دو عنو ان حسینیت اور یزیدیت ان کی شناخت کیوں ضروری ہے ؟
اگر فقط علم کی حد تک اورمعلومات کی حد تک انسان کے علم میں اضافہ ہو تو فرق نہیں پڑتا کہ کربلا کے بارے میں اس کی معلومات انسان کو کہیں بھی نہیں پہنچاتیں ۔ آج کل کی جو چیزےں جانتے سے تعلق رکھتی ہیں اور ضروری ہے کہ اس سے آگا ہواجائے۔ وہ یہ ہے کہ انسان کربلا میں داخل ہونے کے لئے کوئی راستہ ڈھونڈے کربلا کے اندر جانے کا کوئی راستہ ڈھونڈلے جیسا کہ پیغمبر اکرم ﷺ نے حضرت سید الشہداء (ع)کا تعارف ان الفاظ میں کروایا کہ ”ان الحسین مصباح الہدیٰ و سفینة النجاة“ کہ ذات گرامی حسین - ہدایت کے چراغ اورنجات کی کشتی ہیں کشتیاں وہاں انسانوں کونجاتدیتی ہے جہاں پر گہرے اور عمیق سمندر ہوں اور ان سمندروں میں طوفان بھی ہوں ان میں ہلاک اور غرق کرنے والی موجےں بھی ہوں تلاطم ،ڈوبنے کا خطرہ ہو، غرق ہونے کا خطرہ ہو، ایسے میں کشتیاں آتی ہیں انسان کو نجات دیتی ہیں اور انسانیت کی نجات کی کشتی کا نام حسین - ہے انسانیت ہالک کہاں ہوتی ہیں کونسا سمندر ہے کونسا بحر ہے ایسا عمیق اورگرہرا کہ جس میں انسانیت ڈوب کر مرجائے ہلاک ہوجائے ،غرق ہوجائے ، وہ یہ ہے کہ جب انسانیت ہلاکت کے قریب جا پہنچے یعنی انسانیت اس حد تک گر جائے ،پست ہوجائے، غرق ہوجائے کہ یزید جیسا حکمران ،یزیدیت جیسا نظام بر سر اقتدار آجائے اور انسان بیٹھا تماشا دےکھتا رہے یہ در حقیقت ہلاکت ہے انسانیت کی اور ایسی ہلاکتوں سے نجات حسینیت کے ذریعہ سے ملتی ہے ۔
یزیدیت ظلم جوئی کے ایک فرد کا نام ہے یزید ایک طبقہ ہے اور یہ طبقہ ہر دور میں ہے یزید ہے پہلے بھی یہ طبقہ موجود تھا ابن معایوہ سے پہلے وہ خود بھی یزید طبقے سے تھا اور اس کے بعد بھی یزید کا طبقہ موجود ہے اور آج تک یزیدیت موجود ہے اور ایسے ہی حسینیت بھی حسین - ایک فرد کا نام نہیں ہے، حسینی بھی ایک طبقہ کانام ہے یہ طبقہ امام حسین - سے پہلے بھی موجود تھا آپ (ع)کے زمانے میں بھی موجود تھا اور آپ کے بعد بھی موجود اور آج بھی موجود ہے اور آئندہ بھی موجود رہے گا۔
یہ تو ہم سنتے آئے ہیں کہ واقعہ کربلا رو نما ہوا اور یہ بھی کسی حد تک ہم جانتے ہیں کہ کیسے رونما ہوا ،کیفیت اس کے واقع ہونے کی کیا ہے کیا حادثے پیش آئے! کیا واقعات پیش آئے ! کیا رودادےں پیش آئےں ! یہ بھی ہم جانتے ہیں کب پیش آیا اور کیسے پیش آیا لےکن اس کے باوجود بہت سارے واقعات ایسے ہیں جو رونما ہوئے اور ہم نہیں جانتے بہت سارے کردار ایسے ہیں جو کربلا میں موجود تھے اور ہم نہیں جانتے ۔ کربلا میں دو قسم کے کردار ہیں مثبت اورمنفی،یزیدی کردار اور حسینی کردار اور حق میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک کردار ہے اور باطل میں بھی ایک سے بڑھ کر ایک کردار ہے خصوصاً ہم سب کو یہ معلوم ہونا چاہئے اور آپ لوگوں کا یہ حق بنتا ہے کہ جومنبر پر آئے کسی جگہ ہو اس سے یہ معلوم کرے کہ ہمیں یہ بتائےں کہ عمر سعد کون تھا؟ یہ کس خاندان کافر د ہے؟ اس کو کیوں چنا گیا ؟ شمر کون ہے؟ شمر کیسے بن گیا؟ یہ چیزےں ہمیں معلم ہونی چاہئے اس لئے کہ یہ افراد نہیں ہیں طبقے ہیں اور ایسے طبقے ہیں جوہر زمانے میں موجود ہیں اگر ہمیں اکسٹھ ہجریی کے عمر سعد کا علم ہوجائے تو ہم اپنے زمانے کے عمر سعد کو پہچان سکتے ہیں اگر ہمیں اکسٹھ ہجری کے شمر کا علم ہوجائے تو ہم آج کے شمر کوپہچان سکتے ہیں۔
کربلا میں ایک فرد نہیں کھڑا ہوا تھا بلکہ ایک پوری نسل کا وارث کھڑا ہوا تھا نسل انبیاء کا وارث کھڑا ہوا تھا ،وارث وہ ہوتاہ ے کہ جس نے کچھ ارث لیا ہو امام حسین - کس چیز میں وارث تھے آیا انبیاء نے اپنی جائیدادےں اپنی زمینےں املاک چھوڑی تھےں امام کے لئے کونسی چیز تھی جو انبیاء سے ارث ملی ہے۔ اس کو ذہن میں رکھے کونسی چیز تھی غور کریں کہ کیا چیز تھی جو امام حسین - نے انبیاء ٪ سے ارث میں لی اور اسی وراثت کی حفاظت کے لئے کربلا آنا پڑا یعنی ارث انبیاء ختم ہو رہا تھا لٹ رہا تھا۔ا رث انبیاء خطرے میں تھا ۔ امام حسین - کے مقابلہ میں یزید ہے وہ بھی وارث ہے وہ بھی تنہا نہیں ہے ۔یعنی وہ بھی ایک نسل کا وارث آگے کھڑا ہوا ہے وہ کس کا وارث ہے ؟ یزید کی کا وارث ہے ؟ معاویہ کا وارث ہے ، نہ صرف معاویہ کا وارث ہے بلکہ پورے آل سفیان کا وارث ہے ، نہ صرف آل سفیان کا وارث ہے بلکہ آل فروعون کا وارث ہے ، آل قارون کا کا وارث ہے ، آلِ قابیل کا وارث ہے ، یعنی جتنے ستم کار تاریخ میں گزرے ہیں ان سب کا وراث ہے چونکہ ظالم کو بھی ارث ملتا ہے ۔ مظلوم کو ارث ملتا ہے ، در حقیقت یہ دو وارث تھے دو نسلوں کے وارث ،دوسلسلوں کے وارث ، ایک وارث نسل انبیاء اور وارث نسل ظالم تھا جس طرح یہ وارث تھے اسی طرح مورث بھی ہیں وارث بھی ہیں وارث اسے کہتے ہیں جو کسی سے ارث پائے کسی سے ارث لے اور مورث اس کو کہتے ہیں جو کسی کے لئے ا رث چھوڑے ۔ا ن دونوں نے اپنے سے پہلے والوں سے ارث لیا اور اپنے بعد والوں کے لئے چھوڑا۔ یعنی یوں نیہں کہ انہوں نے اپنا ارث وہاں دفن کردیا ۔امام حسین - نے بھی اپنا ارث منتقل کردیا اور یزید نے اپنی وراثت منتقل کردی ۔ یعنی جو کچھ فرعون و نمرود سے لیا تھا اس نے وہ کربلا میں لے آیا۔ وہ سب اس نے بعد کے لئے چھوڑا اور اس کی نسل نے اسے سنبھالا امام حسین - کی نسل نے ارث حسین - کو سنبھالا پس معلوم ہوا کہ ابھی تک وہ وراثت موجود ہے چلی آرہی ہے ۔ ارث حسین اور ارث یزید بھی دونوںکا ترکہ دونوں کی وراثت چلی آرہی ہے ۔