امام زین العابدین علیہ السلام کی ایک ذاتی صفت لوگوں پر احسان اور ان کے ساتھ نیکی کرنا تھی ، آپ ؑ کا قلب مبارک اُن پر رحم و کرم کرنے کیلئے آمادہ رہتا تھا ،مورّخین کا کہنا ہے :جب آپ کو یہ معلوم ہوجاتا تھا کہ آپ کا کوئی چا ہنے والا مقروض ہے تو آپ ؑ اس کا قرض ادا فرما دیتے تھے ، اور آپ ؑ اس ڈرسے کہ کہیں آپ ؑ کے علاوہ کو ئی دوسرا لوگوں کی حا جتیں پوری کر دے اورآپ ثواب سے محروم رہ جائیں لہٰذا لوگوں کی حاجتوں کو پورا کرنے میں سبقت فرماتے تھے، آپ ؑ ہی کا فرمان ہے : ’’ اگر میرا دشمن میرے پاس اپنی حاجت لیکر آئے تو میں اس خوف سے اس کی حاجت پورا کرنے کیلئے سبقت کرتا تھا کہ کہیں اور کو ئی اس کی حاجت پوری نہ کردے یا وہ اس حاجت سے بے نیاز ہو جائے اور مجھ سے اس کی فضیلت چھوٹ جائے ‘‘۔آپ ؑ کے لوگوں پر رحم و کرم کے سلسلہ میں زہری نے روایت کی ہے :میں علی بن الحسین ؑ کے پاس تھاکہ آپ ؑ کے ایک صحابی نے آپ ؑ کے پاس آکر کہا :آج میں چارسو دینار کا مقروض ہوں اور میرے لئے اپنے اہل و عیال کی وجہ سے ان کو ادانہیں کر سکتا ،امام ؑ کے پاس اس وقت اس کو دینے کے لئے کچھ بھی مال نہیں تھا ،آپ ؑ نے اس وقت گریہ وزاری کرتے ہوئے فرمایا :’’ایک آزاد مو من کے لئے اس سے بڑی مصیبت اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے مو من بھا ئی کو مقروض دیکھے اور وہ ادا نہ کر سکے اور وہ اس کاایسے فاقہ کی حالت میں مشا ہدہ کرے جس کو وہ دور نہ کر سکتا ہو‘‘۔
سخاوت
سخاوت بھی آپ ؑ ایک عظیم صفت اور آپ ؑ کی شخصیت کا ایک اہم جز ء تھی ،مو رّخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ ؑ لوگوں میں سب سے زیادہ سخی تھے ،فقراء اور کمزوروں کے ساتھ سب سے زیادہ نیکی کر تے تھے ، مورخین نے آپ کے جودو کرم کے متعددواقعات نقل کئے ہیں جن میں ہم ذیل میں چند واقعات نقل کر رہے ہیں :محمد بن اسامہ کے ساتھ نیکی کر نا محمد بن اسامہ مریض ہوگئے تو امام ؑ ان کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے جب سب لوگ بیٹھ گئے تو محمد نے زور زور رونا شروع کر دیااس وقت امام ؑ نے اس سے فرمایا : ’’مایبکیک؟ ‘‘’’ تم کیوں رورہے ہو ؟‘‘۔میں مقروض ہوں۔’’کتنا قرض ہے ؟‘‘۔پندرہ ہزار دینار۔
’’میں ادا کر دو نگا‘‘ ۔امام ؑ نے اس مجلس سے اٹھنے سے پہلے ہی وہ سب قرض ادا فرمادیاجس کے قرض کی وجہ سے رنج و غم اور سونے کی اس کی بیماری دور ہو گئی ۔
عمومی طور پر کھانا کھلانا
