عزیزان گرامی! وحی الہی کےآخری سفیر خاتم الانبیاء، فخر موجودات، سرور کائنات، حضرت محمّد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ظہور پرنور کے یہ سعادت آفرین ایام آپ سب کو مبارک ہوں ۔ یہ اس کی آمد کے ایام ہیں کہ جس کا نام عالم بشریت کی پیشانی پر درخشاں ہے اور جس کے وجود کی عطر بیزہواؤں سے آج بھی مشام ہستی مطہر و معطر ہے ۔
محمّد عالم تخليق کا وہ سرّ اکبر ہے
قدم کي شان رکھتا ہے يہ وہ امکان داور ہے
وہاں مداح خالق اور يہاں ممدوح داور ہے
زمين پر جو محمد ہے وہي احمد فلک پر ہے
ہے تاج فتح سر پر جوشن يس بازو پر
جبيں پر نور کندہ دوش پر طہ کي چادر ہے
سراج نور قرآں ميں جمال طور عترت ميں
بشرصورت ملائک ميں تو امت ميں پيمبر ہے
ہم خدا کے رسول حضرت محمّد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیرو ہیں، ہم اپنے تمام برادران اسلام بلکہ پوری دنیائے بشریت کو لباس نور سے مزین، مادیت کے سایے سے بھی آزاد، پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ورود مسعود کی مبارک باد پیش کرتے ہیں کیونکہ تمام مذاہب میں ان کے آنے کی بشارت دی گئی ہے اور ان پر ہی خدا کی نبوت الہی اور پیغام رسانی کا اختتام ہواہے۔ سبھی کو دور جہالت سے رہائی اور بشریت کی فلاح و نجابت کی فکر اور آرزو تھی اور ہر ایک ظلم و ستم کی برائیوں سے آزادی اور آدمیت کے کمال و ارتقاء کم متمنی اور خواہشمند تھا ۔ امن و سلامتی سے معمور دنیا کی تعمیر کے لئے خدا کے آخری مبشر و نذیرکی دنیا راہ تک رہی تھی
ہزاروں سال نرگس اپني بے نوري پہ روتي ہے
بڑي مشکل سے ہوتا ہے چمن ميں ديدہ ور پيدا
مسجد نبوي
ولادت با سعادت
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سن ایک عام الفیل (570ء) میں ربیع الاول کے مبارک مہینےمیں بعثت سے چالیس سال پہلے مکہ میں پیدا ہوئے۔ جس سال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش ہوئی اس سے پہلے قریش معاشی بدحالی کا شکار تھےمگر اس سال ویران زمین سرسبز و شاداب ہوئی، سوکھے ہوئے درخت ہرے ہو گئے اور قریش خوشحال ہو گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں ۔اہلِ تشیع 17 ربیع الاول کو درست سمجھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا نام آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے رکھا۔ یہ نام اس سے پہلے کبھی نہیں رکھا گیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ولادت مکہ کے علاقے شعب ابی طالب کے جس گھر میں ہوئی وہ بعد میں کافی عرصہ ایک مسجد رہی جسے آج کل ایک کتاب خانہ (لائبریری) بنا دیا گیا ہے۔
آنحضرت کي ولادت کے وقت حيرت انگيز واقعات کاظہور
ان کی پیدائش پر معجزات نمودار ہوئے جن کا ذکر قدیم آسمانی کتابوں میں تھا۔ مثلاً آتشکدہ فارس جو ھزار سال سے زیادہ سے روشن تھا بجھ گیا۔ مشکوٰۃ کی ایک حدیث ہے جس کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ارشاد ہے کہ " میں اس وقت بھی نبی تھا جب آدم مٹی اور پانی کے درمیان تھے۔ ۔ ۔ میں ابراہیم علیہ السلام کی دعا، عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور اپنی والدہ کا وہ خواب ہوں جو انہوں نے میری پیدائش کے وقت دیکھا اور ان سے ایک ایسا نور ظاہر ہوا جس سے شام کے محلات روشن ہو گئے۔ نبی اکرم کی مادر گرامی جناب آمنہ کی زبانی روایت ہے کہ " جب میرا بیٹا دنیا میں آیا میں نے ایک غیبی آواز سنی، منادی کہہ رہا تھا : مشرق سے مغرب تک گھوم کر محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا مثل تلاش کرو، ان کے جیسا کون ہوسکتا ہے، تمام انبیاء کے صفات ہم نے ان کو عطا کردیئے ہیں، آدم(ع) کی طرح صفا و پاکیزگی، نوح(ع) کی طرح نرمی و سادگی، ابراہیم علیہ السلام کی طرح حلت و محبت، اسمعیل (ع) کی طرح رضا و خوشنودی، یوسف (ع) کی طرح حسن و زیبائی اور عیسی علیہ السلام کی طرح کرامت و بزرگواری، سب کچھ ان میں موجود ہے ۔ "
