اردو
Tuesday 5th of November 2024
0
نفر 0

امام رضا علیہ السلام کی زندگی پر ایک مقدمہ

آپ کی ولادت میں نہیں جانتا کہ آپ مدینہ کے بارے میں کہاں تک واقف ہے۔ مگر امام رضا علیہ السلام مدینہ کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ کیونکہ مدینہ میں آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کی ولادت کا دن ، مہینہ اور سال کے بارے میں مجھے خاص یاد نہیں ہے شاید اچھی طرح سے جانتا ہو لیکن اس پر بھی گمان نہیں کرسکتا۔ تاریخ نے کسی بھی وقت امانتداری کا ثبوت نہیں دیا۔ آپ کی ولادت کو 148،151، اور153ہجری میں ایّام جمعہ 19 رمضان ، 15 رمضان ، جمعہ 10 رجب اور 11 ذی القعدہ بیان ہوا ہے۔ مگر قطعیت وترجیح کے طور پر یہ سال(14
امام رضا علیہ السلام کی زندگی پر ایک مقدمہ

 آپ کی ولادت
 میں نہیں جانتا کہ آپ مدینہ کے بارے میں کہاں تک واقف ہے۔ مگر امام رضا علیہ السلام مدینہ کو اچھی طرح جانتے ہیں۔ کیونکہ مدینہ میں آپ کی ولادت ہوئی۔ آپ کی ولادت کا دن ، مہینہ اور سال کے بارے میں مجھے خاص یاد نہیں ہے شاید اچھی طرح سے جانتا ہو لیکن اس پر بھی گمان نہیں کرسکتا۔ تاریخ نے کسی بھی وقت امانتداری کا ثبوت نہیں دیا۔ آپ کی ولادت کو 148،151، اور153ہجری میں ایّام جمعہ 19 رمضان ، 15 رمضان ، جمعہ 10 رجب اور 11 ذی القعدہ بیان ہوا ہے۔
مگر قطعیت وترجیح کے طور پر یہ سال(148)یعنی امام جعفر صادق علیہ السلام کی وفات کا سال آپ کی ولادت کا سال ہے۔ اسی طرح بعض علماء جیسے مفید، کلینی ، کفعمی ، شھید ثانی ، طبرسی ، صدوق ، ابن زھرہ ، مسعودی ، ابوالفداء ، ابن اثیر ، ابن حجر ، ابن جوزی وغیرہ نے 148ہجری کو امام رضا علیہ السلام کی ولادت کا سال جانا ہے۔
آپ کے القابات
 امام کے لقب اور کنیّت تاریخ کے ذھنوں میں آب وتاب کے ساتھ باقی رہاہے۔
(خواص کے نزدیک) آپ کی کنیّت ابوالحسن ہیں، اور آپ کے القاب ، صابر ، زکی، ولی ، فاضل، وفی¸صدیق، رضی، سراج اللہ، نورالھدی، قرۃ عین المؤمنین، کلیدۃالملحدین، کفوالملک، کافی الخلق، ربّ السریر، ورئاب التدبیر ہیں۔
اور رضا(ع) ؛
آپ کا وہ مشہور لقب ہے کہ صدیاں گزرنے کے بعد بھی ہم آپ کو اسی لقب سے پکارتے ہیں۔ شاید آپ اسکی وجہ جاننا چاہتے ہو تو جان لو کہ: رضا آپ کا لقب قرار پانے کی وجہ یہ ہے کہ خدا اور اسکے رسول ،و دیگر ائمہ اطہار علیہم السلام کے علاوہ تمام دوست ہو یا دشمن سب کے سب آپ سے راضی تھے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ مامون آپ سے خوش تھے اس لۓ رضا کا لقب ملا۔
