خاتم االنبیین سید المرسلین حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کے اوصاف
۱۔ امی عالم
خاتم النبیین کا یہ امتیاز تھا کہ آپؐ نے کسی بشر سے پڑھنا اور لکھنا نہیں سیکھا تھا[1] اور نہ کسی علمی ماحول میں نشو و نما پائی تھی بلکہ آپؐ نے جاہلیت والے ماحول میں پرورش پائی تھی، قرآن کی بیان کی ہوئی اس حقیقت کی کسی نے تردید نہیں کی ہے ۔[2]
اس قوم کی طرف آپ رسول بنا کر بھیجے گئے تھے جو اپنی نری جاہلیت کے حوالہ سے مشہور اور علوم و معارف سے بہت دور تھی۔ اس زمانہ کو زمانۂ جاہلیت کا نام دیا گیاہے ۔ یقیناًیہ نام اس عظیم الشان عالم نے دیا ہے جو علم و جہالت اور عقل و حماقت کی حقیقت سے کما حقہ با ٰخبر تھا۔مزید بر آں وہ ایسی کتاب لائے تھے جو علم و ثقافت ، فکر و نظر کی دعوت دیتی ہے اور علوم و معارف کے بہت سے اقسام و اصناف پر مشتمل ہے ، آپؐ نے لوگوں کو نئے اسلوب سے کتاب و حکمت کی تعلیم دینا شروع کی[3] یہاں تک کہ ایک ایسی منفرد تہذیب کو وجود بخشا کہ جس نے اپنے علوم و معارف کے ذریعہ مشرق و مغرب کو متزلزل کر دیا اور اس کی ضو فشانی وتابناکی آج تک اسی طرح برقرار ہے۔
دنیا والوں کے لحاظ سے آپؐ امی تھے لیکن جاہلیت و نادانی اور بت پرستوں سے جنگ کرتے رہے انہیں استوار دین اور عالمی شریعت کے ساتھ بشریت کی طرف بھیجا گیا جووقت گزرنے کے ساتھ بشریت کوچیلنج کرتی چلی آرہی ہے(لیکن ابھی تک کوئی اس کا جواب نہیں لا سکا ہے) بیشک آپؐ اپنے علم و معارف، حکیمانہ کلمات، عقلی و ثقافتی رجحان اور اپنی تربیت کے اسالیب کے لحاظ سے معجزہ ہیں۔
خدا وند عالم کا ارشاد ہے:
(فامنوا باللّٰہ و رسولہ النّبی الامّی الّذی یومن باللّٰہ و کلماتہ و اتبعوہ لعلّکم تھتدون)
پس تم خدا اور اس کے رسول نبی امی پر ایمان لاؤ جو کہ خدا اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کا اتباع کرو،ہو سکتا ہے اس طرح تم ہدایت پا جاؤ۔[4]
نیز فرماتا ہے:
(و انزل اللّہ علیک الکتاب و الحکمۃ و علّمک ما لم تکن تعلم و کان فضل اللّہ علیک عظیما)[5]
اور خدا نے تمہیں کتاب و حکمت سے نوازا اور تمہیں ان چیزوں کا علم دیا جن کو تم نہیں جانتے تھے اور یہ تم پر خدا کا بڑا کرم ہے ۔
اس وقت خدا نے ان پر وحی نازل کی اور انہیں کتاب و حکمت کے علم سے سر فراز کیا اور انہیں نور، سراج منیر، برہان، شاہد، رسول مبین ، امین خیر خواہ ناصح، بشارت دینے والا، یاد دلانے والا اور ڈرانے والا قرار دیا۔[6]