آپ ؑ کی جود و سخاوت کا یہ عالم تھا کہ آپ ؑ مدینہ میں ظہر کے وقت ہر دن لوگوں کو عمومی طورپر کھانا کھلاتے تھے ۔سو گھروں کی پرورش آپ کے جود و کرم کا یہ عالم تھا کہ آ پ ؑ مدینہ میں مخفی طور پرسو گھروں کی پرورش کرتے تھے، اور ہر گھر میں لوگوں کی کافی تعداد ہوا کر تی تھی ۔بیشک سخاوت بخل سے پاکیزگئ نفس پر دلالت کرتی ہے ،لوگوں پر رحم کر نے کے شعور اور اللہ کی عطا پر اس کا شکر اداکرنے پر دلالت کر تی ہے ۔
فقیروں پر رحم و کرم
آپ ؑ کے ذاتی صفات میں سے ایک صفت یہ تھی کہ آپ ؑ فقیروں ،محروموں اورمایوس ہوجانے والوں پر احسان فرماتے تھے ۔ہم ذیل میں اس سلسلہ میں بعض واقعات نقل کرتے ہیں :
۱۔ فقیروں کی عزت کرنا:امام ؑ فقیروں کے لئے افسوس کرتے ،ان کے ساتھ مہربانی سے پیش آتے ،جب کسی سائل کو کچھ دیتے تو اس سے معانقہ کرتے تاکہ اس سے ذلت اور حاجت کااثر جاتا رہے، جب سا ئل کسی سوال کا قصد کرتا تو آپ ؑ مرحبا کہتے اور فرماتے : ’’مرحباًبِمَنْ یَحْمِلُ زَادِيْ اِلیٰ دَارِ الآخِرَۃِ‘‘۔مرحبا اس شخص پر جو میرا زاد راہ ہے اور مجھے دارآخرت کی طرف لے جا رہا ہے ‘‘۔بیشک فقیر کے محبت اور عطوفت کے ساتھ اس طرح اکرام کرنے سے معاشرہ میں اتحاد اور بھا ئی چارگی پیدا ہوتی ہے اور ان کی اولاد کے درمیان محبت قائم ہو تی ہے ۔
۲۔آپ ؑ کی فقیروں پر مہربانی: آپ ؑ فقیروں اور مسکینوں کے ساتھ نہایت ہی عطوفت و مہربا نی کے ساتھ پیش آتے تھے ،آپ ؑ کو یہ بات بہت پسند تھی کہ آپ ایسے فقرا ،مساکین اور بیمار افراد کو دستر خوان پر بلائیں جن کا کوئی آسرا نہ ہوآپ ؑ ان کو اپنے ہاتھ سے کھانا دیتے ، اسی طرح آپ ؑ اپنی پشت پر ان کیلئے کھانا اور لکڑیاں لاد کر ان کے دروازے پرپہنچاتے تھے فقراء اور مساکین کے سلسلہ میں آپ ؑ کے رحم و کرم کایہ عالم تھا کہ آپ ؑ رات کی تاریکی میں خرمے توڑنے کو منع کر تے تھے کہ اس طرح فقراء آپ ؑ کی عطا سے محروم رہ جا ئیں گے،امام ؑ نے اپنے کارندوں سے فرمایا(جو رات کے آخری حصہ میں ان کے لئے خرمے توڑ کرلایاتھا ):’’ایسا نہ کر ،کیا تم کو نہیں معلوم کہ رسول اللہ ﷺ نے رات میں فصل کاٹنے اور بوجھ اٹھانے سے منع فرمایا ہے ؟اور آپ ؑ فرماتے :جس دن فصل کا ٹی جائے اسی دن سائلین کو عطا کیا جائے اس لئے کہ فصل کاٹنے کے دن یہ اُن کا حق ہوتا ہے‘‘ ۔
۳۔ آپ ؑ کا سائل کو رد کر نے سے منع فرمانا:امام ؑ نے سائل کوبغیر کچھ دئے ہوئے رد کرنے سے منع فرمایا ہے ،چونکہ ایسا کر نے سے برائیاں زیادہ ہو تی ہیں اور ان سے نعمتیں ختم ہو جا تی ہیں اور مصیبتیں نازل ہوتی ہیں،سعید بن مسیب سے مروی ہے : میں علی بن الحسین ؑ کی خدمت میں پہنچا یہاں تک کہ صبح کی نماز آپ ؑ ہی کے ساتھ ادا کی ، آپ کے دروازے پر سائل آیا تو امام ؑ نے فرمایا:’’اعطوا السائلَ ولاترد السائلَ ‘‘’’سائل کو عطا کرو،اوراس کو خالی ہاتھ واپس نہ پلٹاؤ‘‘۔
