امام حسن ؑ تین ہجری، پندرہ رمضان المبارک کی رات یا دن کے وقت دنیا میں تشریف لائے اگرچہ بعض روایات میں (آپؑ کی ولادت کا سال) دو ہجری نقل ہوا ہے جو درست دکھائی نہیں دیتا۔ آپؑ کی ولادت کے دن اور مہینے میں کوئی اختلاف بیان نہیں ہوا ہے۔
امام حسن ؑ کے فضائل کے بارے میں بکثرت روایات نقل ہوئی ہیں ۔ ان روایات کے راوی بہت سے علمائے اہل سنت اور علمائے شیعہ ہیں ۔ تاریخ کے متعدد ادوار میں ایسی بہت سی کتابیں لکھی گئی ہیں جن میں امام حسن ؑ کے فضائل کو جمع کیا گیا ہے، لیکن افسوس کی بات ہے کہ آپؑ کی زندگی میں پیش آنے والے واقعات کے بارے میں حالیہ زمانے تک بھی بہت کم قابل توجہ کاوشیں منظر عام پر آئی ہیں ۔ بلکہ اکثر دوسرے اور تاریخی ادوار کی مانند ، اس دور کے حوادث بھی بغیر کسی سنجیدہ تحقیق اور بنا کسی گہرے تجزیے و تحلیل کے اکٹھے کردیئے گئے ہیں ۔ امام حسن ؑ کے بارے میں نقل ہونے والے بہت سے فضائل سے یہ پتا چلتا ہے کہ رسول خدا کو ان دو بھائیوں (حسنین ؑ) سے بہت زیادہ محبت تھی، اور آپ علی الاعلان ان سے اپنی محبت کا اظہار کیا کرتے تھے ۔ حسنین ؑ سے آنحضرت کے اظہار محبت کا انداز آپ کا منبر سے نیچے اترنا اور ان کے بوسے لے کر دوبارہ منبر پر تشریف فرما ہونا، اس بات کی علامت ہے کہ یہ انداز اور اظہار محبت ایک مقصد کے تحت تھا۔ علاوہ ازیں رسول اللہ سے منقول ہے کہ آپ نے امام حسن ؑ کے ساتھ اپنی محبت کے اظہار کے موقع پر فرمایا کہ : دیکھنے والے اس اظہار محبت سے ان لوگوں کو مطلع کریں جو یہاں موجود نہیں ہیں ۔ یا آپ فرمایا کرتے تھے کہ: میں اس سے محبت کرتا ہوں ، اور اس سے بھی محبت کرتا ہوں جو اس سے محبت کرتا ہے۔“
”مبابلے“ میں امام حسن ؑ کی موجودگی، اور آپ کا اصحاب کساءمیں سے ہونا ، رسول خدا کے نزدیک آپؑ کی اہمیت اور آپؑ کے اعتبار کی علامت ہے۔ قابل توجہ بات یہ ہے کہ امام حسن مجتبیٰ ؑ بیعت رضوان میں موجود تھے اور نبی اکرم نے ان سے بیعت لی تھی۔
رسول خدا کی ایک روایت میں آیا ہے کہ:” اگر عقل کسی انسان کی صورت میں مجسم ہوتی تو وہ حسن ؑ ہوتے۔“ ناکثین کی شورش کے موقع پر اہل کوفہ کو جنگ پر ابھارنے کے سلسلے میں امام حسن ؑ کی کامیابی اس شہر کے لوگوں کے نزدیک آپؑ کی اہمیت اور اعتبار کی علامت ہے ۔ رسول اللہ کی ایسی احادیث کی وجہ سے مسلمان ، فاطمہ زہرا ؑ کے بچوں کو اولاد رسول سمجھتے تھے اور بنی امیہ اور ان کے بعد بنی عباس کے انکار کے باوجود مسلمانوں میں اس بات میں کوئی معمولی سا بھی شک پیدا نہیں ہوا تھا۔
انہی عظیم خصوصیات کی وجہ سے حضرت علی ؑ جیسی ہستی نے لوگوں میں اپنے جانشین کے طور پر آپؑ کا تعارف کرایا۔ عراق اور بہت سے دوسرے علاقوں کے لوگوں نے باضابطہ خلیفہ کی حیثیت سے آپؑ کی بیعت کی ۔ اس کے باوجود، مخصوص مفادات رکھنے والوں کی جانب سے مختلف علاقوں میں امام ؑ کی شخصیت کو داغدار کرنے کی کوشش کی گئی، اور آپؑ کو ایک طرف تو تدبیر و سیاست سے بے بہرہ اور دوسری جانب (نعوذ باللہ) دنیا پرست اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپؑ کے موقف کو حضرت علی ؑ اور امام حسین ؑ کے موقف کے برخلاف ظاہر کیا گیا۔ مثال کے طور پر یہ کوشش کی گئی کہ بے بنیاد خبریں گھڑ کر امام حسن ؑ کا تعارف ایک ایسے شخص کے طور پر کرایا جائے، جو ہمیشہ شادیاں کرنے اور طلاق دینے میں مصروف رہا کرتے تھے۔ ایک اور موقع پر دیکھتے ہیں کہ صلح سے متعلق روایات میں اس طرح ظاہر کیا گیا ہے جیسے امام ؑ صرف چند ایسے وعدوں پر جن کا تعلق مال و دولت سے تھا،حکومت سے کنارہ کش ہونے پر آمادہ ہوگئے تھے۔ یعنی آپؑ صرف ”دارابجرد“ اور ”اہواز“ کا خراج اور کوفہ کے بیت المال میں موجود مال و دولت کا حصول چاہتے تھے۔