خدا نے ان کے سینہ کو کشادہ کیا اور انہیں وحی قبول کرنے اور اس معاشرہ کی ہدایت کرنے کے لئے تیار کیا جو عصبیت اور جاہلیت والی انانیت میں غرق تھے تبلیغ و تربیت اور تعلیم کے میدان میں بشریت نے آپ کو عظیم الشان قائد پایا ہے ۔
یہ ایک بہت بڑا انقلاب تھا کہ جاہلیت سے بھرا معاشرہ چند برسوں میں کتابِ ہدایت اور مشعل علم کا ایک طاقتور و امین نگہبان و محافظ بن گیا اور تحریف و تصحیف کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے،عزم محکم کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوایہ اس دائمی کتاب اور اس رسولؐ امی کا معجزہ ہے جو جاہلیت کے معاشرہ میں( خرافات اور اساطیر سے بہت دور تھا) اصل میں خدائی نورِ بصیرت آپ کے پورے وجود کا احاطہ کئے ہوئے تھا۔
۲۔ مسلمِ اوّل
خالقِ کائنات ، سرچشمۂ وجود، خدا کے سامنے سر جھکانا ،اس کی عظیم قدرت اور اس کی حکمت کے نفاذ کے سامنے سراپا تسلیم ہونا نیز ایک، اکیلے اور بے نیاز معبود کی بندگی کا اقرار کرنا وہ منزل ہے جس سے ہر انسان کو گزرنا چاہئے تاکہ وہ خدائی انتخاب واصطفیٰ کے لائق بن جائے۔ قرآن مجید نے نبی کریم کے لئے اسی کی گواہی دی ہے۔ ارشاد ہے:
(قل انّنی ھدانی ربّی الیٰ صراط مستقیم...و انا اوّل المسلمین)[7]
آپ کہہ دیجئے کہ میرے رب نے صراط مستقیم کی طرف میری ہدایت کی ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔
یہ تمغۂ کمال ہے جس کو اس بندۂ مسلم نے حاصل کیا ہے اور اس کی بندگی میں سب پر فوقیت لے گئے ہیں اس مثالی عبودیت کی جھلک آپؐ کے قول و فعل میں نظر آتی ہے ۔ فرماتے ہیں:
’’قرۃ عیني فی الصّلواۃ‘‘[8]
میری آنکھوں کی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔ آپؐ وقتِ نماز کا انتظار کرتے تھے، بارگاہ خدا میں پہنچنے کاآپ کو شدید اشتیاق رہتا تھا چنانچہ اپنے موذن بلال سے فرماتے تھے:ارحنا یا بلال[9] اے بلال ہمیں خوش کرو، آپؐ اپنے اہل و عیال سے گفتگو کرتے تھے وہ بھی آپؐ سے محو سخن رہتے تھے لیکن جب نماز کا وقت آتا تو ایسا لگتا تھا جیسے وہ ایک دوسرے کو جانتے ہی نہیں ہیں۔[10]اور جب نماز پڑھتے تھے تو آپؐ کے سینہ اقدس سے ایسا زمزمہ بلند ہوتا تھا جیسے پتیلی میں کچھ پکنے کی آواز ہوتی ہے [11]اور خوفِ خدا میں اتنا روتے تھے کہ آپ کا مصلّٰی تر ہو جاتا تھا۔ [12]
اتنی نمازیں پڑھتے تھے کہ آپ کے پیروں پر ورم آ جاتا تھا اورصحابہ آپؐ سے عرض کرتے تھے: آپؐ اتنی نمازیں پڑھتے ہیں جبکہ خدا نے آپؐ کے گذشتہ اور آئندہ کے سارے الزاموں کو معاف کر دیا ہے؟ آپؐ فرماتے تھے:
’’أفلا أکون عبداً شکوراً‘‘[13]
کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟!