امام ؑ نے اس بات کی ضرورت پر متعدد احادیث میں زور دیا ہے ۔بیشک ضرورت مند فقیر کو محروم کرنے اور ان کی حاجت روا ئی نہ کرنے سے نعمتیں زائل ہونے اور اللہ کے غضب نازل ہونے کا سبب ہوتی ہیں اس سلسلہ میں ائمۂ ہدیٰ سے متواتر احا دیث بیان ہو ئی ہیں لہٰذا جو اللہ کی دی ہو ئی نعمتوں کی بقا چا ہتا ہے اس کے لئے قطعاً سائل کو رد کرنا یا فقیر کو مایوس کرنا سزوار نہیں ہے چونکہ اس کے پاس یہ اللہ کی عطا کردہ نعمت ہے ۔
آپ ؑ کے صدقات
امام زین العابدین ؑ نے اپنی حیات طیبہ میں سب سے زیادہ فقیروں کو صدقے دئے تاکہ وہ آرام سے زندگی بسر کرسکیں اور ان کا ہم و غم دور ہو جائے اور امام ؑ دوسروں کو بھی اس کی ترغیب فرماتے تھے کیونکہ اس پر انسان کو اجر جزیل ملتا ہے ، آپ ؑ کا فرمان ہے: ’’مَامِنْ رَجُلٍ تَصَدَّقَ علیٰ مِسْکِیْنٍ مُسْتَضْعَفٍ فَدَعَا لَہُ الْمِسْکِیْنُ بِشَی ءٍ فِیْ تِلْکَ السَّاعَۃِ اِلَّااسْتُجِیْبَ لَہُ‘‘’’جب کو ئی انسان کسی کمزور مسکین کو صدقہ دیتا ہے تو اس وقت عطا کرنے والے کے حق میں مسکین کی دعا ضرور قبول ہو تی ہے ‘‘۔ہم آپ ؑ کے بعض صدقات کو ذیل میں بیان کر رہے ہیں:۱۔لباس تصدّق کرنا:امام ؑ اچھے لباس پہنتے تھے ،آپ ؑ سردی کے مو سم میں خزکا لباس پہنتے جب گرمی کا مو سم آجاتا تھا تو اس کو صدقہ دیدیتے تھے یا اس کو فروخت کر کے اس کی قیمت صدقہ دیدیتے تھے اور گر می کے مو سم میں دومصری لباس پہنتے تھے جب سردی کا مو سم آجا تا تھا تو ان کو صدقہ میں دیدیتے تھے ، اور آپ ؑ فرماتےتھے :’’اِنِّیْ لَاَسْتَحْیِیْ مِنْ رَبِّیْ اَنْ آکُلَ ثَمَنَ ثَوْبٍ قَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ فِیْہِ‘‘’’مجھے اپنے پروردگار سے شرم آتی ہے کہ میں نے جس لباس میں اللہ کی عبادت کی ہے اس لباس کی قیمت کھاؤں ‘‘۔
۲۔اپنی پسندیدہ چیزکا صدقہ میں دینا:امام ؑ اپنی پسندیدہ چیز صدقہ میں دیتے تھے ،راویوں کا کہنا ہے :اما م ؑ صدقہ میں بادام اور شکر دیتے تھے آپ ؑ سے اس کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ ؑ نے قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرما ئی :)لَنْ تَنَالُوْاالْبِرَّحَتّیٰ تُنْفِقُوامِمَّاتُحِبُّوْنَ )’’تم نیکی کی منزل تک اس وقت تک نہیں پہنچ سکتے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں سے راہ خدا میں انفاق نہ کرو‘‘۔مورخین کا بیان ہے کہ امام ؑ انگور بہت زیادہ پسند فرماتے، آ پ ایک دن روزہ تھے تو افطار کے وقت آپ کی ایک کنیز نے آپ ؑ کی خدمت میں انگور پیش کئے ایک سائل نے سوال کیا توامام ؑ نے انگورکے گچھے کواسے دینے کا حکم صادر فرمایا ،کنیز نے دوبارہ اپنے خریدے ہوئے انگو ر آپ کی خدمت میں پیش کئے تو دروازے سے دوسرے سائل نے سوال کیا امام علیہ السلام نے وہ انگور کے گچھے بھی اسے دینے کا حکم صادر فرمایا ،اس کے بعد پھر کنیز نے اپنے خریدے ہوئے انگور امام ؑ کی خدمت میں پیش کئے تو تیسرے سائل نے دروازے سے سوال کیا امام ؑ نے انگور کے وہ گچھے سائل کو دیدینے کا حکم صادر فرمادیا ۔