ایران میں رسم ہے کہ ساتویں محرم کو کربلا کے چھوٹے باب الحوائج حضرت علی اصغر(ع) کے دروازے پر حاضر ہوتے ہیں اور اس طفل شہید کے مصائب پڑھتے ہیں۔ وہ شہید جو بظاہر تو بہت چھوٹا ہے لیکن حقیقت میں پیر عشق ہے۔
تاریخ کے تلخ ترین لمحات قریب ہو رہے تھے، مظلوم کربلا کے تمام اعوان و انصار میدان کارزار میں جا کر اپنی قربانیاں پیش کر چکے تھے، خیام حسینی میں صرف دو مرد باقی بچے تھے ایک ابا عبد اللہ الحسین(ع) دوسرے بیمار کربلا سید الساجدین(ع) اس دن اللہ قضائے الہی سے بیمار ہو گئے تھے تاکہ نسل امامت باقی رہے اور امام حسین علیہ السلام کے بعد امت کی رہبر سنبھالیں۔
امام حسین علیہ السلام نے جب اپنے آپ کو تنہا پایا تو لوگوں پر اپنی آخری حجت بھی تمام کی اور بآواز بلند فرمایا: ’’ھل من ذابّ يذبّ عن حرم رسول اللہ؟ ھل من موحّد يخاف اللہ فينا؟ ھل من مغيث يرجو اللہ باغاثتنا؟ ھل من معين يرجو ما عنداللہ في اعانتنا؟‘‘ يعني: ’’کیا کوئی مدافع ہے جو حرم رسول اللہ کا دفاع کرے اور اس کی حفاظت کرے؟ کیا کوئی یکتاپرست ہے جو خدا کاخوف کرے اور ہماری مدد کو آئے؟ کیا ہے کوئی فریادرس جو خدا کے لئے ہماری نصرت کرے؟ کیا ہے کوئی جو خدا کی رضا اور رضوان کی خاطر ہماری مدد و نصرت کو آئے؟‘‘۔
امام علیہ السلام کی صدائے استغاثہ جب خیموں میں پہنچی تو بیبیاں سمجھ گئیں کہ امام علیہ السلام تنہا رہ گئے ہیں۔ خیام سے گریہ و بکاء کی صدائیں بلند ہوئیں۔ امام علیہ السلام نے خیموں کی جانب رخ کیا تاکہ بیبیاں آپ (ع) کو دیکھ کر کسی حد تک مطمئن ہوجائیں؛ اسی اثناء میں امام علیہ السلام کے شش ماہہ فرزند حضرت "عبداللہ ابن الحسین" - جو علی اصغر(ع) کے نام سے مشہور ہیں – پیاس کی شدت سے رونے لگے۔
علي اصغر شیرخوار طفل تھے؛ جن کی پیاس بجھانے کے لئے نہ تو خیموں میں پانی تھا اور نہ ہی ان کی والدہ ’’رباب‘‘ کے سینے میں دودھ تھا جو ان کو پلایا جائے۔
امام نے علی اصغر (ع) کے رونے کی آواز سنی انہیں گود میں لیا اور دشمن کی طرف چل پڑے؛ دشمنوں کے سامنے کھڑے ہو کر فرمایا: ’’یا قوم ان لم ترحمونی فارحموا ھذا الطفل، اما ترونہ کیف یتلظیٰ عطشانا‘‘۔ اے لوگو! اگر تم مجھ پر رحم نہیں کرتے تو اس طفل پر رحم کرو کیا نہیں دیکھ رہے ہو کہ پیاس کی وجہ سے کیسے ٹرپ رہا ہے‘‘۔
لیکن گویا کہ سنگدل دشمنوں کے دلوں پر رحم کا بیج بویا ہی نہ گیا تھا اور دنیا کی تمام رذیلتیں اور پستیاں ان کے وجود کی گہرائیوں تک گھر کرگئی تھیں؛ کیونکہ انھوں نے فرزند رسول(ص) کو چلو بھر پانی دینے کے بجائے بنی اسد کے ایک تیرانداز (جو مؤرخین کے بقول ’’حرملة بن كاہل‘‘ ہی تھا) کو کام تمام کرنے کا حکم دیا اور کہا ’’اقطع کلام الحسین(ع) = حسین(ع) کا کلام منقطع کرو‘‘۔ حرملہ نے ایک تیر کمان میں رکھا اور طفل شیرخوار کے گلے کا نشانہ لیا۔ اچانک امام حسین علیہ السلام کا ہاتھ اور سینہ خون میں نہا گیا... طفل تشنہ لب و شیرخوار کا سر مقدس بدن سے جدا ہوگیا تھا...
امام (ع) نے علی اصغر کا خون ہاتھوں میں لیا اور آسمان کی جانب پھینکا اور فرمایا: ’’هونٌ عَلَيَّ ما نَزَلَ بِي انہ بعين اللہ ـ اس مصیبت کا تحمل میرے لئے آسان ہے کیونکہ خدا اسے دیکھ رہا ہے‘‘... اسی حال میں، ’’حصين بن تميم‘‘ نے ایک تیر پھینکا جو امام حسین علیہ السلام کے لبوں پر بیٹھ گیا اور آپ کے ہونٹوں سے خون جاری ہوا۔ اور آپ(ع) نے آسمان کی طرف رخ کیا اور بارگاہ خداوندی میں عرض کیا: ’’بارالٰہا! میں تیری بارگاہ میں شكايت کرتا ہوں ان تمام مظالم کی، جو اس قوم نے میرے اور میرے خاندان اور بھائیوں پر روا رکھے ہیں‘‘...
اس کے بعد دشمن کی سپاہ سے دور ہوئے؛ اپنی تلوار کی نوک سے چھوٹی سی قبر کھودی، خون میں لت پت اصغر کو دفن کر دیا...
جناب علی اصغر (ع) کی شہادت ائمہ طاہرین کے نزدیک، کربلا کی سب سے زیادہ سوزناک اور دلگداز شہادت ہے۔ منہال بن عمرو کوفی کہتے ہیں: مدینے میں امام سجاد علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا، امام نے پوچھا: حرملہ کا کیا ہوا؟ عرض کیا: جب میں کوفہ سے نکلا تو وہ زندہ تھا۔ امام علیہ السلام نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھائے اور تین بار دعا کی: اللھم اذقہ حر الحدید، اللھم اذقہ حر الحدید، اللھم اذقہ حر الحدید، یعنی خدایا اسے لوہے کی گرمی کا مزہ چکھا دے۔
نیز عقبہ بن بشیر اسدی کہتے ہیں کہ امام باقر علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: ہم تم قبیلہ بنی اسد سے خون کے طلبگار ہیں۔ اور اس کے بعد جناب علی اصغر کی شہادت کا واقعہ سنایا۔
یہ تمام چیزیں اس بات کی علامت ہیں کہ جناب علی اصغر کی مصیبت کا زخم اہل بیت(ع) کے سینے پر کس قدر شدید تھا۔
الا لعنة الله علی القوم الظالمین و سیعلم الذین ظلموا ای منقلب ینقلبون
source : abna24