آپ پورے ماہ رجب و شعبان، اورہر مہینہ میں تین دن روزہ رکھتے تھے۔[14] رمضان آتا تو آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا اور نماز و دعامیں بہت گڑگڑاتے تھے۔[15] رمضان کے آخری دس دنوں میں تو آپؐ ازواج سے بھی پرہیز کرتے تھے شب بیداری کرتے تھے مختصر یہ کہ آپ اپنی پوری طاقت کو عبادت میں صرف کرتے تھے۔[16] دعا کے متعلق فرماتے:
’’الدعا مخ العبادۃ‘‘[17]
دعا عبادت کا لب لبا ب ہے۔
’’و سلاح المؤمن و عمود الدین و نور السمٰوات و الارض‘‘[18]
دعا مومن کا اسلحہ ہے ، دین کا ستون ہے اور زمین و آسمان کا نور ہے : آپؐ ہمیشہ خدا سے لو لگائے رہتے تھے، دعا اور تضرع کے ذریعہ خدا سے اپنا رشتہ مضبوط رکھتے تھے۔ ہر چھوٹے بڑے کام کے لئے دعا کرتے تھے، ہر روز خدا سے ستر مرتبہ استغفار کرتے تھے باوجود یکہ آپؐ معصوم تھے پھر بھی خدا کی بارگاہ میں ہر روز ستر بار توبہ کرتےتھے[19] اور جب بیدار ہوتے تھے تو پہلے خدا کو سجدہ کرتے تھے [20] اور ہر روز تین سو ساٹھ مرتبہ خدا کی حمد کرتے اور کہتے تھے:
الحمد للّٰہ ربِّ العالمین کثیراً علیٰ کلّ حال۔ [21]
قرآن خوانی تو آپ ؐکا شغف اور محبوب مشغلہ تھا جب آپؐ نے عبادت میں بہت زیادہ جانفشانی کی تو جبریل نازل ہوئے اور آپؐ کی خدمت میں خدا کا پیغام پہنچایا:
(طہ، ما انزلنا علیک القرآن لتشقیٰ)ٰ۔ [22]
طٰہ، ہم نے آپؐ پر اس لئے قرآن نازل نہیں کیا ہے کہ آپ خود کو مشقت میں ڈالیں۔
۳۔ خدا ہی پر بھروسہ
اپنے رسول ؐ کے بارے میں خدا کا ارشاد ہے :
( الیس اللّٰہ بکاف عبدہ) [23]
کیا اپنے بندہ کے لئے اللہ کافی نہیں ہے؟!
نیز فرماتا ہے:
( و توکُلّ علیٰ العزیز الرّحیم الّذی یراک حین تقوم و تقلّبک فی السّاجدین)[24]
اور غالب و رحیم خدا پر بھروسہ کیجئے جو آپؐ کو اس وقت بھی دیکھتا ہے جب آپؐ قیام کرتے ہیں اور سجدہ کرنے والوں میں آپؐ کی نشست و برخاست بھی دیکھتا ہے۔
یقیناًرسولؐ اعظم خدا پر ایسے ہی توکل و اعتماد کرتے تھے جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشادگزرا ہے ۔
جابر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ذات الرقاع میں ہم رسولؐ کے ہمراہ تھے ہم نے ایک سایہ دار درخت دیکھا اسے رسولؐ کے لئے چھوڑ دیا۔ رسولؐ نے اپنی تلوار درخت پر لٹکا دی اور آرام کرنے لگے، ایک مشرک نے اس تلوار کو اٹھا لیا اور رسولؐ سے کہنے لگا: آپؐ مجھ سے ڈرتے ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: نہیں اس نے کہا: اب آپ کو میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ آپؐ نے فرمایا: اللہ بچائے گا۔ یہ سن کر اس کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر گر پڑی ، تلوار کو آنحضرت ؐ نے اٹھا لیا اور فرمایا: اب میرے ہاتھ سے تجھے کون بچائے گا؟ اس نے کہا: مجھ پر احسان کیجئے، آپؐ نے فرمایا: کیا تم یہ گواہی نہیں دوگے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا : یہ گواہی تو میں نہیں دونگا لیکن میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میں آپ ؐسے جنگ نہیں کرونگا اور ان لوگوں کا ساتھ نہیں دونگا جو آپؐ سے جنگ کرتے ہیں، آپؐ نے اس کا راستہ چھوڑ دیا وہ اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہنے لگا: میں سب سے زیادہ نیک آدمی کے پاس سے آ رہا ہوں۔ [25]
۴۔شجاعت
خدا وند عالم کا ارشاد ہے :
( الّذین یبلّغون رسالات اللّٰہ و یخشونہ ولا یخشون احداً الا اللّٰہ)۔ [26]
جو لوگ خدا کے پیغاموں کو پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے(علی ابن ابی طالب کہ جن کے سامنے عرب کے سورماؤں کازہرہ آب ہو جاتا تھا )فرماتے ہیں: جب میدان کا رزار گرم ہوتا تھا اور دونوں طرف کی فوجیں ایک دوسرے سے گتھ جاتی تھیں تو اس وقت ہم رسولؐ کے پاس پناہ لیتے تھے اور آپ دشمن کی فوج سے بہت زیادہ قریب ہوتے تھے۔[27]
جنگ احد میں صحابہ آپؐ کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اس وقت آپؐ کی ثابت قدمی کی منظر کشی مقداد نے اس طرح کی ہے : اس ذات کی قسم جس نے انہیں حق کے ساتھ مبعوث کیا میں نے نہیں دیکھا کہ رسولؐ اپنی جگہ سے ایک بالشت بھی پیچھے ہٹے ہوں جبکہ دشمنوں کا سارا زور آپؐ کی طرف تھا آپؐ کے اصحاب میں ایک جماعت آپؐ کے پاس جمع ہوتی تھی تو دوسری متفرق ہو جاتی تھی میں نے بارہا دیکھا کہ آپ اپنی کمان سے تیر چلا رہے ہیں یا پتھرپھینک رہے ہیں یہاں تک کہ دونوں طرف سے پتھراؤ شروع ہو گیا۔[28]
۵۔ بے مثال زہد
خدا وند عالم فرماتا ہے:
(ولا تمدّنّ عینیک الیٰ ما متعنا بہ ازواجاً منھم زہرۃ الحیاۃ الدّنیا لنفتنھم فیہ و رزق ربک خیر و ابقیٰ)[29]
اور ہم نے ان میں سے بعض لوگوں کو دنیوی زندگی کی رونق سے مالامال کر دیا آپ اپنی نگاہ کو ان کی طرف ہرگز نہ ڈالیں اس لئے کہ اس کے ذریعہ ہم انہیں آزمائیں گے اور آپ کے پروردگار کا رزق اس سے کہیں بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔
ابو امامہ نے رسولؐ سے روایت کی ہے کہ آپؐ نے فرمایا: مجھے میرے رب کا پیغام پہنچا کہ میں بطحائے مکہ کو تمہارے لئے سونے سے بھر دوں؟ میں نے عرض کی: نہیں معبود! میں ایک دن شکم سیر اور ایک دن بھوکا رہنا چاہتا ہوں، جب مجھے بھوک لگے تو میں تیری بارگاہ میں تضرع و زاری کروں اور جب شکم سیر ہوں تو تیری حمد کروں اور تیرا شکر ادا کروں۔[30]
رسولؐ اپنی چٹائی پر محو خواب ہوتے تھے اس سے آپ کے پہلو میں درد ہو گیا۔لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسولؐ! ہم آپ کے لئے فرش فراہم کر دیں فرمایا: دنیا (کی لذتوں) سے مجھے کیا واسطہ؟ میں تو دنیا میں اس سوار کی مانند ہوں کہ جس نے درخت کے سایہ میں تھوڑی دیر آرام کیا اور پھر روانہ ہو گیا۔ [31]
