مزید برآں یہودیوں اور عیسائیوں کے بارے میں ایسی آیات کوجو بظاہر عناد بھری لگتی ہیں ان کے مخصوص سیاق وسباق کے ساتھ پڑھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر بعض آیات اُس وقت نازل ہوئی تھیں جب مسلمانوں کے اتحادی ایک یہودی قبیلے نے ان کے ساتھ غداری کی تھی۔ فطری طور پر مسلمانوں کو خبردار کیا گیا کہ وہ دوسری کمیونٹیز کو اتحادی یا محافظ نہ بنائیں۔
لیکن کیا اس طرح کے مخصوص واقعات کے حوالے سے نازل ہونے والی قرآنی آیات کو دورِ حاضر میں مسلمانوں، عیسائیوں اور یہودیوں کے تعلقات پر عمومی طور پر لاگو کیا جا سکتا ہے؟
قرآن میں کم وبیش درجن مرتبہ تورات اور انجیل کا ذکر آیا ہے، اور ہمیشہ اچھّے الفاظ میں آیا ہے، اور انہیں بنی نوع انسان کے لئے “رہنمائی اور روشنی” قرار دیا گیا ہے۔ اُن کے پیروکاروں میں سے جو لوگ نیکوکار ہوں گے، نیکو کار مسلمانوں کی طرح “نہ اُن کے لئے کوئی ڈر ہے اور نہ وہ کبھی غمگین ہوں گے ( قرآن 2:62)۔”
مُوسٰی علیہ السلام کا نام قرآن میں کم از کم 136 مرتبہ لیا گیا ہے اور یہ ذکر ایسے قصّے دہراتے ہوئے کیا گیا ہے جو انجیل کے قاری کے لئے بہت شناسا ہیں: خاص طور پر بنی اسرائیل کو غلام بنانے پر فرعون کے ساتھ ان کے ٹکراؤ کا کئی بار ذکر کیا گیا ہے۔
اِسی طرح یسوع مسیح کا ذِکر بھی 25 مرتبہ آیا ہے جنہیں عربی میں عیسٰی (علیہ السلام) کہا جاتا ہے۔ انہیں مسیحا، ابنِ مریم، اور روح اللہ کے القابات سے بھی پکارا گیا ہے۔ قرآن میں ان کی زندگی کے بارے میں انجیل میں بیان کی گئی کہانیوں کو دہرایا گیا ہے جن میں کنواری ماں کے یہاں اُن کی پیدائش، اندھوں کو بصارت اور کوڑھیوں کو شفا دینے کی کرامت، مُردوں کو زندہ کرنا شامل ہیں۔
درحقیقت قرآنِ پاک کی پانچویں سورة کا عنوان عشائے رباّنی یعنی حضرت عیسٰی کے آخری کھانے کے حوالے سے رکھا گیا ہے۔ اسی طرح بی بی مریم کا ذکر 34 دفعہ کیا گیا ہے، ایک سُورة کا عنوان بھی انہی سے موسوم ہے اور انہیں تمام مخلوقات میں سب سے ذی وقار خاتون کہا گیا ہے۔
اسلام نے تو مسلمانوں کو یہودیوں اور عیسائیوں کے ساتھ شادیاں کرنے کی اجازت بھی دی ہے۔ البتہ پِدر سری رسومات کی وجہ سے اور اس وجہ سے بھی کہ مذکورہ آیات صرف مَردوں سے مخاطب ہوتی ہوئی نظر آتی ہیں، مسلمان عورتوں کے لئے کسی یہودی یا عیسائی مرد کے ساتھ شادی کرنا عموماً مشکل ہوتا ہے (کیونکہ وہ کُنبے کا سربراہ تصوّر ہوگا)۔
قرآن میں حضرت عیسٰی یا انجیل، حضرت مُوسٰی یا تورات کے بارے میں کوئی ایک حوالہ بھی ایسا نہیں جو ان کی تصدیق یا احترام سے ہٹ کر ہو۔ یہ ان لوگوں کے لئے یقین دہانی ہے جو اس پر یقین رکھتے ہیں کہ خدا نے بنی نوع انسان کے لئے کوئی ایک مذہب ہی نہیں بھیجا جو صدیوں تک کروڑوں زندگیوں پر چھایا رہے اور پھر ایک ایسا مذہب بھیجا جائے جو “کامل” ہو یا اس کی “تکمیل کرے”۔ جیسا کہ بعض مسلمان یہودیت اور عیسائیت کے بارے میں اسلام کے اِس کردار کو سمجھتے ہیں۔
اسلام کا عیسائیت کے ساتھ ایک مذہبی اختلاف ہے اور وہ یہ ہے کہ حضرت عیسٰی علیہ السلام کو خدا کا بیٹا نہیں بلکہ برگزیدہ پیغمبر سمجھا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود مجموعی پیغام پھُوٹ ڈالنے کا نہیں بلکہ مِل جُل کر رہنے کا ہے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ ہر اُس شئے کو اپنا لیتے ہیں جس سے ہم اُن چیزوں کے بارے میں خوف یا نفرت کے احساسات کو گہرا کر سکتے ہیں جو ہماری سمجھ میں نہیں آتیں اور اس خوف کو اپنی اور دوسروں کی مقدّس کتابوں سے جوڑ کر مزید ہوا دیتے ہیں۔ زیرِ نظر مثال میں وہ کتاب قرآن ہے۔ اگر ہم اِس کے الفاظ پر کھُلے ذہن کے ساتھ غور کریں تو ہمیں یہ یقین ضرور ہو جائے گا کہ اس کا پیغام کتنا مانوس ہے اور اس کی بازگشت کہاں تک سنائی دے رہی ہ