آپ ؑ کے آباء و اجداد کی اس نیکی میں کتنی مشابہت تھی جنھوں نے تین دن پے درپے ایسی طاقت و قوت کا مظاہرہ کیاحالانکہ وہ سب روزہ کی حالت میں تھے تب بھی انھوں نے مسکین ،یتیم اور اسیر کے ساتھ ایسا برتاؤ کیا تو اللہ نے ان کی شان میں سورۂ ’’ھَل اتیٰ ‘‘نازل فرمایا،اُن کی یہ عظیم جلالت و بزرگی رہتی دنیا تک باقی رہے گی یہاں تک کہ خدا زمین کا وارث ہواور اُن پر احسان کرے۔
۳۔آپ کا اپنے مال کو تقسیم کرنا:امام ؑ نے دو مرتبہ اپنا سارا مال دو حصوں میں تقسیم کیااور اس میں سے ایک حصہ اپنے لئے رکھ لیا اور دوسرا حصہ فقیروں اور مسکینوں میں تقسیم کردیا،اس سلسلہ میں آپ ؑ نے اپنے چچا امام حسن ؑ فرزند رسول کا اتباع فرما یاکیونکہ امام حسن ؑ نے دو یا تین مرتبہ اپناسارا مال تقسیم کیا تھا ۔
۴۔آپ کا مخفی طور پر صدقہ دینا:امام زین العا بدین علیہ السلام کے نزدیک سب سے پسندیدہ چیز مخفیانہ طور پر صدقہ دینا تھاتاکہ کوئی آپ کو پہچان نہ سکے ،آپ اپنے اور آپ ؑ سے مستفیض ہونے والے فقرا ء کے درمیان رابطہ ہوں خدا سے محبت اورفقراء کے ساتھ صلۂ رحم کی صورت میں دیکھنا چاہتے تھے۔ آپ لوگوں کومخفیانہ طور پر صدقہ دینے کی رغبت دلاتے اور فرماتے تھے :’’اِنَّھَاتُطْفِئُ غَضَبَ الرَّبِّ‘‘۔’’چھپ کر صدقہ دینا خدا کے غضب کو خا موش کر دیتا ہے ‘‘۔آپ رات کے گُھپ اندھیرے میں نکلتے اور فقیروں کواپنے عطیے دیتے حالانکہ اپنے چہرے کو چھپائے ہوئے ہوتے ،فقیروں کو رات کی تاریکی میں آپ ؑ کے عطیے وصول کرنے کی عا دت ہو گئی تھی وہ اپنے اپنے دروازوں پر کھڑے ہوکر آپ ؑ کے منتظر رہتے ،جب وہ آپ کو دیکھتے تو آپس میں کہتے کہ : صاحب جراب(تھیلی) آگئے ۔آپ ؑ کے ایک چچا زاد بھا ئی تھے جن کو آپ ؑ رات تاریکی میں جا کر کچھ دینار دے آیا کر تے تھے ،انھوں نے ایک دن کہا :علی بن الحسین میری مدد نہیں فرماتے اور انھوں نے امام ؑ کو کچھ نا سزا کلمات کہے امام ؑ نے وہ سب کلمات سنے اور خود ان سے چشم پوشی کرتے رہے اور ان سے اپنا تعارف نہیں کرایا جب امام ؑ کا انتقال ہوگیااور ان تک کوئی چیز نہ پہنچی تو ان کو معلوم ہوا کہ جو ان کے ساتھ صلۂ رحم کرتا تھا وہ امام ؑ ہی تھے تو وہ امام ؑ کی قبر اطہر پر آئے اور ان سے عذرخواہی کی۔ابن عائشہ سے روایت ہے :میں نے اہل مدینہ کو یہ کہتے سنا ہے :علی بن الحسین ؑ کی وفات تک ہمارا مخفیانہ طور پر صدقہ لینا بند نہیں ہوا ۔