ابن عباس کہتے ہیں کہ رسولؐ کئی کئی دن بھوکے رہتے تھے، آپؐ کے اہل و عیال بھی اسی حال میں رہتے تھے وہ اکثر جو کی روٹی کھاتے تھے۔[32]عائشہ کہتی ہیں: آل محمدؐ نے کبھی دن میں دو کھانے نہیں کھائے، مگر یہ کہ ایک کھانا خرما ہوتا تھا[33] نیز کہتی ہیں: رسولؐ کی وفات کے وقت بھی آپؐ کی ایک بکری یہودی کے یہاں تیس سیر جو کے عوض گروی تھی۔[34]
انس بن مالک سے روایت ہے کہ فاطمہ زہراؑ آپؐ کی خدمت میں روٹی کا ایک ٹکڑا لائیں تو آپؐ نے فرمایا: اے فاطمہ!یہ ٹکڑا کیسا ہے ؟ عرض کی: یہ روٹی کا ٹکڑا ہے، میرا دل نہ مانا لہذا میں آپ کی خدمت میں لیکر حاضر ہوئی۔ فرمایا: تین دن کے بعد آج یہ پہلا لقمہ ہے جو تمہارے باپ کے منہ میں گیا ہے۔[35]
قتادہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ہم انس کے پاس تھے اور ان کے پاس ایک نانبائی تھا انہوں نے کہا: رسولؐ نے جیتے جی نرم روٹی اور بھنی بکری نہیں کھائی۔[36]
۶۔بردباری اور کرم
ابن عباس کہتے ہیں: رسولؐ بڑے کریم و فیاّض تھے۔ ماہ رمضان میں زیادہ سخاوت کرتے تھے۔ ہر سال رمضان میں جبریل آپؐ سے ملاقات کرتے تھے اورجب جبریل آپؐ سے ملاقات کرتے تھے تو آپؐ کو نرم ہوا سے بھی زیادہ سخی پاتے تھے۔[37]
جابر سے روایت ہے کہ رسولؐ سے جب بھی کچھ مانگا گیا آپؐ نے انکار نہیں کیا۔[38]
روایت ہے کہ رسولؐ ایک کپڑے والے کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے چار درہم میں ایک قمیص خریدی ۔اس کو پہن کر بر آمد ہوئے تو انصار میں سے ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے قمیص پہنا دیجئے اللہ آپ کو جنت کا لباس عطا کرے گا۔ آپؐ نے قمیص اتاری اور اسے پہنا دی، پھر دوکاندار کے پاس آئے اور اس سے چار درہم میں دوسری قمیص خریدی آپؐ کے پاس دو درہم باقی بچے دیکھا کہ راستہ میں ایک کنیز رو رہی ہے ۔ آپؐ نے اس سے دریافت کیا: کیوں رو رہی ہو؟ اس نے عرض کی اے اللہ کے رسولؐ! میرے آقا نے مجھے دو درہم دئیے تھے کہ آٹا لے آؤوہ درہم گم ہو گئے دو درہم رسولؐ نے اسے دے دئیے ۔ کنیز نے پھر عرض کی: میں ڈرتی ہوں کہ گھر والے کہیں مجھے ماریں نہ لہذا رسولؐ اس کے ساتھ اس کے آقا کے گھر تشریف لے گئے ، باہر ہی سے سلام کیا، ان لوگوں نے رسولؐ کی آواز پہچان لی لیکن کوئی جواب نہ آیا آپؐ نے پھر سلام کیا۔ پھر کوئی جواب نہ ملا آپؐ نے پھر سلام کیا تو ان لوگوں نے سلام کا جواب دیا۔ آپؐ نے دریافت کیا تم نے میرا پہلا سلام نہیں سنا تھا؟ انہوں نے عرض کی: سنا تھا لیکن ہم چاہتے تھے آپ ہماری سلامتی کی زیادہ دعا کریں۔ ہمارے ماں باپ آپؐ پر قربان تشریف آوری کا باعث کیا ہے ؟ فرمایا: مجھے یہ خوف تھا کہ تم اس کنیز کو ماروگے۔ اس کے مالک نے کہا : آپؐ اس کے ساتھ تشریف لائے ہیں لہذامیں نے اسے راہ خدا میں آزاد کیا، رسولؐ خدا نے انہیں دعائے خیردی اور انہیں جنت کی بشارت دی اور فرمایا:
لقد بارک اللّہ فی العشرۃ کسا اللّہ نبیہ قمیصاً و رجلا من الانصار قمیصا و اعتق منھا رقبۃ و احمد اللّہ ھو الّذی رزقنا ھذا بقدرتہ۔[39]
یقیناًخدا نے ان دس درہموں میں برکت عطا کی اس کے ذریعہ سے خدا نے اپنے نبیؐ کو قمیص پہنائی ، اورایک آدمی کو انصار میں سے قمیص پہنائی اور اس دس درہم میں سے ایک کنیز کو آزاد کرایا میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے اپنی قدرت سے ہمیں یہ چیزیں عطا کیں۔
ماہ رمضان آتا تو آپ اسیروں کو رہا کر دیتے تھے اور ہر سائل کو عطا کرتے تھے۔[40]
عائشہ کہتی ہیں: نبیؐ اپنے ساتھ کی گئی بدسلوکی کا انتقام نہیں لیتے تھے ہاں حرمتِ الٰہی کی پامالی کا انتقام لیتے تھے، اپنے ہاتھ سے آپؐ نے کبھی کسی کو نہیں مارا، اگر مارا تو راہ خدا میں مارا، آپؐ نے کسی سوالی کو محروم نہیں کیا، مگر یہ کہ اس نے گناہ کا سوال کیا ہو کیونکہ آپؐ معصوم تھے، گناہ سے بہت دور تھے۔[41]
عبید بن عمر سے روایت ہے : اگر رسولؐ کے پاس ایسے مجرم کو لایا جاتا تھاکہ جس پر حد نہیں ہوئی تھی تو آپ اسے معاف کر دیتے تھے۔ [42]
انس کہتے ہیں: میں نے دس سال تک رسولؐ کی خدمت کی ہے لیکن کبھی آپؐ نے مجھ سے اف تک بھی نہیں کہا، اور میں جو کام بھی انجام دیتا تھا اس پر کبھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ تم نے کیوں کیا؟ اور جو کام میں نہیں کرتا تھا اس پر کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ انجام کیوں نہیں دیا؟[43]
ایک اعرابی آپؐ کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے اپنی ردا کو اتنی شدت کے ساتھ کھینچا کہ اس کا ایک کونا آپؐ کی گردن پر لگا، اور کہنے لگا: اے محمدؐ! مجھے مالِ خدا میں سے دئیے جانے کا حکم دیں، آپؐ نے اس کی طرف دیکھا تبسم کیااور اسے عطا کرنے کا حکم دیا۔
آپؐ نے زندگی بھر عفو و سخاوت سے کام لیا ہے...یہاں تک کہ اپنے چچا جناب حمزہ کے قاتل کو بھی معاف کر دیا تھا...اس یہودی عورت کو بھی معاف کر دیا تھا جس نے آپؐ کی خدمت میں بکری کا زہر آلود گوشت پیش کیا تھا، ابو سفیان کو معاف کر دیا تھا اور جو اس کے گھر میں داخل ہو گیا تھااس کو بھی معاف کر دیا تھا۔ اور قریش کے ان لوگوں سے در گذر کیا تھا جو اپنے رب کے حکم سے رو گرداں تھے اور اس سے اپنی پوری طاقت کے ساتھ ٹکرائے تھے...جس وقت آپؐ عزت و اقتدار کے بلند ترین درجہ پر فائز تھے اس وقت فرمایا تھا:
’’ اللھم اھد قومی فانھم لا یعلمون...اذھبوا فانتم الطلقاء۔‘‘[44]
اے اللہ! میری قوم کی ہدایت فرما کیونکہ یہ لوگ کچھ نہیں جانتے...جاؤ تم سب آزاد ہو۔
’’ولو کنت فظّا غلیظ القلب لا نفضّوا من حولک فاعف عنھم واستغفر لھم۔ ‘‘[45]
