بات یہ ہے کہ صرف شیعہ ہی اس بات کے قائل نہیں ہیں کہ ائمہ اہل بیتؑ علم میں امتیازی شان رکھتے ہیں،بلکہ اکثر اہل سنت بھی اس کے قائل ہیں۔ ۱
۔پیغمبر کی مشہور حدیث ہے کہ علیؑ مسلمانوں میں اعلم یا صحابہ میں اعلم ہیں اور ان سب سے افضل ہیں))(۱)اور سب سے بڑے قاضی ہیں۔(۲)
-۲۔عبداللہ بن مسعود سے حدیث ہے کہ قرآن سات حروف پر نازل ہوا اور ہر حرف کا ظاہر اور باطل ہے اور علی ابن ابی طالب علیہ السلام ہی کو اس کے ظاہر و باطن کا علم ہے۔(۳)
۳۔ابن عباس کہتے ہیں علیؑ کے پاس ستّر ایسے عہد(مجموعہ علمی جسے رسول خداؐ نے عطا فرمایا تھا)ہیں جن میں سے ان کے غیر کو ایک بھی عہد حاصل نہیں ہے۔(۴)
۴۔انس بن مالک کہتے ہیں کہ نبیؐ نے علیؑ سے کہا کہ امت کے اختلاف کی میرے بعد تم ہی وضاحت کروگے(تمہارے ہی ذریعہ اختلاف ختم ہوگا)(۵)
۵۔شافعی کہتے ہیں:علیؑ نہ ہوتے تو باغیوں کے بارے میں حکم معلوم ہی نہ ہوتا۔(6)
۶۔اور اب تمام باتوں سے اوپر امیرالمومنینؑ کے بارے میں ایک قول مشہور اور متواتر ہے کہ آپؑ ہی شہر علم نبیؐ کا در ہیں۔(7)
نبی کی حکمت کے دروازہ ہیں۔(8)علم نبیؐ کے وارث ہیں،(9)علوم کے خزانہ ہیں،(10)خازن ہیں،(11)اور ظرف قابل ہیں۔(12)
۷۔خود امیرالمومنینؑ فرماتے ہیں کہ مجھے پیغمبرؐ نے علم کے ہزار ابواب تعلیم فرمائے اور ہر باب سے مجھ پر علم کے ہزار باب کھلے۔
اس حدیث کو جمہور اہل سنت نے روایت کیا ہے۔(13)
شیخ صدوقؒ نے پانچ طریقوں سے امیرالمومنینؑ سے روایت کیا ہے اور بیس سے زائد طریقوں سے آپ کی اولاد طاہرین میں سے ائمہؐ سے نقل کیا ہے،اس کے ساتھ ہی کچھ الفاظ بھی وارد کئے ہیں،جن سے اس مضمون کی تائید ہوتی ہے۔(14)
بکیر کہتے ہیں کہ مجھ سے اس شخص نے اس حدیث کی روایت کی ہے جس نے ابوجعفر محمد باقر علیہ السلام سے یہ روایت سنی ہے پھر فرمایا:(ان ہزار ابواب میں سے)سوائے ایک باب کے،دوسروں کے لئے کوئی باب بھی نہیں کھلا صرف ایک باب یا دو باب اور جہاں تک میرا علم ساتھ دیتا ہے ایک ہی باب فرمایا تھا۔(15)
ابوبصیر کی حدیث میں ہے کہ ان ابواب میں سے قیامت تک لوگوں کو صرف دو حرفوں کا علم حاصل ہوگا۔(16)
یہ بھی مشہور ہے کہ عمر اور ابوبکر،خاص طور سے عمر پیچیدہ مسائل میں علیؑ ہی کے در پر آتے تھے،ابھی چوتھے سوال کے جواب میں یہ بات گذرچکی ہے کہ ثاقب ابن شماس ابن قیس نے علیؑ کی بیعت کے وقت کہا تھا کہ لوگوں سے نہ آپ کا مرتبہ پوشیدہ ہے نہ خود آپ سے آپ کا مرتبہ پوشیدہ ہے،آپ اپنی منزل سے خدا نخواستہ جاہل نہیں ہیں،لوگ جن باتوں کو نہیں جانتے ان کے لئے آپ کے محتاج ہیں اور آپ اپنے علم کی وجہ سے کسی کے محتاج نہیں ہیں۔(17)
یہاں تک کہ خلیل ابن احمد فراہیدی سے علیؑ کی امامت پر بھرپور دلیل مانگی گئی تو انھوں نے کہا:((احتیاج الکل الیہ و استغناء عن الکل))حضرت علی علیہ السلام کی امامت کا ثبوت یہ ہے کہ سب علم میں علیؑ کے محتاج ہیں اور علی سب سے بےنیاز ہیں(کسی کے محتاج نہیں)(18)
تو علیؑ کی معصوم اولاد یعنی ائمہ اہل بیتؑ کو بھی علیؑ کو بھی علیؑ کا علم اسی طرح میراث میں ملا جس طرح علیؑ کو علم پیغمبرؐ میراث میں ملا ہے اور پیغمبرؐ کو انبیائے ماسبق کا علم میراث میں ملا ہے،ائمہؑ علم علیؑ کے وارث علیؑ پیغمبرؐ کے وارث اور پیغمبرؐ علم انبیائے ماسلف کے وارث،اسی لئے شیعہ بھی علم دین کی روایت انھیں ائمہ اہل بیتؑ سے نقل کرتے ہیں.