اس میں یہ تشخیص دینا اہم ہے کہ مجھے یہ پتا چل جائے کہ میں کس کا وارث ہوں میں نے کس سے کچھ لیا ہے ، اب ہم یہ تو کہتے ہیں کہ خدا نے ہمیں یہ توفیق اور نعمت عظمیٰ دی ہے کہ ہم اپنے آپ کو حسینی کہتے ہیں حسینی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ حسین - کا نام لیتے ہیں ، نام حسین - تو سب لیتے ہیں ساری مخلوق حسین - کا نام لیتی ہے، کیا نہیں لیتے ؟ہندو لیتے ہیں، مسیحی لیتے ہیں، یہودی لیتے ہیں ،سنی لیتے ہیں ،شیعہ لیتے ہیں، یہ سب حسین - کا نام لیتے ہیں کون ہے جو نہیں لیتا گاندھی کے بارے میں مشہور ہے کہ انگریز حیران تھے کہ اس شخص نے کیسے اس قوم میں ایک روح پھونک دی ہے ۔ کہتے ہیں کہ جب و ہ انٹرویوں لینے آئے گاندھی کا اور اس سے پوچھنے لگے کہ آپ نے کیسے یہ اس قوم میں روح پھونک دی ہے اس نے کہا کہ میں نے تاریخ پڑھی ہے اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ اس سے پہلے کربلا میں حسین - نامی ایک انسان گزرا ہے اس نے مجھے سکھایا ہے کہ اس طرح کاکام بھی کیا جاسکتا ہے ، میں نے وہاں سے سیکھا ہے حالانکہ وہ حسین - کے خدا کو نہیں مانتا حسین کے رسول ﷺ کو نہیں مانتا، حسین - کے جد کو نہیں مانتا ، حسین - کو مذہب پر نہیں ہے ۔ لےکن پھر بھی سید الشہداء (ع)کی عظمت کا داعی ہے ،گاندھی حسینی ہے ،پیرو حسین - ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ہم کہتے نا حسینی یعنی شیعہ ،شیعہ حسین -، شیعہ علی -۔ خود سید الشہداء (ع)سے حدیث ہے کہ ایک شخص آیا ظاہر اً بصرہ سے تھا امام (ع)کی خدمت میں حاض رہوا اور کہنے لگا کہ میں آپ کا شیعہ ہوں یہ جملہ اس کا امام (ع)پر بہت ناگوار گزرا، حضرت (ع)نے اسے روکا، اس سے کہا کہ تم نے بہت بڑا دعویٰ کیا ہے ،اپنی حد سے تجاوز کیا ہے ، حضرت (ع)نے کہا کہ تم محب ہو ہمارے شیعہ نہیں ہو۔ تھوڑی دل کو تسلی ہوگئی اور معلوم ہوا کہ محب ارو شیعہ میں بہت فرق ہے ، حضرت (ع)نے فرمایا: یہ جو تم ہماری یاد کرتے ہو ہمیں یاد کرتے ہو ہم سے ملنے آئے ہو، ہماری زیارت کو آئے ہو، ہمارے دکھوں میں روتے ہو ،یہ د لیل ہے کہ تم ہم سے محبت رکھتے ہو ،یہ ہم جانتے ہیں تمہاری محبت کو تصدیق کر کے مہر لگاتے ہیں اس پر ، تم محب ہو ہمارے ،یہ تمہارے اعمال بتاتے ہیں تم محب ہو ہمارے ،لےکن تم ایک ایسے محب ہو کہا کہ محبت تو ہوتی ہے نا اسنان کو بعض اوقات دےکھےں کہ بیٹا ملک سے باہر چلا جاتا ہے ماں یہاں پر موجود ہے دیہات میں کسی اور یہاں بیٹھ کر بیٹے سے محبت کرتی ہے بیٹا کوسوں دور ہے اس سے ہوتا نا ایسے، بیٹا فرض کریں امریکہ میں بیٹھا ہے یا امریکہ سے بھی اس طرف پرے کہیں بیٹھا ہو ماں یہاں اس د ہات میں یہاں بیٹھ کر محبت کر رہی ہے پس محبت کے لئے تو زمین اور زمانے فاصلہ نہیں بنتے رکاوٹےں نیں بنتے لہٰذا دور سے بھی محبت کی جاسکتی ہے پس ہوسکتا ہے کچھ لوگ دور بیٹھ کر محبت کریں خود دور ہو لےکن محبت