آپ کی والدہ ماجدہ جب آپ انکی مادر گرامی کے نام ،القاب اور کنیت کے بارے میں آگاہ ہوجائیں گے تو آپ احساس کرنے لگیں گے کہ اس میں کوئی راز ہے کہ انکے القاب وکنیت بھی امام کے القاب وکنیت سے ملتے جلتے ہیں۔ ام البنین ، نجمہ، سکن ، تکتم، خیزران، طاہرہ،شقراء مشہور ہیں۔
آپ کی اولاد اگرچہ بعض روایات کے مطابق امام علیہ السلام کے پانچ بیٹے اور ایک بیٹی کا ذکر ہوا ہے ۔ لیکن علامہ مجلسی کے بقول امام جواد آپ کا اکلوتا بیٹا تھے۔
امام کی شہادت کے بارے میں بھی ذھن ساتھ نہیں دیتا ہے شاید 202، 203، 206، میں سے ایک سال ہیں۔ مگر اکثر علماء نے 203 کو ترجیح دی ہے اس حساب سے آپ کی عمر 55 سال ہوتا ہے جس میں سے سال کو اپنے والد گرامی کے دور امامت میںبسر فرمایا باقی سال شیعیت کی رہبریت وسرپرستی میں گزارے اور امامت کی زمہ داری ادا کرتے ہوئے بسر فرمائے۔
آپ کی امامت
 آپکی امامت کی ابتداء ہارون رشید کی خلافت کی انتہاء سے ملتی ہےجوکہ تقریبا دس سال ہے۔ پھر پانچ سال امین کی حکومت کے دوران اور پانچ سال مامون کی حکومت (ولایت عہدی) کے دوران۔ مامون وہی ہے جس نے امام علیہ السلام کو زھر کے ذریعے شہید کیا۔ اور امام کے ماننے والوں نے آپ کے بدن مطہر کو شہر طوس میں مامون کے حکم سے قبر ھارون کے نزدیک (جو حمید ابن قحطبہ کے باغ میں تھی ) دفنائے۔
امام رضا(ع) کی امامت مدینہ میں سنہ 183ہجری قمری سے شروع ہوئی ۔ اس وقت سیاسی حکومت کا بھاگ دوڑ ہارون الرشید کے ہاتھ میں تھا،وہ خودبغدار میں رہتاتھا۔ ہارون الرشید کا رویّہ بھی دوسرے ظالم بادشاہوں کی طرح عوام کو اذیّت دینا ،زندانی کرنا اور قتل کرنا تھا۔ اسی طرح لوگوں سے ٹکس لینے میں سختی کرنے کے علاوہ حضرت زھراء سلام اللہ علیہا کی اولاد اور انکے ماننے والوں کو اذیّت رسانی اسکا کام تھا۔
آپ پر آنے والی مصیبتیں جیسے ہی امام موسی کاظم علیہ السلام کو بصرہ اور بغداد کی زندانوں میں قید کررکھا پھر انہیں زہر دے کر شہید کیا گیا، امام رضا علیہ السلام اور دوسرے فرزندان علی ابن ابی طالب کو یہ قیامت آمیز مصیبت بھی جھیلنی پڑی ۔
امام رضا علیہ السلام کے زمانے میں تعلیمات اہلبیت علیہم السلام کا لوگوں پر جو اثر تھا اس کے بارے میں ہارون رشید سخت پریشان تھے اس لئے اس نے ان تمام مظالم سے علاوہ یوں مکتب اسلام پر ضرب کاری کی کہ تعلیمات اسلام میں غیروں کے نظریات اور افکار کو شامل کرکے لوگوں کو بتایا کہ یہی اسلامی نظریہ ہے ۔ تاکہ لوگوں کے ذھنوں کو غیروں کے نظریات کی طرف مبذول کرے۔
ابوبکر خوارزمی (383ھ)اہل نیشاپور کے نام حکومت بنو عباس خصوصا ہارون رشید کے رویے کے بارے میں ایک خط میں لکھتاہے کہ:
