ج 2، ص 4۔
محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 50، ص 1 تا 14۔
ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب(ع)، ج4 ص394۔
أنساب الاشراف (احمد بن يحيي بلاذري)، ج 2، ص 180۔
الأخبار الطوال (دينوري)، ص 152؛ انساب الاشراف، ج 2، ص 182؛ تاريخ اليعقوبي، ج 2، ص 184۔ الارشاد، ص 249۔
محمد باقر مجلسی، بحارالانوار، ج 35، ص7۔ حاکم نیشابوری، مستدرک علی الصحیحین۔
الشيخ المفيد، أبي عبد الله محمد بن محمد بن النعمان العكبري البغدادي (متوفاي413هـ)، الإرشاد في معرفة حجج الله علي العباد، ج1، ص5، تحقيق: مؤسسة آل البيت عليهم السلام لتحقيق التراث، ناشر: دار المفيد للطباعة والنشر والتوزيع - بيروت، الطبعة: الثانية، 1414هـ - 1993 عیسوی۔
النيسابوري ، محمد بن عبدالله أبو عبدالله الحاكم (متوفاي405 هـ) ، المستدرك على الصحيحين ، ج 3 ، ص 550 ، تحقيق : مصطفى عبد القادر عطا ، ناشر : دار الكتب العلمية - بيروت ، الطبعة : الأولى ، 1411هـ - 1990عیسوی۔
دهلوي ، شاه ولى الله مشهور به محدث هند (متوفاي 1180هـ) ، إزالة الخفاء عن خلافة الخلفاء ، ج 4 ، باب : اما مآثر اميرالمؤمنين وامام اشجعين اسد الله الغالب علي بن ابي طالب رضي الله عنه، تصحيح و مراجعه: سيد جمال الدين هروى۔

    المستدرك على الصحيحين للإمام الحافظ ابي عبداللہ محمد بن عبداللہ الحاکم النیسابوری، دراسۃ وتحقيق مصطفي عبد القادر عطاء، الجزء الثالث، منشورات محمد علی بیضون للنشر کتب السنۃ والجماعۃ دارالکتب العلمیۃ، بیروت لبنان۔ الجزء الثالث ص39۔۔۔ بإشراف د . يوسف عبد الرحمن المرعشلي الجزء الثالث دار المعرفة بيروت - لبنان۔ج3 ص37۔ یہ حدیث اسی صورت میں مستدرک علی االصحیحین میں موجود ہے اور انھوں نے اس حدیث کو صحیح الاسناد قرار دیا ہے لیکن کہا ہے کہ بخاری اور مسلم نے اس کو نقل نہيں کیا ہے۔ ذہبی نے تلخیص المستدرک میں اس حدیث کو "فرار أبى بکر و عمر يوم الخیبر" کے عنوان کے تحت نقل کیا ہے۔ دیگر مآخذ و مصادر کچھ یوں ہیں: ترجمة الامام على بن أبى طالب من تاریخ دمشق لابن عساکر ج 1 / 169 ح 233 و 234 و 235 و 236 و 240 و 241 و 247 و 261 و 262 ط 1، مناقب على بن أبى طالب لابن المغازلى ص 181 ح 217 ط 1، خصائص أمیر المؤمنین للنسائی ص 52 و 53، أسد الغابة ج 4 / 21، مسند أحمد ج 6 / 353، البدایة والنهایة ج 4 / 186، الغدیر ج 1 / 38، مجمع الزوائد ج 9 / 122 و 124، مصنف ابن أبى شیبة ج 6 / 154، الصحیح من سیرة النبی الاعظم ج 3 / 282، تذکرة الخواص، مسند البزاز ج 1، الکامل لابن الاثیر ج 2 / 149۔ ۔

|}
مآخذ

    محمد بن یعقوب کلینی، الكافي
    حسینی خاتون آبادی، عبدالحسین، وقایع السنین و الاعوام، کتابفروشی اسلامیہ، 1352ہجری شمسی۔
    سایت پورتال اہل بیت(ع)[http: بمطابق بمطابق ahlulbaytportal.com بمطابق fa.php بمطابق page,22181A45681.html]
    قمی، شیخ عباس، فيض العلام فى عمل الشہور و وقايع الايام، انتشارات صبح پیروزی
    مرعشی نجفی، سید محمود، حوادث الایام، انتشارات نوید اسلام، 1385 ہجری شمسی۔
    ملبوبی، محمدباقر، الوقایع و الحوادث، انتشارات دارالعلم، 1369 ہجری شمسی۔
    میرحافظ، سیدحسن، تقویم الواعظین، انتشارات الف، 1416ہجری قمری۔
    نیشابوری، عبدالحسین، تقویم شیعہ، انتشارات دلیل ما، 1387 ہجری شمسی۔
    دانشنامہ رشد۔


source : abna24
0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

لڑکیوں کی تربیت
جناب سبیکہ (امام محمّد تقی علیہ السلام کی والده )
عبادت،نہج البلاغہ کی نظر میں
اخلاق کى قدر و قيمت
اسوہ حسینی
ائمہ اثنا عشر
فلسفہٴ روزہ
نہج البلاغہ اور اخلاقیات
عید مبعث اور شب معراج ، رحمت اللعالمین کی رسالت ...
عورت کا مقام و مرتبہ

 
user comment