حسن يوسف، دم عيسي، يد بيضا داري
آنچہ خوباں ھمه دارند، تو تنہا داري
مسجد نبوي
خاندانِ مبارک
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا تعلق قریشِ عرب کے معزز ترین قبیلہ بنو ھاشم سے تھا۔ اس خاندان کی شرافت، ایمانداری اور سخاوت بہت مشہور تھی۔ یہ خاندان حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین پر تھا جسے دینِ حنیف کہتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد عبداللہ بن عبدالمطلب اپنی خوبصورتی کے لیے مشہور تھے مگر ان کا انتقال آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی پیدائش سے چھ ماہ پہلے ہوگیا تھا۔ والدہ کا نام حضرت آمنہ بنت وھب تھا جو قبیلہ بنی زھرہ کے سردار وھب بن عبدمناف بن قصی بن کلاب کی بیٹی تھیں۔ یعنی ان کا شجرہ ان کے شوھر عبداللہ بن عبدالمطلب کے ساتھ عبد مناف بن قصی کے ساتھ مل جاتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے دادا عبدالمطلب قریش کے سردار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا شجرہ نسب حضرت عدنان سے جا ملتا ہے جو حضرت اسماعیل علیہ السلام ابن حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں سے تھے۔ اور مشہور ترین عربوں میں سے تھے۔ حضرت عدنان کی اولاد کو بنو عدنان کہا جاتا ہے۔
بچپن
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے والد محترم حضرت عبداللہ ابن عبدالمطلب آپ کی ولادت سے چھ ماہ قبل وفات پا چکے تھے اور آپ کی پرورش آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے کی۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے کچھ مدت ایک بدوی قبیلہ کے ساتھ بسر کی جیسا عرب کا رواج تھا۔ اس کا مقصد بچوں کو فصیح عربی زبان سکھانا اور کھلی آب و ہوا میں صحت مند طریقے سے پرورش کرنا تھا۔ اس دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو حضرت حلیمہ بنت عبداللہ اور حضرت ثویبہ(درست تلفظ: ثُوَیبہ) نے دودھ پلایا۔ چھ سال کی عمر میں آپ کی والدہ اور آٹھ سال کی عمر میں آپ کے دادا بھی وفات پا گئے۔ اس کے بعد آپ کی پرورش کی ذمہ داریاں آپ کے چچا اور بنو ہاشم کے نۓ سردار حضرت ابو طالب نے سرانجام دیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابو طالب کے ساتھ شام کا تجارتی سفر بھی اختیار کیا اور تجارت کے امور سے واقفیت حاصل کی۔ اس سفر کے دوران ایک بحیرا نامی عیسائی راہب نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں کچھ ایسی نشانیاں دیکھیں جو ایک آنے والے پیغمبر کے بارے میں قدیم آسمانی کتابوں میں لکھی تھیں۔ اس نے حضرت ابوطالب کو بتایا کہ اگر شام کے یہود یا نصاریٰ نے یہ نشانیاں پا لیں تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ چنانچہ حضرت ابوطالب نے یہ سفر ملتوی کر دیا اور واپس مکہ آ گئے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا بچپن عام بچوں کی طرح کھیل کود میں نہیں گذرا ہوگا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں نبوت کی نشانیاں شروع سے موجود تھیں۔ اس قسم کا ایک واقعہ اس وقت بھی پیش آیا جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بدوی قبیلہ میں اپنی دایہ کے پاس تھے۔ وہاں حبشہ کے کچھ عیسائیوں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بغور دیکھا اور کچھ سوالات کیے یہاں تک کہ نبوت کی نشانیاں پائیں اور پھر کہنے لگے کہ ہم اس بچے کو پکڑ کر اپنی سرزمین میں لے جائیں گے۔ اس واقعہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مکہ لوٹا دیا گیا۔
شام کا دوسرا سفر اور شادي
