محمد بن طلحہ کہتے ہیں کہ ایک دن حضرت امام ھادی علیہ السلام ایک اہم کام کے لیۓ سامرہ سے ایک گاؤں میں گۓ ،ایک عرب شخص آپ کے دروازہ پر آیا جو آپ سے ملنا چاہتا تھا ، اس سے کہا گیا : کہ فلاں جگہ گۓ ہیں ، چنانچہ وہ شخص وہاں پہنچ گیا ۔
جب حضرت امام ھادی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تو آپ نے اس سے فرمایا : تمہاری حاجت کیا ہے : اس نے کہا : میں کوفہ کا رہنے والا ایک عربی شخص ہوں اور آپ کے جد علی بن ابی طالب علیہ السلام کی ولایت سے متمسک ہوں ،مجھ پر بہت زیادہ قرض ہے کہ جس کو میں برداشت نہیں کر سکتا ، آپ کے علاوہ کسی دوسرے کو نہیں پاتا کہ وہ میرے قرض کو ادا کر دے ۔
حضرت امام ھادی علیہ السلام نے فرمایا : خوش و خرم رہو ، اس کے بعد اس کو سواری سے اتارا اور اپنا مہمان بنا لیا ، جب صبح ہوئی تو امام علیہ السلام نے اس سے فرمایا : تم سے ایک درخواست ہے اور ہرگز اس کی مخالفت نہ کرنا ! اس عرب نے کہا : میں آپ کی مخالفت نہیں کروں گا ۔
امام علیہ السلام نے ایک کاغذ پر اپنے قلم سے لکھا اور اقرار کیا کہ اس عرب کا مجھ پر قرض ہے لیکن اس کی مقدار اس عرب کے قرض سے زیادہ تھی، اس کے بعد فرمایا :
یہ تحریر لے لو ، جب سامرہ پہنچو تو میرے پاس آنا ،وہاں چند لوگ میرے پاس بیٹھے ہونگے ، اس تحریر کے ساتھ مجھ سے سختی سے اپنے پیسوں کا مطالبہ کرنا ،خدارا ہرگز میری مخالفت نہ کرنا ، چنانچہ اس عرب نے وہ تحریر لے کر کہا کہ : میں اسی طرح انجام دوں گا ۔
جب حضرت امام ھادی علیہ السلام سامرہ پہنچ گۓ، آپ کے پاس خلیفہ کے بعد سے دوست اور ان کے علاوہ دوسرے افراد بیٹھے ہوۓ تھے کہ عرب وارد ہوا اور اس نے وہ تحریر دکھائی اور مال کا مطالبہ کیا اور جس طرح امام علیہ السلام نے تاکید فرمائی تھی گفتگو کی ۔
امام علیہ السلام نے نرمی کے ساتھ اس سے گفتگو کی اور اس کے ساتھ مہربانی کی اور اس سے معذرت چاہی اور ان کے قرض کو ادا کرنے اور اس کو خوش کرنے کا وعدہ کیا ۔
امام علیہ السلام اور اس عرب کے اس واقعہ کی خبر متوکل تک پہنچی ،متوکل نے حکم دیا کہ تیس ہزار درہم حضرت امام ھادی علیہ السلام کے لیۓ لے جاؤ اور جب وہ درہم آپ (ع) کی خدمت میں پہنچاۓ گۓ امام (ع) نے ان کو ہاتھ نہیں لگایا یہاں تک کہ عرب آ گیا ، امام (ع) نے اس سے فرمایا :
یہ مال لے جاؤ اور اپنا قرض ادا کرو اور باقی کو اپنے اھل و عیال پر خرچ کرو اور ہمارے عذر کو بھی قبول کرو ۔
اس عربی نے کہا : یا بن رسول اللہ ! خدا کی قسم ،میری امید تو اس مال کا ایک تہائی حصہ تھی لیکن خدا جانتا ہے کہ اپنی رسالت کو کس جگہ قرار دے ، چنانچہ اس نے مال لیا اور حضرت امام ھادی علیہ السلام کی خدمت سے رخصت ہو گیا ۔
source : alhassanain