اور اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے بھاگ جاتے لہذا انہیں معاف کردو اور ان کے لئے استغفار کرو۔
خدا نے آپ کی رحم دلی اور شفقت و رافت کو اس طرح بیان کیا ہے:
(لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیہ ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رؤوف رحیم)[46]
یقیناًتمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسولؐ آیا ہے جس پر تمہاری مصیبت شاق ہوتی ہے اور تمہاری ہدایت میں رغبت رکھتا ہے اور مومنوں پر شفیق و رحیم ہے ۔
۷۔حیا و انکساری
ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسولؐ کو پردہ نشیں کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا تھی آپؐ اگرکسی چیز سے نفرت کرتے تھے تو اس کا اندازہ آپؐ کے چہرہ سے ہو جاتا تھا۔ [47]
حضرت علیؑ سے روایت ہے : جب رسولؐ سے کسی چیز کا سوال کیا جاتا تھااور آپ اسے پورا کرنے کا ارادہ کرتے تھے تو فرماتے تھے: ہاں اور اگر اسے انجام دینے کا قصد نہیں رکھتے تھے تو خاموش رہتے تھے، لیکن آپؐ کسی چیز کے بارے میں نہیں! نہیں کہتے تھے۔ [48]
یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت ہے کہ رسولؐ نے فرمایا:
’’اٰکلُ کما یاکل العبد و اَجلسُ کما یجلس العبد۔ فانما انا عبد۔‘‘ [49]
میں غلام کی طرح کھاتا ہوں اور غلام کی طرح بیٹھتا ہوں کیونکہ میں بھی ایک بندہ ہی ہوں۔ آپؐ کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ آپؐ بچوں کو بھی سلام کرتے تھے۔ [50]
نبی ؐ ایک شخص سے ہمکلام ہوئے تووہ شخص آپ کے رعب سے تھرتھر کانپنے لگا۔ آپؐ نے فرمایا:
’’ھوّن علیک فانی لست بملک انما انا ابن امرأۃ تاکل القدید۔‘‘[51]
گھبراؤ نہیں! میں بادشاہ نہیں ہوں میں تو اس خاتون کا بیٹا ہوں جو رو کھی سوکھی روٹی کھاتی تھی ۔
ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسولؐ عصا ٹیکتے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے، ہم ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے تو آپ نے فرمایا:
’’لا تقوموا کما تقوم الاعاجم یعظم بعضھم بعضاً۔‘‘ [52]
ایسے مت کھڑے ہو اکرو جیسے عجم والے ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔
اپنے اصحاب سے آپؐ مذاق کرتے تھے لیکن حق کے علاوہ کوئی بات نہیں کہتے تھے[53]، مسجد بنانے [54] اور خندق کھدوانے [55] میں آپؐ بھی اپنے اصحاب کے ساتھ کام کرتے تھے باوجودیکہ آپ عقلمند ترین انسان تھے پھر بھی اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے تھے۔[56]
آپ فرمایا کرتے تھے:
’’ اللھم احیینی مسکیناً وتوفّنی مسکیناً و احشر نی فی زمرۃ المساکین و ان اشقیٰ الاشقیاء من اجتمع علیہ فقر الدنیا و عذاب الآخرۃ۔‘‘[57]