تقریباً 25 سال کی عمر میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے شام کا دوسرا بڑا سفر کیا جو حضرت خدیجہ علیہا السلام کے تجارتی قافلہ کے لیے تھا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایمانداری کی بنا پر اپنے آپ کو ایک اچھا تاجر ثابت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم دوسرے لوگوں کا مال تجارت بھی تجارت کی غرض سے لے کر جایا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہ خدمات حضرت خدیجہ علیہا السلام کے لیۓ بھی انجام دیا کرتے تھے۔ اس سفر سے واپسی پر حضرت خدیجہ کے غلام میسرہ نے ان کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ایمانداری اور اخلاق کی کچھ باتیں بتائیں۔ انہوں نے جب یہ باتیں اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کو بتائیں تو ورقہ بن نوفل نے کہا کہ جو باتیں آپ نے بتائیں ہیں اگر صحیح ہیں تو یہ شخص یقیناً نبی ہیں۔ آپ حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اچھے اخلاق اور ایمانداری سے بہت متاثر ہوئیں اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو شادی کا پیغام دیا جس کو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت ابوطالب کے مشورے سے قبول کر لیا۔ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر 25 سال تھی۔حضرت خدیجہ علیہا السلام قریش کی مالدار ترین اور معزز ترین خواتین میں سے تھیں۔
مسجد نبوي
بعثت (پہلي وحي)
حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم غوروفکر کے لیۓ مکہ سے باہر ایک غار حرا میں تشریف لے جاتے تھے۔ یہ کوہ حرا کا ایک غار ہے جسے کوہِ فاران بھی کہا جاتا تھا۔ 610ء میں فرشتہ جبرائیل علیہ السلام پہلی وحی لے کر تشریف لاۓ۔ اس وقت سورہ العلق کی آیات نازل ہوئیں ۔ اس وقت حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی عمر تقریباً چالیس سال تھی۔ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کوہ حرا پر گئے هوئے تھے کہ جبرئیل آئے اور کہا : اے محمد پڑھ : پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا میں پڑھا هوا نھیں هوں ۔ جبرئیل نے انھیں آغوش میں لے کردبایا اور پھر دوبارہ کہا : پڑھ، پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے پھر اسی جواب کو دھرایا۔ اس کے بعد جبرئیل نے پھر وھی کام کیا اور وھی جواب سنا، اور تیسری بار کہا:
« اقراء باسم ربک الذی خلق۔۔۔» جبرئیل (ع)یہ بات کہہ کر پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی نظروں سے غائب هوگئے۔
”علامہ طبرسی“ بھی مجمع البیان میں یہ نقل کرتے ھیں کہ رسو ل خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے خدیجہ سے فرمایا :«جب میں تنھا هوتا هوں تو ایک آواز سن کر پریشان هو جاتا هوں» ۔ حضرت خدیجہ(ع) نے عرض کیا : خدا آپ کے بارے میں خیر اور بھلائی کے سوا کچھ نھیں کرے گا کیونکہ خدا کی قسم آپ امانت کو ادا کرتے ھیں اور صلہٴ رحم بجا لاتے ھیں اور جو بات کرتے ھیں اس میں سچ بولتے ھیں۔
”خدیجہ“(ع) کہتی ھیں : اس واقعہ کے بعد ھم ورقہ بن نوفل کے پاس گئے (نوفل خدیجہ کاچچا زاد بھائی اور عرب کے علماء میں سے تھا ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے جو کچھ دیکھا تھا وہ“ ورقہ“ سے بیان کیا ” ورقہ “ نے کہا : جس وقت وہ پکارنے والا آپ کے پاس آئے تو غور سے سنو کہ وہ کیا کہتا ھے ؟ اس کے بعد مجھ سے بیان کرنا۔
پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنی خلوت گاہ میں سنا کہ وہ کہہ رھاھے :
اے محمد ! کہو :
""بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم الحمد للّٰہ رب العالمین الرحمن الرحیم مالک یوم الدین ایاک نعبد وایاک نستعین اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیھم غیرالمغضوب علیھم ولاالضالین“۔
اور کہو ” لاالہ الاالله“ اس کے بعد آپ ورقہ کے پاس آئے اور اس ماجرے کو بیان کیا ۔
ورقہ “ نے کہا : آپ کو بشارت هو ‘ پھر بھی آپ کو بشارت هو ۔ میں گواھی دیتا هوں کہ آپ وھی ھیں جن کی عیسی بن مریم نے بشارت دی ھے‘ آپ موسی علیہ السلام کی طرح صاحب شریعت ھیں اور پیغمبر مرسل ھیں ۔ آج کے بعد بہت جلدھی جھاد کے لیے مامور هوں گے اور اگر میں اس دن تک زندہ رھا تو آپ کے ساتھ مل کر جھاد کروں گا جب ور قہ دنیا سے رخصت هو گیا تو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:
”میں نے اس روحانی شخص کو بہشت (برزخی جنت ) میں دیکھا ھے کہ وہ جسم پر ریشمی لباس پہنے هوئے تھا‘ کیونکہ وہ مجھ پر ایمان لایا تھا اور میری تصدیق کی تھی۔ “ شروع ہی میں حضرت خدیجہ ۔ع۔ آپ کے چچا زاد حضرت علی علیہ السلام، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے قریبی دوست حضرت ابوبکر صدیق، اور آپ کے آزاد کردہ غلام حضرت زید بن ثابت آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر ایمان لے آئے۔ مکہ کے باہر سے پہلے شخص حضرت ابوذر غفاری تھے جو اسلام لائے۔ پہلے تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قریبی ساتھیوں میں تبلیغ کی پھر تقریبا پہلی وحی کے تین سال بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے دعوتِ ذوالعشیرہ کے بعد سے اسلام کے پیغام کی کھلی تبلیغ شروع کی۔ اکثر لوگوں نے مخالفت کی مگر کچھ لوگ آہستہ آہستہ اسلام کی دعوت قبول کرتے گۓ۔
دعوت ذوالعشيرة
تاریخ اسلام کی رو سے آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بعثت کے تیسرے سال اس دعوت کا حکم هوا کیونکہ اب تک آپ کی دعوت مخفی طورپرجاری تھی اور اس مدت میں بہت کم لوگوں نے اسلام قبول کیا تھا لیکن جب یہ آیت نازل هوئی ” وانذر عشیرتک الا قربین “۔
اور یہ آیت بھی ” فاصدع بما تومروا عرض عن المشرکین “ تو آپ کھلم کھلا دعوت دینے پر مامور هوگئے۔ اس کی ابتداء اپنے قریبی رشتہ داروں سے کرنے کا حکم هوا ۔
اس دعوت اور تبلیغ کی اجمالی کیفیت کچھ اس طرح سے ھے : آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے قریبی رشتہ داروں کو جناب ابوطالب کے گھر میں دعوت دی اس میں تقریباً چالیس افراد شریک هوئے آپ کے چچاؤں میں سے ابوطالب، حمزہ اور ابولھب نے بھی شرکت کی ۔
کھانا کھا لینے کے بعد جب آنحضرت نے اپنا فریضہ ادا کرنے کا ارادہ فرمایا تو ابولھب نے بڑھ کر کچھ ایسی باتیں کیں جس سے سارا مجمع منتشر هوگیا لہٰذا آپ نے انھیں کل کے کھانے کی دعوت دے دی ۔
دوسرے دن کھانا کھانے کے بعد آپ نے ان سے فرمایا : ” اے عبد المطلب کے بیٹو: پورے عرب میں مجھے کوئی ایسا شخص دکھائی نھیں دیتا جو اپنی قوم کے لیے مجھ سے بہتر چیز لایا هو، میں تمھارے لیے دنیا اور آخرت کی بھلائی لے کر آیا هوں اور خدا نے مجھے حکم دیا ھے کہ تمھیں اس دین کی دعوت دوں، تم میں سے کون ھے جو اس کام میں میرا ھاتھ بٹائے تاکہ وہ میرا بھائی، میرا وصی اور میرا جانشین هو“ ؟ سب لوگ خاموش رھے سوائے علی بن ابی طالب کے جو سب سے کم سن تھے، علی اٹھے اور عرض کی : ”اے اللہ کے رسول! اس راہ میں میں آپ کا یاروومددگار هوں گا“ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنا ھاتھ علی (ع)کی گردن پر رکھا اور فرمایا : ”ان ھذا اخی ووصی وخلیفتی فیکم فاسمعوالہ واطیعوہ “۔ یہ (علی (ع)) تمھارے درمیان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا جانشین ھے اس کی باتوں کو سنو اور اس کے فرمان کی اطاعت کرو ۔ یہ سن کر سب لوگ اٹھ کھڑے هوئے اور تمسخر آمیز مسکراہٹ ان کے لبوں پر تھی، ابوطالب (ع) سے کہنے لگے، ”اب تم اپنے بیٹے کی باتوں کو سنا کرو اور اس کے فرمان پر عمل کیا کرنا“۔
اس روایت سے معلوم هوتا ھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ان دنوں کس حد تک تنھا تھے اور لوگ آپ کی دعوت کے جواب میں کیسے کیسے تمسخرآمیز جملے کہا کرتے تھے اور علی علیہ السلام ان ابتدائی ایام میں جبکہ آپ بالکل تنھا تھے کیونکر آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدافع بن کر آپ کے شانہ بشانہ چل رھے تھے۔
ایک اور روایت میں ھے کہ پیغمبراکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس وقت قریش کے ھر قبیلے کا نام لے لے کر انھیں بلایا اور انھیں جہنم کے عذاب سے ڈرایا، کبھی فرماتے:” یابنی کعب انقذواانفسکم من النار “۔