ہارون اس حالت میں مرا کہ امامت ونبوت کے درخت کے جڑوں کو کمزور کردکا تھا۔ کیونکہ جب خاندان رسالت ونبوت کا کوئی فرد وفات پاتے تو اسکے جنازے کی تشییع نہیں کرتا اور اسکی قبر نہیں بناتے، جبکہ اس کے دربار کا کوئی گلوکار،بازیگر،ڈھول بجانے والا یا قاتل مرجاتا تو اسکی تشییع کے لئے بڑےبڑے وزراء اور قاضی حضرات آجاتے تھے۔ اور بڑی شخصیتوں کو مجلس ترحیم میں بٹھاتے تھے۔ مادی گری اور غنڈہ گردی عروج پر تھے ،جولوگ اسلامی تعلیمات کے کے بر عکس فلسفہ وغیرہ پڑھاتے تھے انکو انعامات سے نوازا جاتاتھا۔ مگر کوئی شیعہ ودوستدار خاندان رسالت مل جاتا تو اسکو شہید کردیا جاتا تھا۔ اگر کوئی اپنے بچے کا نام علی رکھتا تو اسکا خون مباح سمجھتے تھے۔ اس دور میں امام(ع) نے اپنی امامت کا اعلان نہ کرنے اور کم تعداد میں شیعوں سے رابطہ رکھنے کو ترجیح دی۔
لیکن بعد میں ہارون رشید کی حکومت کمزور ہوتی دیکھا تو امام(ع) نے اپنی امامت کو ظاہر کیا اور لوگوں کی مشکلات کے حل میں مصروف ہوگئے ۔
خود امام علیہ السلام فرماتے ہیں کہ:
میں اپنے نانا(ص) کے مرقد پر رھتا تھا مدینہ کے اہل علم کو جب بھی کوئی مشکل آپڑتی تو میرے پاس رجوع کرتے تھے اور میں اسکا جواب دیتا تھا ۔ اور جب ہارون اپنی آخری عمر میں خراسان کی طرف جاتا ہے اور وہیں اس کی موت آجاتی ہے اور اسے طوس کے گورنر کے باغ میں دفن کیا جاتا ہے تو اسکے دو بیٹے امین اور مامون حکومت کے بارے میں آپس میں لڑ پڑے بغداد میں امین کی حکومت تھی اور مامون مرو میں حکومت چلاتا تھا ۔ دونوں میں پانچ سال تک جنگ رہی ، آخر میں امین کی فوج نے مامون کو مار ڈالا۔
198ہجری کو امین کی حکومت ختم اور پورے اسلامی ممالک پر مامون کی حکومت قائم ہوگئی ۔لیکن سادات اور علویوں کو پھر بھی آرام اور سکون حاصل نہیں ہوا ۔ اسی لئے شیعہ ہرجگہ ہارون رشید کے ظالمانہ رویّہ اور حکومت عباسی اور خاندان عباسی سے بہت تنگ تھے۔ اور آپس میں بغاوت کی تحریک چلا رہے تھے۔
مامون نے اس بات کو مد نظر رکھتے ہوۓ امام رضا علیہ السلام کو مرو میں بلایا، اس واقعہ سے بہت سوں کے ذھنوں میں مختلف قسم کے سوالات پیدا ہونا شروع ہوگیا۔اسطرح کہ : مامون نے امام(ع) کو خراسان میں کیوں بلایا؟ اپنا ولی عہد کیوں بنایا؟ وغیرہ
درحقیقت مامون اپنی مکروہ حرکت سے امام(ع)کوولی عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا اور وہ اس کام سے اپنے غلط پالسیوں پر پردہ ڈالنا چـاہتاتھا۔ امام رضا(ع) نے مامون کی دعوت کو مسترد کردیا۔ تو مامون نے دھمکیوں اور ظلم کے سہارے امام(ع) کو ولی عہدی قبول کرنے پر مجبور کیا۔