مورخین سے روایت ہے کہ اہل مدینہ کی ایک جماعت کو یہ نہیں معلوم تھا کہ ان کی زندگی کا خرچ کہاں سے آرہا ہے جب امام زین العابدین ؑ کا انتقال ہوگیا تو جو کچھ ان کو رات میں دیا جاتا تھا وہ آنابند ہو گیا ۔امام ؑ ہبہ یا صلۂ رحم کرتے وقت خود کو بہت زیادہ مخفی رکھتے اور جب آپ ؑ کسی کو کو ئی چیز عطا فرماتے تو اپنا چہرہ چھپالیتے تاکہ کو ئی آپ ؑ کو پہچان نہ سکے ۔
ذہبی کا کہنا ہے :آپ ؑ مخفیانہ طور پر بہت زیادہ صدقہ دیتے تھے ۔امام ؑ فقیروں میں تقسیم کرنے والے کھانے کو ایک بوری میں رکھ کر اپنی پیٹھ پر رکھتے جس کے نشانات آپ ؑ کی پیٹھ پر مو جود تھے ۔یعقوبی سے روایت ہے کہ جب امام ؑ کو غسل دیا گیا توآپ کے کندھے پر اونٹ کے گھٹوں کی طرح گھٹے تھے جب آپ کے گھروالوں سے سوال کیا گیا کہ یہ کیسے گھٹے ہیں تو انھوں نے جواب دیا: امام ؑ رات میں اپنے کاندھے پر کھانا رکھ کر فقیروں کے گھر تک جاتے اور ان کو کھانا دیتے تھے ۔
بہر حال مخفیانہ طور پر صدقے دینا آپ ؑ کے سب سے عظیم احسانات میں سے تھا اوراللہ کے نزدیک ان سب کا اجرو ثواب بھی زیادہ تھا ۔
آپ ؑ کی شہادت
امام ؑ کا سلوک ،عبادت ،نیکیاں اور احسانات میں کو ئی نظیر نہیں تھا جن سے تمام لوگوں کے دل آپ ؑ کی طرف جھک گئے تھے اور یہ خاندان نبوت سے بغض و کینہ رکھنے والے امویوں کیلئے بہت شاق تھا اور ان میں سب سے زیادہ بغض و کینہ رکھنے والا ولید بن عبد الملک تھا ۔ زہری سے روایت ہے کہ ولید نے اس سے کہا :جب تک علی بن الحسین دنیا میں زندہ مو جود ہوں گے میں چین و سکون نہیں پا سکتا ۔اس نے طے کیا کہ جب امام ؑ حاکم کے پاس آئیں تو ان کو زہر ہلاہل دیدیا جا ئے لہٰذا اس نے یثرب میں اپنے گورنر کے ذریعہ آپ ؑ کو زہر دلایاامام ؑ نے جب تناول کیا توامام ؑ کا جسم کثرت عبادت اورکمزوری کی وجہ سے نحیف و لاغر ہو چکا تھا اور آپ ؑ نے بہت ہی کم وقت میں دا عی اجل کو لبیک کہا ، آپ ؑ کے آخری کلمات یہ تھے :’’الحمد للّٰہ الذي صدقناوعدہ واورثناالجنۃ نتبوأُمنھاحیث نشاء فنعم اجرالعاملینَ ‘‘۔’’تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیں جس نے ہم سے کئے ہوئے اپنے وعدے کوسچ کر دکھایا ہے اور ہمیں اپنی جنت کا وارث بنا دیا ہے کہ جنت میں جہاں چا ہیں آرام کریں اوربیشک یہ عمل کرنے والوں کا بہترین اجر ہے ‘‘ کائنات کے آفاق کو روشن کرنے کے بعد آپ ؑ کی عظیم روح جنت ماویٰ کی طرف پرواز کرگئی ۔سلام ہو آپ ؑ پر جس دن آپ ؑ پیدا ہوئے ،جس دن شہید ہوئے اور جس دن دوبارہ مبعوث و زندہ کئے جا ئیں گے ۔
ماخوذ از کتاب’’ ائمہ طاہرین کی سیرت سے خوشبوئے حیات‘‘
source : abna24