ہو ،محبت تو رکاوٹ نہیں قبول کر تی امام (ع)اس کو یہی کہہ رہے تھے فرق شیعہ اور محب میں یہی ہے شیعہ اس محب کو کہتے ہیں جو محبت بھی کرتا ہے دور بھی نہیں ہوتا ،اپنے امام سے دور نہیں ہوتا لےکن محب وہ ہوتا ہے جو محبت کرتا ہے لےکن دور بیٹھ کر محبت کرتا ہے قریب نہیں ہوتا شیعہ وہ ہوتا ہے جو ساتھ چلتا ہے اگر یہ کشتی نجات سمندر میں اتر جائے چونکہ کشتیاں تو سمندر میں چلتی ہیں نا وہ بھی طوفانی سمندروں میں ایک آدمی ساحل پہ بیٹھا رہے خشکی پر اور یہیں سے بیٹھ کر کشتی سے محبت کرے نوح (ع)کو اپنے بیٹے سے محبت تھی بیٹے کو بھی حضرت نوح (ع)سے محبت تھی، لےکن چونکہ دور ہوگئے نوح (ع)کی کشتی نجات پر بیٹا سوار نہیں ہوا نتیجہ یہ ہوا کہ باپ بیٹے میں موج حائل ہوگئی اور خدا نے باپ کو بھی روک دیا کہ اب اس بیٹے کا نام نہیں لینا اگر چہ تم چاہتے ہو اس کو، لےکن اس کے مقابلے میں جانور کشتی میں سوار تھے بچ گئے نوح(ع)کا بیٹا نہیں بچ سکا جانور بچ گئے۔ چونکہ قریب ہوئے اور ساتھ چلے اہم بات یہ ہے کہ نوح(ع)کے ساتھ جانور چلے تو بھی بچ جاتا ہے اور ساتھ نہ چلے بیٹا ہو تو بھی غرق ہوجاتاہ ے نبی اور امام کا راستہ ایسا ہوتا ہے کہ معملی آدمی اسے طے نہیں کرسکتا دور بیٹھ کر اس پہاڑ کا نام تھا جو دی اس نے خ ود بھی کہا تھا میں جو دی کی چوٹی پر چڑھ جاؤں گا تو بچ جاؤں گا ،جودی پر کھڑے ہو کر نوح نوح کرنا یہ ہوسکتاتھا اس لےکن نوح (ع)کے ساتھ چلنا اس کے لئے دشوار تھا ،نہیں چلا ،پس یہی سے سمجھ لیں گاندھی درست ہے محبت ہے اس کو سیدالشہداء (ع)کے ساتھ لےکن سید الشہداء (ع)کے ساتھ چل نہیںسکتا ، حسین - کے کاروان میں شامل نہیں ہوسکتا۔
عرض کیا تھا کہ ہمیں یہ معلوم ہے کہ واقعہ کربلا کب رونما ہوا اور کیسے رونما ہوا یہ کسی حد تک ہ میں معلوم ہے لےکن ایک بہت ہی اہم نکتہ کربلا کے بارے میں اگر ہمیں معلوم ہوجائے اس سے راز کر بلا کھل جاتا ہے اس سے انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ اس کا کاروان کے ہمراہ ہوجائے ۔ دور نہ بیٹھے یوں نہیں ہے کہ دور سے بیٹھ کر دور بین سے کاروان دےکھ رہا ہوں کہ ابھی کہاں پہنچا اور ابھی کہاں پہنچا،ریڈیوں پر بیٹھ کر جیسے سنتے ہیں ۔ایک خلائی جہاز چاند پر جارہا ہو ہم تو نہیں ہے اس میں لےکن ایک کومنٹیٹر بیٹھا ہوتا ہے ریڈیوں پر وہ ہر لمحہ کی خبردے رہا ہوتاہے کہ ابھی یہ جہاز یہاں پہنچا ہے ، ابھی یہاں پہنچا ہے ہم اپنے ٹی وی کے سامنے بیٹھ کر صرف سن رہے ہوتے ہیں ، یا مثلا آپ کے ملک کی مثال دوں کہ آپ ملک میں کوئی کھیل ہور ہا ہے جیسے کرکٹ میچ، میں اور آپ تو نہںی ہیں ناں اس میں شامل ۔ہم اپناکاج کھیتی باڑی چھور کی ٹی وی کے آگے بیٹھ جاتے ہیں ۔ آگے ریڈیوںکے سامنے بیٹھ جاتے ہیں، اب نہ گیند ہمارے ہاتھ میں نہ بلا ہمارے ہاتھ میں نہ دوڑےں ہم لگارہے ہیں بلکہ ایک کو منٹیٹر بیٹھا ہوتا ہے جو یہ سب کچھ ہمیں بتارہا ہوتا ہے ۔