تاریخ میں سفر کی ابتدائی مراحل کو قبول نہیں کیا ہے۔ بہت ساری جزئیات جو امام(ع) نے مقدمات سفر کے حوالے سے انجام دیا تھا مخفی رہ گیا ہے ۔ لیکن موجودہ اسناد کے مطالعے سے یہ بات ثابت ہو جاتی ہے کہ امام اور مامون کے درمیان پہلے خط وکتابت کا مبادلہ ہوا تھااس خط میں اس نے امام (ع) کو مرو کی طرف سفر کرنے پر اصرار کیا تھا ، اور مامون نے خط کے ساتھ دو نفر کو جو رجاء ابی ضحاک اور یاسر خادم کو مدینہ کی طرف امام کو لانے پر مامور کرکے بھیجا۔ انہوں نے مدینہ پہنچ کر اپنی ماموریت کو امام (ع) کے حضور میں پیش کیا ۔ المامون امرنا باحضارک الی خراسان مامون نے ہمیں حکم دیا ہے کہ آپ کو خراسان لے آئے ،تو امام(ع) مامون کی چالاکی سے آگاہ ہوگئے۔ اپنے والد گرامی کو زندانوں میں رکھنا اور ان پر ڈھائے گئے مصائب وآلام یاد تھی اور یہ بھی جانتے تھے کہ مامون وہ آدمی ہے جو حکومت کی لالچ میں اپنے بھائی کے خون بہانے سے گریز نہیں کرتا اب وجود امام(ع) سے خطرہ محسوس کرنے لگا ہے اس لئے اسے چین نہیں آرہا ہے۔
لہذا امام علیہ السلام نے حالات کو دیکھ کر مرو کی طرف سفر کیا۔ امام(ع) کو سفر کی ضرورت نہیں تھی کیونکہ امام (ع)لوگوں کے دلوںمیں سفر کرتے تھے امام علیہ السلام سفر کا آغازکرتے ہوۓ یہ بھی جانتے ہیں کہ مامون ان کے ساتھ کیا برتاؤ کرے گا۔
مدینہ سے مرو تک دل کو مدینہ سے جدا کرنا سخت مشکل تھا ۔ اگر ایک مرتبہ انسان دیار غربت کی طرف سفر کرے تو معلوم ہوگا کہ داغ فرقت کیا ہے؟ جیسے کہ حضرت یوسف بادشاہ ہونے کے باوجود کنعان جانا چاہتے تھے اسی طرح امام (ع) کوبھی مرو مصر سے کم نہ تھا، جب امام رضا علیہ السلام روضۂ رسول سے الوداع کررہے تھے اس وقت امام کی حالت ایسی تھی کہ گویا آخری وداع کررہے ہیں۔
شیخ صدوق نے بجستانی سے نقل کیا ہے کہ امام رضا(ع) روضۂ رسول سے خداحافظی کرنے کے بعد دوبارہ قبر شریف سے لپٹ کر زور زور سے رو رہے تھے آپ کے رونے کی آواز دور دور سے محسوس کرسکتے تھے۔ میں نے امام(ع) کے نزدیک جاکر سفر کی مبارکبادی دی تو آپ نے فرمایا:مجھے چھوڑ دو ! میں اپنے نانا کے روضے سے مجبور جا رہا ہوں اور میں ((غربت)) میں مارا جاؤں گا ۔
امام علیہ السلام کے سفر کی ابتداء اور انتہاء ایک ہے امام ان دو چیزوں کے درمیان کن حالات سے گزرے یہ کاملا مشخص نہیں ہے امام کے اس سفر کے دوران واقع ہونے والے واقعات کے بارے میں مختلف اقوال نقل ہوئے ہیں اس وجہ سے کسی ایک مسلّم نتیجہ پر پہنچنا مشکل ہے ۔

0
0% (نفر 0)
 
نظر شما در مورد این مطلب ؟
 
امتیاز شما به این مطلب ؟
اشتراک گذاری در شبکه های اجتماعی:

latest article

اسلام میں عورت کا مقام
مذاہب کی مشترکہ بنیادیں قرآنی نظریہ
حدیث غدیرمیں " مولی " کامعنی
قرآن میں انبیاء كرام كے معنوی جلوے
قرآن مجید کاتعارف
قرآن اور دیگر آسمانی کتابیں
اسلامی بیداری خود شناسی اور اسكا دفاع
صحیفہٴ امام علی علیہ السلام
تاریخ اسلام
آفاقی ہمدردی کا دین اسلام

 
user comment