اے بنی کعب : خود کو جہنم سے بچاؤ، کبھی فرماتے : ”یا بنی عبدالشمس“ ۔۔ کبھی فرماتے :” یابنی عبدمناف“ ۔کبھی فرماتے : ”یابنی ھاشم “۔کبھی فرماتے : ”یابنی عبد المطلب انقذو انفسکم النار “۔ تم خودھی اپنے آپ کو جہنم سے بچاؤ، ورنہ کفر کی صورت میں میں تمھارا دفاع نھیں کرسکوں گا ۔
مسجد نبوي
مشرکين مکہ کي مخالفت
جیسے جیسے اسلام قبول کرنے والوں کی تعداد بڑھتی جا رہی تھی مقامی قبیلوں اور لیڈروں نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے لیۓ خطرہ سمجھنا شروع کر دیا۔ ان کی دولت اور عزت کعبہ کی وجہ سے تھی۔ اگر وہ اپنے بت کعبے سے باہر پھینک کر ایک اللہ کی عبادت کرنے لگتے تو انہیں خوف تھا کہ تجارت کا مرکز ان کے ہاتھ سے نکل جاۓ گا۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اپنے قبیلے سے بھی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا کونکہ وہ ہی کعبے کے رکھوالے تھے۔ قبائل نے ایک معاہدہ کے تحت مسلمانوں کا معاشی اور معاشرتی بائیکاٹ کیا یہاں تک کہ مسلمان تین سال شعبِ ابی طالب میں محصور رہے۔ یہ بائیکاٹ اس وقت ختم ہوا جب کعبہ پر لٹکے ہوئے معاہدے میں یہ دیکھا گیا کہ لفظ "اللہ" کے علاوہ تمام حروف دیمک کی وجہ سے کھائے گئے ہیں۔ جب مخالفت حد سے بڑھ گئی تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے ساتھیوں کو حبشہ جہاں ایک عیسائی بادشاہ حکومت کرتا تھا کی طرف ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ 619ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی بیوی حضرت خدیجہ اور آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پیارے چچا حضرت ابوطالب انتقال فرما گۓ۔ اسی لیے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس سال کو ""عام الحزن"" یعنی دکھ کا سال قرار دیا۔
واقعہ معراج
620ء میں آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم معراج پر تشریف لے گئے۔ اس سفر کے دوران آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مکہ سے مسجد اقصیٰ گئے اور وہاں تمام انبیائے کرام کی نماز کی امامت فرمائی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم آسمانوں میں اللہ تعالی سے ملاقات کرنے تشریف لے گئے۔ وہاں اللہ تعالی نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جنت اور دوزخ دکھائی۔ وہاں آپکی ملاقات مختلف انبیائے کرام سے بھی ہوئی۔ اسی سفر میں نماز بھی فرض ہوئی۔
ہجرت مدینہ
622ء تک مسلمانوں کےلئے مکہ میں رہنا ممکن نہیں رہا تھا۔ کئی دفعہ مسلمانوں اور خود حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تکالیف دیں گئیں۔ اس وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو مدینہ ہجرت کرنے کی اجازت دے دی۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اللہ کے حکم سے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ ستمبر 622ء میں مدینہ کی طرف روانہ ہوئے اور مدینہ میں اپنی جگہ حضرت علی علیہ السلام کو امانتوں کی واپسی کے لیے چھوڑا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے مدینہ پہنچنے پر ان کا انصار نے شاندار استقبال کیا اور اپنے تمام وسائل پیش کر دیے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم مدینہ پہنچے تو انصار استقبال کے لیے آئے اور خواتین چھتوں پر سے دیکھ رہی تھیں۔ اور دف بجا کر کچھ اشعار پڑھ رہی تھیں جن کا ترجمہ یہ ہے۔
ہم پر چودھویں کی رات کا چاند طلوع ہوگیا وداع کی پہاڑیوں سے ہم پر شکر واجب ہے جب تک کوئی اللہ کو پکارنے والا باقی رہے۔
آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے گھر کے سامنے رکی اور حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ان کے گھر قیام فرمایا۔ جس جگہ اونٹنی رکی تھی اسے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے قیمتاً خرید کر ایک مسجد کی تعمیر شروع کی جو مسجد نبوی کہلائی۔ اس تعمیر میں انہوں نے خود بھی حصہ لیا۔ یہاں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کے درمیان عقدِ مؤاخات کیا یعنی مسلمانوں کو اس طرح بھائی بنایا کہ انصار میں سے ایک کو مہاجرین میں سے ایک کا بھائی بنایا۔ خود حضرت علی علیہ السلام کو اپنا بھائی قرار دیا۔ انصار نے مہاجریں کی مثالی مدد کی۔ ہجرت کے ساتھ ہی اسلامی کیلنڈر کا آغاز بھی ہوا۔ آپ کے مدینہ آنے سے، اوس اور خزرج، یہاں کے دو قبائل جن نے بعد میں اسلام قبول بھی کیا میں لڑائی جھگڑا ختم ہوا اور ان میں اتحاد اور بھائی چارہ پیدا ہو گیا۔ اس کے علاوہ یہاں کچھ یہودیوں کے قبائل بھی تھے جو ہمیشہ فساد کا باعث تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے آنے کے بعد یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان ہونے والے معاہدہ "میثاق مدینہ" نے مدینہ میں امن کی فضا پیدا کر دی۔ اسی دور میں مسلمانوں کو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا، اس سے پہلے مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرتے تھے جو کہ یہودیوں کا بھی قبلہ تھا۔
جنگیں
مدینہ میں ایک ریاست قائم کرنے کے بعد مسلمانوں کو اپنے دفاع کی کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ان میں سے جن میں حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم شریک تھے انہیں ""غزوہ""کہتے ہیں اور جن میں وہ شریک نہیں تھے انہیں"" سریہ "" کہا جاتا ہے۔ اہم غزوات یا سریات درج ذیل ہیں۔
غزوہ بدر، غزوہ احد، غزوہ خندق، غزوہ بنی قریظہ، غزوہ بنی مصطلق، غزوہ خیبر، جنگِ موتہ، غزوہ فتح (فتحِ مکہ)، غزوہ حنین، غزوہ تبوک ۔
مسجد نبوي
خطبہ غدير
مسلمان ارادہ کررھے تھے کہ فوراً اپنے چھوٹے چھوٹے خیموں میں جاکر پناہ لیں جو انھوں نے اپنے ساتھ اٹھا رکھے تھے لیکن رسول اللہ نے انھیں آگاہ کیا کہ وہ سب کے سب خداوند تعالیٰ کا ایک نیا پیغام سننے کے لئے تیار هوں جسے ایک مفصل خطبے کے ساتھ بیان کیا جائے گا۔
جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے دور تھے وہ پیغمبر کا ملکوتی چھرہ اس عظیم اجتماع میں دور سے دیکھ نھیں پا رھے تھے لہٰذا اونٹوں کے پالانوں کا منبر بنایا گیا۔پیغمبر اس کے اوپر تشریف لے گئے۔پھلے پروردگار عالم کی حمد وثنا بجالائے اور خدا پر بھروسہ کرتے هوئے یوں خطاب فرمایا: میں عنقرب خداوندمتعال کی دعوت پر لبیک کہتے هوئے تمھارے درمیان سے جارھا هوں،میں بھی جوابدہ هوںاورتم بھی جوابدہ هو،تم میرے بارے میں کیا گواھی دوگے لوگوں نے بلند آواز میں کھا :
""ھم گواھی دیں گے کہ آپ نے فریضہٴ رسالت انجام دیا اورخیر خواھی کی ذمہ داری کو انجام دیا اور ھماری ہدایت کی راہ میں سعی و کوشش کی،خدا آپکوجزا ئے خیر دے“۔
اس کے بعد آپ نے فرمایا کیا تم لوگ خدا کی وحدانیت،میری رسالت اور روز قیامت کی حقانیت اوراس دن مردوں کے قبروں سے مبعوث هونے کی گواھی نھیں دیتے؟
سب نے کھا:کیوں نھیں ھم سب گواھی دیتے ھیں۔
آپ نے فرمایا: خداوند گواہ رہنا۔
آپ نے مزید فرمایا: اے لوگو ! کیا تم میری آواز سن رھے هو؟
انهوںنے کھا: جی ھاں۔
اس کے بعد سارے بیابان پر سکوت کا عالم طاری هوگیا۔ سوائے هوا کی سنسناہٹ کے کوئی چیز سنائی نھیں دیتی تھی ۔ پیغمبر نے فرمایا:دیکھو! میں تمھارے درمیان دوگرانمایہ اور گرانقدر چیزیں بطور یادگار چھوڑے جارھا هوں تم ان کے ساتھ کیا سلوک کروگے؟
حاضرین میں سے ایک شخص نے پکار کر کھا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم وہ دو گرانمایہ چیزیں کونسی ھیں؟
تو پیغمبراکرم نے فرمایا: پھلی چیز تو اللہ تعالیٰ کی کتاب ھے جو ثقل اکبر ھے۔ اس کا ایک سرا تو پروردگار عالم کے ھاتھ میں ھے اور دوسرا سراتمھارے ھاتھ میں ھے،اس سے ھاتھ نہ ہٹانا ورنہ تم گمراہ هو جاؤگے۔ دوسری گرانقدر یادگار میرے اھل بیت (ع) ھیں اور مجھے خدائے لطیف وخبیر نے خبردی ھے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نھیں هوں گے یھاں تک کہ بہشت میں مجھ سے آ ملیں گے۔
