جب آپ ديکھتے ہيں کہ آپ کے سامنے کوئي گناہ کا مرتکب ہوتے ہوۓ دين کو نقصان پہنچاتا ہے تو آپ کا ردعمل کيا ہوتا ہے ؟ کيا آپ اسے نظرانداز کرکے قريب سے گزر جاتے ہيں ؟ يا اپنا راستہ بدل ليتے ہيں ؟ اسے برا بھلا کہتے ہيں يا اس کي ہدايت کے ليۓ دعا کرتے ہيں ؟ شفقت کے ساتھ اسے خبردار کرتے ہيں يا سخت رويہ اختيار کرکے غصّے کا اظہار کرتے ہيں ؟
حقيقت ميں ہر گناہ پر موقع اور شرائط کے لحاظ سے ديکھنے والے کا ردّعمل مختلف ہونا چاہيۓ - انسان کو ہميشہ نرم اور خوش اسلوب نہيں رہنا چاہيۓ اور ہميشہ آپے سے باہر ہو کر اپنے غصّے کو ظاہر بھي نہيں کرنا چاہيۓ - درحقيقت ايک عقلمند شخص زمان و مکان کي موقيعيت ، گناہگار شخص ، گناہ کي نوعيت ، غلطي کي شدت وغيرہ وغيرہ کے مطابق مناسب ردّعمل کا اظہار کرتا ہے تاکہ اس کے بہترين نتائج حاصل ہوں -
غصّے کا اظہار کريں
آپ يہ اچھي طرح سے جانتے ہونگے کہ تورات مقدس کے احکامات کو دريافت کرنے کے ليۓ حضرت موسي عليہ السلام کو 30 راتيں کوہ طور پر بلايا گيا اور اس عرصے ميں حضرت موسي عليہ السلام نے اپنے بھائي حضرت ہارون عليہ السلام کو اپنے جانشين کے طور پر بني اسرائيل ميں چھوڑ ديا ليکن اللہ تعالي نے اس مدت کو بڑھا کر چاليس راتيں کر ديا اور يوں حضرت موسي عليہ السلام کي غيبت کا يہ عرصہ جب زيادہ ہوا تو بني اسرائيل کے لوگ سامري کے دھوکے ميں آ گۓ - انہوں نے توحيد کو ترک کر ديا اور بچھڑے کے پرستار بن گۓ -
حضرت موسي عليہ السلام جب کوہ طور سے واپس آۓ تو يہ حالات ديکھ کر بہت غصّے ميں آ گۓ -
:"رَجَعَ مُوسي إِلي قَوْمِهِ غَضْبانَ أَسِفاً" (اعراف/150)
" جب موسي نہايت غصے اور رنج کي حالت ميں اپني قوم کي طرف آۓ "
- قرآن مجيد کي تعبير کے مطابق سر سے پاؤ ں تک غصّے سے بھر گۓ اور غم کي گہرائي نے حضرت موسي عليہ السلام کے نفس کو بوجھل کر ديا - وہ بڑي شدت کے ساتھ بني اسرائيل کے مستقبل کے بارے ميں پريشان ہو گۓ کيونکہ خراب کاري اور فساد بےحد آسان کام ہوتا ہے اور بعض اوقات ايک ہي آدمي کے ہاتھ سے بڑي خرابياں ہو جاتي ہيں ليکن اس کي درستگي اور اصلاح نہايت مشکل کام ہوتا ہے - يہاں بےحد ضروري تھا کہ حضرت موسي عليہ السلام اپنے شديد ترين غصّے اور ناراضگي کا ظہار کرتے - اس طرح سے بني اسرائيل کے لوگوں کے خيالات کو تبديل کرتے ہوۓ ان کے معاشرے ميں ايک حقيقي انقلاب برپا کرتے جبکہ دوسري صورت ميں ان کا واپس آنا ممکن ہي نہ تھا -
قرآن اس واقعہ کے متعلق حضرت موسي عليہ السلام کے شديد ردعمل کو يوں بيان کرتا ہے -
" موسي نے جلدي سے تورات کي تختيوں کو ايک طرف پھينکا اور اپنے بھائي ہارون عليہ السلام کي تلاش ميں نکل گۓ اور ان کي سرزنش کرتے ہوۓ انہيں برا بھلا کہا اور انہيں صدا لگا ئي کہ کيا تم نے بني اسرائيل کے معاشرے کي حفاظت ميں کوتاہي کي ہے ؟ "
حضرت موسي کا غصہ ، بے قراري کي کيفيت ، بت پرستي اور منحرف ہونے پر شديد ناراحتي کا احساس حقيقت ميں يہ سب ان کي اندروني حالت کو ظاہر کر رہے تھے - دوسري طرف ان کا يہي غصّہ بني اسرائيل کے لوگوں کے سوۓ ہوۓ ذہنوں کو جھنجھوڑنے اور انہيں ان کے اعمال کي بدترين گندگي سے آگاہ کرنے کے ليۓ بہترين ذريعہ بنا - ظاہري طور پر حضرت موسي کا تورات کي تختيوں کو پھينکنا اور اپنے بھائي کي تنبيہہ کرنا درست عمل معلوم نہيں ہوتا ليکن حقيقت يہ ہے کہ شديد غصے اور سخت ردّعمل کے بغير بني اسرائيل کے لوگ اپني غلطي کي گہرائي کو سمجھنے سے قاصر رہتے اور يہ ممکن تھا کہ بت پرستي کے آثار ان کے ذہنوں کي گہرائيوں ميں باقي رہ جاتے - اس ليۓ اس کام کا انجام دينا بےحد ضروري تھا -
اس شديد ردّعمل اور غصّے کے اظہار نے بني اسرائيل پر ايک تربيتي اثر چھوڑا جس سے سامنے آنے والا منظر مکمل طور پر بدل گيا - اس کے برعکس اگر موسي عليہ السلام نرم الفاظ سے انہيں نصيحت کرتے تو احتمال بہت کم تھا کہ وہ لوگ ان کي بات کو تسليم کرتے -
اس ليۓ اس واقعہ سے يہ بات سامنے آتي ہے کہ منحرف عقائد کے مقابلے ميں ديني غيرت کا مقابلہ کرنا چاہيۓ اور يہ خصلت اللہ تعالي کے وليوں کي صفات کو ظاہر کرتي ہے - ايسا غضب و غصہ جو عقيدہ سے منحرف ہونے والوں کي پاکيزگي کے ليۓ خدا کي راہ ميں ہو ، وہ قابل مذمت نہيں ہے بلکہ تربيت کے ليۓ لازمي جزو شمار ہوتا ہے - اگر مسلمان معاشرے ميں کوئي انحراف سامنے آۓ جو دين اور عقيدے کي کمزوري کا باعث بنے تو اس کے ساتھ سختي سے پيش آنا چاہيۓ -
source : http://www.tebyan.net