جنگ خےبریہودی کے خلاف حضرت علی - نے جیتی ، کیا آج جنگ خیبر نہیں ہے اس جنگ میں عملاً رسول اللہ ﷺ نے سب کو علم دیئے کہ جاؤ سب زور آزمائی کر لو ۔ آج بھی یہودیت کے خلاف جنگ لڑے گا تو علی اور علی کا پیروکار لڑے گا مولا نے جان بوجھ کر دوسروں کو علم دیا معلوم تھا کہ ان سے جنگ نہیں جیتی جاسکتی پھر علی (ع)کو دیا یہ بتانے کے لئے کہ یہودیت کو شکست فقط علوی ہاتھ دے سکتے ہیں کیا آج وہ نسل یہود نسل ہے بلکہ زیادہ ہے پہلے سے زیادہ ہے طاقتور ہے پہلے سے زیادہ خطر ناک ہے آج بھی وہ علم (کا) منتظر ہے ،پچپن سال سے دوسروں نے اٹھایا لڑنے کے لئے جمال عبد الناصر نے اٹھایا حافظ اسد معمر قذافی نے اٹھایا لڑنے کے لئے یا سر عرفات ۔ عینا اس طرح اٹھایا جس طرح خیبری لوٹ آئے تھے نہ صرف کچھ لے کر نہ آئے بلکہ کچھ دے کر آئے (آدھا شام، آدھا لبنان، مصر اردن فلسطین) ایسی جنگےں لڑےں لےکن ادھر مٹھی بھر جوان لبنان کے حزب اللہ شیعہ پیروان حیدرکرار، مرد کے پیروکار کوئی حکومت نہیں فوج نہیں صرف کیا ہے ؟ شیعہ ہیں اس طرح بھگایا کہ بھاگنےکا راستہ بھلوادیا ، قرار داد لکھنے کی مہلت نہ دی ،حسینیت یہ ہے ، فلسطینیوں کو طاقت کی زبان سے کہا دہشت گرد ہیں کیوں؟ اس لئے کہ اپنے جسموں سے بم باندھ کر صیہونیوں پر حملے کرتے ہیں یہ راستہ فلسطینیوں نے کہاں سے سیکھا۔ عرب کانفرنس سے تو نہیں سیکھا،انور سادات نے حسنی مبارک نے تو نہیں سکھایا، کسی نے سیکھایا ان کو؟ ایسا جملہ صرف ایک جگہ ملتا ہے تاریخ میں فلسطینی جوان لڑکیاں جسم پر بم باندھ کر اسرائیلی ٹینکوں سے ٹکرارہی ہیں یہی ذہن میں رکھنا مائےں جوان بیٹوں کو سنوار کر بموں کابلیٹ باندھتی ہیں۔ دعاکے ساتھ بھیجتی ہے کہ کہیں راستے میں ناکام نہ ہوجائے یہ درس کہاں سے ملتا ہے ؟ کس نے ان کے یہ راہ دکھائی۔ ایسی مائےں سوائے کربلا کے کہیں نظر آتی ہیں؟ وہب کلبی کی ماں نے بیٹے کا سر واپس پھینکا اور کہا کہ راہ خدا میں دے کر ہم واپس نہیں لیتے ،زوجہ نے خیمے کا بانس اٹھایا حملہ کیا اور میدان کربلا میں واحد شہید خاتون ہے ،فلسطینیوں نے کر بلا سے سیکھا۔ یہ کب ہوتا جب اس بات کا خوف نہ ہو کہ موت ان پر آپڑے یا وہ موت پر جا پڑےں اس وقت فلسطینی جوان موت کے پیچھے ہیں ۔ یہ موت پر جاپڑتے ہیں۔ اگر حضرت علی اکبر - کے جملے کامعنی سمجھے ہیں تو آج فلسطینی سمجھے ہیں۔