ان دونوں سے آگے بڑھنے (اور ان سے تجاوز کرنے) کی کوشش نہ کرنا اور نہ ھی ان سے پیچھے رہنا کہ اس صورت میں بھی تم ھلاک هو جاؤگے۔
اچانک لوگوں نے دیکھا کہ ر سول اللہ اپنے ارد گرد نگاھیں دوڑا رھے ھیں گویا کسی کو تلاش کر رھے ھیں جونھی آپ کی نظر حضرت علی علیہ السلام پر پڑی فوراً ان کا ھاتھ پکڑلیا اور انھیں اتنا بلند کیا کہ دونوں کی بغلوں کے نیچے کی سفیدی نظر آنے لگی اور سب لوگوں نے انھیں دیکھ کر پہچان لیا کہ یہ تو اسلام کا وھی سپہ سالار ھے کہ جس نے کبھی شکست کا منہ نھیں دیکھا۔
اس موقع پر پیغمبر کی آواز زیادہ نمایاں اوربلند هوگئی اور آپ نے ارشاد فرمایا:
”ایھا الناس من اولی الناس بالموٴمنین من انفسھم۔“
یعنی اے لوگو! بتاؤ وہ کون ھے جو تمام لوگوں کی نسبت مومنین پر خود ان سے زیادہ اولیت رکھتا ھے ؟ اس پر سب حاضرین نے بہ یک آواز جواب دیا کہ خدا اور اس کا پیغمبر بہتر جانتے ھیں۔
تو پیغمبر نے فرمایا: خداا میرا مولا اوررھبر ھے اور میں مومنین کا مولااوررھبر هوں اور ان کے اوپر ان کی نسبت خود ان سے زیادہ حق رکھتا هوں(اور میرا ارادہ ان کے ارادے سے مقدم ھے)۔
اس کے بعد فرمایا:
«فمن کنت مولاہ فہذا علی مولاہ»
”یعنی جس جس کا میں مولاہ هوں علی (ع) بھی اس اس کے مولاہ اور رھبر ھے“۔
پیغمبر اکرم نے اس جملے کی تین مرتبہ تکرار کی او ربعض راویوں کے قول کے مطابق پیغمبر نے یہ جملہ چار مرتبہ دھرایا اور اس کے بعد آسمان کی طرف سر بلند کر کے بارگاہ خداوندی میں عرض کی:۔
”اللّٰھم وال من والاہ وعاد من عاداہ واحب من احبہ و ابغض من ابغضہ و انصر من نصرہ واخذل من خذلہ، وادرالحق معہ حیث دار۔“
یعنی بار الٰھا! جو اس کو دوست رکھے تو اس کو دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی کرے تو اس سے دشمنی رکھ۔ جو اس سے محبت کرے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے بغض رکھ۔ جو اس کی مدد کرے تو اس کی مدد کر ۔ جو اس کی مدد سے کنارہ کشی کرے تو اسے اپنی مدد سے محروم رکھ اور حق کو ادھرپھیردے جدھر وہ رخ کرے۔
اس کے بعد فرمایا:
” تمام حاضرین آگاہ هوجائیں اس بات پر کہ یہ ان کی ذمہ داری ھے کہ وہ اس بات کوان لوگوں تک پہنچائیں جو یھاں پر اور اس وقت موجود نھیں ھیں “۔
مسجد نبوي
روز اکمال دين
پیغمبر۔ص۔ کا خطبہ ختم هوگیا پیغمبر پسینے میں شرابور تھے حضرت علی علیہ السلام بھی پسینے میں نھائے هوئے تھے۔ دوسرے تمام حاضرین کے بھی سر سے پاؤں تک پسینہ بہہ رھا تھا۔
ابھی اس جمعیت کی صفیں ایک دوسرے سے جدا نھیں هوئی تھیں کہ جبرئیل (ع) امین وحی لے کر نازل هوئے اور تکمیل دین کی پیغمبر کو ان الفاظ میں بشارت دی:
”الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی “
”آج کے دن میں نے تمھارے لئے تمھارے دین اور آئین کو کامل کردیا اور اپنی نعمت کو تم پر تمام کردیا“۔
اتمام نعمت کا پیغام سن کر پیغمبر نے فرمایا:
”اللّٰہ اکبر اللّٰہ اکبر علی اکمال الدین واتمام النعمة ورضی الرب برسالتی والولایةلعلی من بعدی“۔
”ھر طرح کی بزرگی وبڑائی خداھی کے لئے ھے کہ جس نے اپنے دین کو کامل فرمایا اور اپنی نعمت کو ھم پر تمام کیا اور میری نبوت ورسالت اور میرے بعد کے لئے علی (ع) کی ولایت کے لئے خوش هوا۔“
امیرالموٴمنین علی ابن ابی طالب علیھما السلام کی ولایت کا پیغمبر کی زبان مبارک سے اعلان سن کر حاضرین میں مبارک باد کا شور برپا هوا لوگ بڑھ چڑھ کر اس اعزازومنصب پر حضرت علی (ع) کو اپنی طرف سے مبارک باد پیش کررھے تھے ۔ معروف شخصیتوں میں سے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر کی طرف سے مبارک باد کے یہ الفاظ تاریخ کے اوراق میں محفوظ ھیں کہ انهوں نے کہا:
”بخٍ بخٍ لک یا بن ابی طالب اصبحت وامسیت مولائی و مولاکل موٴمن و موٴمنةٍ۔“
”مبارک هو ! مبارک هو! اے فرزند ابی طالب کہ آپ(ع) میرے اور تمام صاحبان ایمان مردوں اورعورتوں کے مولا اور رھبر هوگئے“۔
اس وقت ابن عباس نے کہا :بخدا یہ عہد و پیمان سب کی گردنوں میں باقی رھے گا“
وفات
حجۃ الوداع کے فوراً بعد آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کچھ بیمار ہوئے پھر ٹھیک ہو گئے مگر کچھ عرصہ بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پھر بیمار پڑ گئے اورکئی روز تک ان کے سر میں درد ہوتا رہا۔ بالاخر روایات کے مطابق مئی یا جون 632ء میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم انتقال کر گئے۔ بعض روایات کے مطابق جنگِ خیبر کے دوران ایک یہودی عورت نے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو زھر دیا تھا جس کے اثر سے آپ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم بیمار ہوئے۔ غزوہ خیبر کے فوراً بعد بنو نضیر کی ایک یہودی عورت نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھیڑ کا گوشت پیش کیا جس میں ایک سریع الاثر زھر ملا ہوا تھا۔ حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اسے یہ محسوس ہونے پر تھوک دیا کہ اس میں زھر ہے مگر ان کے ایک صحابی جو ان کےساتھ کھانے میں شریک تھے، شہید ہو گئے۔ ایک صحابی کی روایت کے مطابق بسترِ وفات پر حضور صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا تھا کہ ان کی بیماری اس زھر کا اثر ہے جو خیبر میں دیا گیا تھا۔ انتقال کے وقت آپ کی عمر 63 برس تھی۔ حضرت علی علیہ السلام نے غسل و کفن دیا اور اصحاب کی مختلف جماعتوں نے یکے بعد دیگرے نمازِ جنازہ ادا کی اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو مسجد نبوی کے ساتھ ملحق ان کے حجرے میں اسی جگہ دفن کیا گیا جہاں ان کی وفات ہوئی تھی۔ یہ اور اس کے اردگرد کی تمام جگہ اب مسجدِ نبوی میں شامل ہے۔
مسجد نبوي
رھبر کائنات
" ہم نے آپ کو خلق عظیم پر فائز کیاہے "
آج پھر دنیا ئے بشریت ظلم و نا انصافی کے گہرے زخموں سے چور کراہ رہی ہے، اگرچہ اس نے بڑی تیزی سے علم و دانش کی عظیم راہیں عبور کرلی ہیں لیکن اب بھی آدمیت اخلاق اور انسانی وجدان کے بیچ راہ میں حیران و سرگردان کھڑی ہے ۔ اسے ایک ایسے" درخشاں نور " کی ضرورت ہے جو اس کی حیات کو گرمی اور تازگی عطا کردے نور محمدی کا آخری جلوہ کو ایک دنیا سراپا انتظار ہے ۔ خاص طور پر ان دنوں ہر طرف " محمّد(ص) کی آمد " کا نور پھیلا ہوا ہے ۔ یقینا" ان کی معرفت اور عشق و اطاعت دلوں سے دنیوی آلودگیوں کی سیاہی دور کردے گی اور محبت و سچائی کے تحفے نچھاور کرے گی ۔ اگر تمام انسان ان کی رہنمائیوں کے پرتو میں زندگی گزارنے کا عہد کریں تو نجات و رستگاری قدم چومے گی ۔ خداوند عالم نے بھی اس طرح کے انسانوں پر درود بھیجا ہے اپنے پیغمبر (ص) کو خطاب کرکے وہ فرما چکا ہے :
" جب آپ کے پاس صاحبان ایمان آئیں تو ان سے کہئے : تم پر سلام ہو، تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر تمہارے حق میں رحمت لازم کرلی ہے "
اس لئے آج پوری کائنات خدا کے پیغمبر محمد مصطفی صلی اللہ و علیہ و آلہ و سلم کا جشن ولادت پورے جوش و خروش کے ساتھ منارہی ہے گویا زمین و آسمان، انسان اور فرشتے سب کے سب اپنی اپنی زبان میں آپ کی مدح سرائی میں مشغول ہیں جیسا کہ خود رسول اسلام (ص) نے ایک سائل کے سوال کے جواب میں کہا تھا :
مجھ کو محمد کہتے ہیں کیونکہ اہل زمین میری نعت خوانی میں مشغول رہتے ہیں ۔مجھے احمد کہتے ہیں کیونکہ آسمان والے میرا قصیدہ پڑھتے ہیں ۔ میری کنیت ابوالقاسم ہے کیونکہ خداوند عالم نے قیامت میں جنت اور جہنم کی تقسیم کے لئے میری محبت کو معیار قراردیا ہے ۔ پس جو مجھ پر ایمان لائے گا خدا اس کو بہشت میں جگہ عطا کرے گا ۔
محمّد کی محبّت دین حق کی شرط اوّل ہے
اسی میں ہو اگر خامی تو ا یمان نامکمل ہے