وحدانیت کا یہی تصور وحدت نظام کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ یعنی اﷲ کے علاوہ اگر اور بھی الٰہ ہوتے تویہ کائنات اتنی منظم نہ ہوتی ۔صرف یہی نہیں اﷲ نے ’’ہرشئے کو ٹھیک ٹھیک اندازے پرپیدا کیا ہے اور ہرشئے کا ایک مقصد ہے ۔ ہم اگر اس مقصد کو پوری طرح سمجھ نہیں پاتے تو صرف اس لئے کہ ہمارے علم کی مثال ایسی ہی ہے جیسے ایک لق ودق تاریک جنگل میں کوئی جیبی سائز کی ٹارچ لئے ٹہل رہا ہو۔ یہی مقصد کی وحدت انسانیت کو ایک بامعنی اور متحرک نظام میں تبدیل کردیتی ہے۔ پالنے والے تونے کوئی چیز بے کار نہیں بنائی ہے۔ ۔ ۔ دُنیامیں رہتے ہوئے انسان کی زندگی کامقصد یہ ہے کہ وہ سنتِالٰہی کاعلم حاصل کرے جو کبھی تبدیل نہیں ہوتی وہ فطرت کے اُصولوں کوسمجھے اور ان کی بنیاد پر علم کومزید ترقی دے فطرت کے وسائل کو ضائع ہونے سے بجائے اور دُنیا کو سجائے سنوارے باب مدینۃ العلم کا قول ے کہ ’’علم دوطرح کے ہوتے ہیں۔
مطبوع اور مسموع۔ مطبوع وہ جو فطرت میں رچ بس کر عمل سے ظاہر ہو اورمسموع وہ ہے کہ سن تو لیا مگر عمل ندارد ۔ تو مسموع علم جب تک مطبوع نہ ہو فائدہ مند نہیں ہوتا اﷲ نے اپنی دو کتابوں کوعلم کا ذریعہ بنایا ہے۔ ایک الکتاب یعنی قرآن اور دوسرے کتاب فطرت یعنی اَنفُس اور آفاق۔ یعنی مخلوقات سمیت کل کائنات۔ آنحضرت نے ارشاد فرمایا کہ ’’علم اس سے سوا ہے کہ شمار میں آئے۔ بس تم بہترین عناصر کاانتخاب ’’کرلو ‘‘اسی لئے اﷲ نے اپنی بے پناہ رحمت سے کام لیتے ہوئے پوری کائنات کوانسان کے لئے مسخر کردیا ہے تاکہ علم کے سفر میں ہدایت کی راہ پر جبر کا کوئی روڑہ نہ آنے پائے۔ کیا تم نے اس پر غور نہیں کیا کہ جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جوکچھ زمین میں ہے سب کچھ اﷲ نے تمہارے لئے مسخر کر دیا ہے اور تم پراپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کردی ہیں۔ (سورہ لقمان آیت ۲0)