انہی روایات میں یہ بات پیش کرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ امام ؑ اپنے آپ کو خلافت کا حقدار نہیں سمجھتے تھے۔ اسی لئے آپؑ نے اسے امیر شام کے حوالے کردیا۔ حالانکہ یہ محض ایک تہمت ہے۔ کیونکہ امام ؑ نے بار ہا اس نکتے کو وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے کہ ”خلافت صرف ان کا حق ہے، اور آپؑ جبراً اسے امیر شام کے حوالے کررہے ہیں ۔ “ امامت و ولایت کے مخالفین امام ؑ کی جانب سے یہ موقف منسوب کرکے آپؑ کی کردار کشی(جو زیادہ تر بنی عباس کی جانب سے کی گئی کیونکہ بنی حسن ؑ ان کے لئے مشکلات کھڑی کررہے تھے) کے ساتھ ساتھ ایک اور فائدہ اٹھایا کرتے تھے اور وہ حضرت علی ؑ اور حتیٰ آپ ؑ کے بھائی حسین ابن علی ؑ کی مذمت کو صحیح قرار دینا تھا۔ چنانچہ امام ؑ کی زبانی یہ جھوٹا قول نقل کیا گیا ہے کہ :” میں ملک کی خاطر امیر شام سے جنگ کرنے پر تیار نہیں ہوں۔“ یہ بات حضرت علی ؑ کی جنگوں کی مذمت کے لئے اہل سنت کے متعصب افراد کے کام آسکتی تھی۔
اسی بناءپر یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ امام حسن ؑ کی ولادت کے وقت آپؑ کے والد آپؑ کا نام ”حرب“ رکھنا چاہتے تھے۔ اس کے معنی یہ ہیں کہ حضرت علی ؑ ابتداءہی سے فطری طور پر جنگ و جدال کو پسند کیا کرتے تھے ۔ بعض روایتوں میں آیا ہے کہ امام حسن ؑ نے فرمایا:” عرب کی تمام طاقت میرے ہاتھ میں ہے صلح کروں یا جنگ کروں سب میرے ساتھ ہوں گے۔“ اس کے علاوہ یہ کہ:” ایک لاکھ یا چالیس ہزار افراد نے آپؑ کی بیعت کی اور حتیٰ لوگ انہیں ان کے بابا سے بھی زیادہ پسند کرتے تھے۔“ اگر کوئی ان خلاف حقیقت روایات کو قبول کرلے تو قدرتی طور پر وہ یہی سمجھے گا کہ امام ؑ نے حکومت راضی خوشی امیر شام کے حوالے کی ہے، نہ کہ مجبوراً یہ کام کیا ہے۔ ان دو نظریات کا فرق بالکل واضح ہے۔
ایک اور نکتہ یہ ہے کہ مورخین کا یہ گروہ اپنی تاریخی روایات کے ذریعے یہ بات ثابت کرنا چاہتا ہے کہ ان دونوں بھائیوں میں باہمی اختلاف پایا جاتا تھا، یہاں تک کہ امام حسین ؑ نے اپنے بھائی کے موقف کو قبول نہیں کیا تھا اور ان کا نقطہ ¿ نظر کچھ اور تھا۔
ایک اور روایت میں رسول خدا سے یہ نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:حسن ؑ مجھ سے ہے او حسین علی ؑ سے۔“ حالانکہ امام حسین ؑ کے بارے میں ایک فضیلت جو بار بار دہرائی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ (رسول کریم کا ارشاد ہے)(حسین ؑ مجھ سے ہے اور میں حسین ؑ سے ہوں۔) مذکورہ بالا روایت گھڑنے کا مقصد یہ ہے کہ حضرت علی ؑ کو ان کے بیٹے حسین ؑ سے اس طرح جوڑا جائے کہ جیسے یہ دونوں ہی قتل و خونریزی چاہنے والے تھے۔
ان دو بھائیوں کے درمیان اسی فرق کو ثابت کرنے کے لئے یہ روایت بھی لاتے ہیں کہ : امام حسین ؑ نے اپنے بھائی سے کہا:” کاش آپؑ کے سینے میں میرا دل ہوتا اور میرے منہ میں آپؑ کی زبان۔“
ان باتوں کو متاخرین نے فضیلت کے طور پر بیان کیا ہے جبکہ ان میں سے متعدد اسی مقصد کے لئے گھڑی گئی ہیں جس کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے
source : alhassanain