یزید نے طاقت کے نشے میں آکر کہا امام(ع)سے کیا کہا تھا،یہی ناں کہ آ پ میرے سامنے تسلیم ہوجائیں یا مقابلے میں آجائیں حسینیت کیا ہے ؟ مثلی لا یبایع مثلہ … مجھ جیسا اس جیسے کے سامنے تسلیم نہیں ہوسکتا ، ہمارے حکمران ایک ٹیلی فون کال پر اپنے سرمایہ عزت آبروں شرافت ختم کردیتے ہیں۔ مگر اسی دنیا میں ایک حسینی پیر وکار حسینی روح رکھنے والا ایک وہ شخص جس نے موت کو ماردیا۔ اس طاقت ترین یزید زمانہ کیا جواب دیا۔ کہا کہ سب سے بڑے دہشت گرد تم خود ہو ۔ ہم نہ صرف ساتھ نہیں دیں گے بلکہ تمہارا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں یزیدیت کا کام ہے خوفزدہ کرنا ۔ اردومیں ایک کہاوت ہے کہ اگر کسی کو اپنے رعب میں لانا ہو تو خود اس کو نہ مارو بلکہ اگر اس کے سامنے بلی ماردی جائے تووہ خوفزدہ ہوجائے گا استکبار نے ہمارے ساتھ سایسا ہی کیا ہے ۔ افغانستان پر طرح طرح کا بارود برسایا۔ اتنا اسلحہ استعمال کیا کہ ایک امریکی افسر کہتا ہے ہمارے پاس اسلحہ کم ہوگیا ہے ہم کچھ عرصہ اسلحہ بنائےں گے توعراق پر حملہ کریں گے یہ سارا کام اس لئے کیا کہ گویا انہوں نے ہمارے وطن کے ہمسائے میں بلی ماری اور ہم وہ لوگ ہیں کہ افغانستان پر حملہ ہونے سے ڈرگئے کہ ان کا یہ حشر ہوا تو ہمارا کیا حشر ہوگا درحقیقت ہمیں ہی ڈرانا مقصود تھا، مقصود یہ تھا کہ ہم نہ بولیں کیونکہ صیہونزم کسی او رپرچم سے نہیں ڈرتا بلکہ صرف پرچم حیدر کرار سے ڈرتا ہے اور اگر شیعہ ڈرجائیں تو پھر دنیا میں کوئی طاقت نہیں جو انہیں روکے اور آپ نے دےکھا کہ یزیدیت نے کسی بھی زمانے میں ہزیمت اٹھائی ہے تو فقط حسینیت اور تشیع کے ہاتھوں اٹھائی ہے لےکن نہ وہ تشیع کہ جس پر الزرہ طاری ہو نہ و ہ حسینیت کہ جو دسروں کا انجام دےکھ کر سہم جائے بلکہ وہ حسینیت جولاشےں دےکھ کر ڈرے نہیں بلکہ وہ حسینیت جو لاشےں دےکھ کر ڈرے نہیں بلکہ موت کا تعاقب کرے جن کے آئیڈیل حضرت علی اکبر - ہوں ۔ حضرت علی اکبر - جنہوں نے فرمایا تھا کہ بابا فرق نہیں ہے کہ موت ہم پر آپڑے یا ہم موت پر جا پڑےں۔ یزیدیت صہیونیت اور طاقت کو ایسے تشیع سے خطرہ ہے۔
افغانستان پر حملے سے اتنے ڈرے کہ دلیل یہ دینے لگے کہ جوان کے استھ ہوا وہی ہمارے ساتھ بھی ہوگا یہی تو وہ کرنا چاہتے تھے ہمارے ساتھ ، امریکہ ہمیں مارنا نہیں چاہتا کیونکہ ہمیں مارنا سے ان کو کوئی فائدہ نہیں بلکہ ہمارے ڈرنے سے ا ن کومفاد حاصل ہوتا ہے یعنی ہم زندہ رہیں مگر مردہ بن کے رہیں ،چلتی پھرتی لاشےں یزیدیت کے بہت کام آتی ہیں ۔ پس حسینیت ڈر اور خوف کانام نہیں ہے بلکہ حسین - نے تو حالت پیاس میں ۷۱ لاشےں اٹخاکر بھی جنگ کر کے دوسروں کو ڈرایا جب پیاسے تھکے ہوئے غمزدہ حسین ﷼، افواج یزید کو ڈرا اور بھگاسکتے ہیں تو آج کا حسینی آیا ان سے زیادہ تھکے ہوئے یا غمزدہ ہیں ۔ حسینیت ڈرنے کا نام نہیں ہے ،حسینیوں سے یزیدیوں کو لڑنا چاہئے اور یزیدیوں کو دہشت گردی سے اسلحے سے مارنے دھاڑنے سے نہیں ڈرایا جاسکتا بلکہ حسین شناسی سے یزیدیت ڈرتی ہے ،حق پرستی سے یزیدیت ڈرتی ہے ۔