اے اللہ! مجھے مسکین کی زندگی اور مسکین کی موت دینا اور مسکینوں کے ساتھ محشور کرنا اور بلا شبہ بد قسمت ترین شخص وہ ہے جو دنیا کے فقر اور آخرت کے عذاب کا ایک ساتھ شکار ہو۔
یہ تھیں آپؐ کی شخصیت کی بعض خوبیاں اور صفتیں، آپ کے فرد ی و اجتماعی سلوک کی چند جھلکیاں، آپؐ کی انتظامی ، سیاسی، عسکری، اقتصادی اوراسیروں، قیدیوں سے متعلق بہت سی خوبیاں ایسی ہیں جن کی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان میں آپؐ کی تاسی کی جائے ،ان سے درس لیا جائے۔
ہم انہیں آنے والی فصلوں میں بیان کریں گے۔
حوالہ جات
[1] نحل: ۱۰۳
[2] عنکبوت: ۴۸
[3] جمعہ:۲
[4] اعراف: ۱۵۸
[5] نساء: ۱۱۳
[6] مائدہ: ۱۵، احزاب: ۴۶، نساء: ۱۷۴، فتح:۸، زخرف ۲۹، اعراف: ۶۸، غاشیہ ۲۱، اسراء: ۱۰۵، مائدہ:۱۹
[7] انعام: ۱۶۱ تا ۱۶۳
[8] امالی طوسی ج۲ ص ۱۴۱
[9] بحار الانوار ج۸۳ ص ۱۶
[10] اخلاق النبی و آدابہ ص ۲۵۱
[11] ایضاً ص ۲۰۱
[12] سنن النبی ؐ ص ۳۲
[13] اخلاق النبی ص ۱۹۹ صحیح بخاری ج۱ ص ۳۸۱ ح ۱۰۷۸
[14] وسائل الشیعۃ ج۴ ص ۳۰۹
[15] سنن النبی ص ۳۰۰
[16] کافی ج۴ ص ۱۵۵
[17] محجۃ البیضاء ج۲ ص ۲۸۲
[18] ایضاً: ج ۲ص۲۸۴
[19] بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۱۷
[20] ایضا ج ۱۶ ص ۲۵۳
[21] کافی ج۲ ص ۵۰۳
[22] طہ ۱۔۲
[23] زمر:۳۶
[24] شعراء: ۲۱۷ تا ۲۱۹
[25] ریاض الصالحین (للنووی)ص۵ حدیث ۷۸، صحیح مسلم ج۴ ص ۴۶۵
[26] احزا:ب ۳۹
[27] فضائل الخمسہ من الصحاح الستۃ ج۱ ص ۱۳۸
[28] مغازی واقدی ج۱ ص ۲۳۹ و ۲۴۰
[29] طٰہ: ۱۳۱
[30] سنن ترمذی ج۴ ص ۵۱۸ح۲۳۷۷ ۔
[31] سنن ترمذی ج۴ ص ۵۱۸ح۲۳۷۷۔
[32] سنن ترمذی ج۴ ص ۵۰۱حدیث ۲۳۶۰۔
[33] صحیح بخاری ج۵ ص ۲۳۷۱ حدیث ۶۰۹۰۔
[34] صحیح بخار ج۳ ص ۱۰۶۸ ح ۲۷۵۹ ۔
[35] الطبقات الکبریٰ ابن سعد ج۱ ص ۴۰۰۔
[36] مسند احمد ج۳ص ۵۸۲ حدیث ۱۱۸۸۷۔
[37] صحیح مسلم ج۴ ص ۴۸۱ حدیث ۳۳۰۸، مسند احمد ج ۱ ص ۵۹۸ حدیث ۳۴۱۵۔
[38] سنن دارمی ج۱ ص ۳۴۔
[39] المعجم الکبیر (طبرانی ) ج ۲ ۱ ص ۳۳۷، حدیث ۱۳۶۰۷۔
[40] حیات النبیؐ و سیرتہ ج۳ ص ۳۱۱۔
[41] حیات النبیؐ و سیرتہ ج۳ ص ۳۰۶۔
[42] ایضا ج۳ ص ۳۰۷۔
[43] صحیح بخاری ج۵ ص ۲۲۶۰ حدیث ۵۷۳۸۔
[44] محمد فی القرآن ص ۶۰ تا ۶۵ ۔
[45] آل عمران: ۱۵۹۔
[46] توبہ: ۱۲۸ ۔
[47] صحیح بخاری ج۳ ص ۱۳۰۶ حدیث ۳۳۶۹۔
[48] مجمع الزوائد ج۹ ص ۱۳ ۔
[49] الطبقات ( لابن سعد) ج۱ ص ۳۷، مجمع الزوائد ج۹ ص ۱۹۔
[50] حیات النبی و سیرتہ ج۳ ص ۳۱۳، اس میں ابن سعد کے حوالے سے منقول ہے ۔
[51] سنن ابن ماجہ ج۲ ص ۱۱۰۱ حدیث ۳۳۱۲۔
[52] سنن ابی داؤد ج۴ ص۳۵۸ حدیث ۵۲۳۰۔
[53] سنن ترمذی ج۴ ص ۳۰۴، حدیث ۱۹۹۰۔
[54] مسند احمد ج۳ ص ۸۰۔
[55] طبقات ، ابن سعد ج۱ ص ۲۴۰۔
[56] الدر المنثور ج۲ ص ۳۵۹، مواہب اللدنیہ ج۲ ص ۳۳۱۔
[57] سنن ترمذی ج۴ ص ۴۹۹ حدیث ۲۳۵۲۔
ماخوذ از کتاب منارہ ہدایت، جلد ۱، ناشر اہل بیت(ع) عالمی اسمبلی