ائمہ اہل بیتؑ کی برکت سے ہی شیعوں کا دینی ماحول اور ثقافت علمی پروان چڑھتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)مستدرک علی صحیحین ج:۳ص:۵۷،مجمع الزوائد ج:۹ص:۱۰۱۔۱۰۲،فردوس بما ثور الخطاب ج:۱ص:۳۷۰،مسند احمد ج:۵ص:۲۶،معجم الکبیر ج:۱ص:۹۴،ج:۲۰ص:۲۲۹،المصنف لابن ابی شیبۃ ج:۶ص:۳۷۴۔۳۷۱،المصنف لعبد الرزاق ج:۵ص:۴۹۰،الاحاد و المثانی ج:۱ص:۱۴۲،
(۲)چھٹے سوال کے جواب میں اس کا مدرک گذرچکا ہے
(۳)تاریخ دمشق ج:۴۲ص:۴۰۰،فیض القدیر ج:۳ص:۴۶،حلیۃ الاولیاء ج:۱ص:۶۵،ینابیع المودۃ ج:۱ص:۲۱۵،ج:۳ص:۱۴۶
(۴)تاریخ دمشق ج:۴۲ص:۳۹۱،السنۃ لابن ابی عاصم ج:۲ص:۵۶۴،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،مجمع الزوائد ج:۹ص:۱۱۳،معجم الصغیر ج:۲ص:۱۶۱،فیض القدیر ج:۴ص:۳۵۷،تھذیب التھذیب ج:۱ص:۱۷۳،تھذیب الکمال ج:۲ص:۳۱۱،ینابیع المودۃ ج:۱ص:۲۳۳،حلیۃ الاولیاء ج:۱ص:۶۸،علی بن ابی طالبؑ کے حالات میں،
(۵)چوتھے سوال کے جواب میں اس کا مدرک گذرچکا ہے
(6)صواعق محرقہ ص:۷۹
(7)چھٹے سوال کے جواب میں اس کا مدرک گذرچکا ہے،اور کتاب الغدیر میں بھی ہے ج:۶ص:۶۱
(8)سنن ترمذی ج:۵ص:۶۳۷،حدیث خیثمہ ص:۲۰۰،حلیۃ الاولیاء ج:۱ص:۶۴فضائل الصحابہ ج:۲ص:۳۱،تھذیب الاسماء ص:۳۱۹،علل ترمذی للقاضی ص:۳۷۵،فیض القدیر ج:۳ص:۴۶،میزان الاعتدال ج:۵ص:۵۳،ج:۶ص:۳۱،ص:۲۷۹،المجروحین ج:۲ص:۹۴،لسان المیزان ج:۴ص:۱۴۴،ج:۵ص:۱۹،الکامل فی الضعفاء الرجال ج:۵ص:۱۷۷،الکشف الحثیث ص:۲۱۴،تھذیب الکمال ج:۲۱ص:۲۷۷،تاریخ بغداد ج:۱۱ص:۲۰۳،علل الدار قطنی ج:۳ص:۲۴۷،سوالات البرذعی ص:۵۱۹،کشف الخفاء ج:۱ص:۲۳۵،
(9)چھٹے سوال کے جواب میں اس کا مدرک گذرچکا ہے
(10)تاریخ دمشق ج:۴۲ص:۳۸۵،فیض القدیر ج:۴ص:۳۵۶،میزان الاعتدال ج:۳ص:۴۴۹ الکامل فی الضعفاء الرجال ج:۳ص:۱۰۱،التدوین فی اخبار قزوین ج:۱ص:۸۹،علل متناھیہ ج:۱ص:۲۲۶جامع الصغیر ج:۲ص:۱۷۷،حدیث۵۵۹۳،ینابیع المودۃ ج:۱ص:۱۵۹۔۳۸۹۔۳۹۰،ج:۲ص:۹۶۔۷۷،مناقب للخوارزمی ص:۸۷،شرح نہج البلاغہ ج:۹ص:۱۶۵
(11)شرح نہج البلاغہ ج:۹ص:۱۶۵ (12)کفایۃ الطالب ص:۱۶۷۔۱۶۸،باب۳۷
(13)کنزالعمال ج:۱۳ص:۱۱۴۔۱۱۵،حدیث:۳۶۳۷۲،تاریخ دمشق ج:۴۲،ص:۳۸۵،سیر اعلام نبلاء ج:۸ص:۲۴۔۲۶،البدایۃ و النہایۃ،ج:۷ص:۳۶۰،فتح الباری ج:۵ص:۳۶۳،میزان الاعتدال ج:۲ص:۴۰۱ج:۴ص:۱۷۴،الکامل فی الضعفاء ج:۲ص:۴۵۰،کشف الحثیث ج:۱ص:۱۶۰،المجروحین ج:۲ص:۱۴،علل متناہیہ ج:۱ص:۲۲۱،درر السمطین ص:۱۱۳،ینابیع المودۃ ج:۱ص:۲۲۲۔۲۳۱
(14)الخصاص ص:۱۶۴
(15)الخصاص ص:۶۴۲۔۲۵۲،
(16)الخصال ص:۶۴۹
(17)تاریخ یعقوبی ج:۲ص:۱۷۹
(18)معجم رجال الحدیث ج:۸ص:۸۱،خلیل نحوی کی سوانح حیات
source : alhassanain